رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزٹ بُکس میلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان ۔
کل کچہری اپنے چیمبر میں بیٹھا تھا کہ اچانک تین دوست رزاق شاہد ، طارق اسماعیل احمدانی اور شھزاد تشریف لے آئے۔ اور سلام دعا میں ھی ڈیرہ غازیخان چلنے کا حکم صادر کردیا۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کا بہانہ ظاہر کیا تو آگے سے غازی یونیورسٹی ، بکس میلہ ، فکشن ہاؤس کے کامریڈ ظہور کا ذکر ہوا ۔ محبت کے مارے کسی انسان کیلئے خوشی کا ایک سبب بہت ہوتا ھے اور مجھے غازی یونیورسٹی کے وزٹ، فکشن ہاؤس کی اور اس کے ذریعہ بے شمار کتابوں کے ایک جگہ میسر خزانے اور علم پھیلانے کی گذران کرتے مہربان اور کامریڈ ظہور سے ملاقات کی بیک وقت تین خوشیاں میسر آ رھی تھیں تو کفر/انکار کی جرات کیونکر ہو سکتی تھی ۔۔۔۔۔
غازی یونیورسٹی پہنچے ، مرکرزی دروازے سے داخل ہوتے ھی ھمارے اُس گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ غازیخان کے جس میں زندگی کے چار بہترین سال (ایف اے، بی اے کرتے ہوئے) گزارے تھے اس کی شناخت اور حیثیت ختم کرکے یونیورسٹی میں بدلنے کے دکھ سے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ (یہ ریاست کی اپنے روشن مستقبل، اور علم و تحقیق سے بے پرواھی کا جرم ھے کہ تعلیم پر زیادہ سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے کی بجائے سکولوں میں کالج اور کالجوں میں یونیورسٹیاں گھسیڑنے کی پالیسی اختیار کی گئی ھے۔۔۔)
کالج/یونیورسٹی کی راہداریوں سے گزرتے ، گراسی پلاٹس میں بیٹھے ، مختلف جگہوں پر ٹولیوں کی شکل میں چہکتے طلباء و طالبات کو دیکھ کر اسی ادارے میں قدم قدم بکھری یادیں ایک ایک کر کے تازہ ہونے لگیں تو ساغر صدیقی کے اس شعر نے مسرتوں کی اس کیفیت کو دوبالا کردیا کہ
کون کہتا ھے کہ عمرِ رفتہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
غازی یونیورسٹی میں اپنی منزلِ مقصود فکشن ہاؤس کے بکس سٹال پہ پہنچے۔ کامریڈ ظہور کو گلے لگایا۔ ملن کی خوشی کا یہ منظر دیدنی تھا، پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ وہ ھم سے مل کے زیادہ خوش تھے یا ان سے مل کے ھم ۔۔۔۔
ابھی ھم سلیقے سے سجائے کتابوں کے خزانے کو دیکھنے کی طرف مائل ھی ہوئے تھے کہ کامریڈ ظہور نے ھم دوستوں کے ہاتھ ھمارے بہت ھی پیارے دوست، استاد، راہنما اور کامریڈ سئیں نذیر لغاری کی نئی چھپی ، دنیا کے بہت بڑے شعراء کے کلام کے سرائیکی ترجمے کی کتاب ” بھوئیں کوں کون وسارے” یہ کہتے ہوئے تھما دی کہ نذیر لغاری صاحب کی طرف سے آپ دوستوں کیلئے تحفہ ۔ ایک بار پھر اندازہ کرنے کی مشکل آن پڑی کہ یہ واقعی کامریڈ نذیر لغاری کیطرف سے تحفہ تھا یا کامریڈ ظہور کا اپنی طرف سے انکساری کی دولت کیساتھ محبت کا اظہار ۔۔۔۔ اور پھر ھم کون کہ محبتوں میں تفریق کے جرم کے مجرم ٹھہریں ؟ سو "بھوئیں کوں کون وسارے ” سینے سے لگائے کافی دیر سٹال پہ رھے اور حسبِ استطاعت کتابیں خریدیں جو نصف قیمت پہ مل رھی تھیں ۔۔۔
یونیورسٹی بکس سٹال پہ اساتذہ، طلباء و طالبات کی ٹولیوں اور علم کے متلاشی دیگر دوستوں کی کتابوں سے لگن دیکھ کے ھمارے اس یقین کو مزید پختگی ملی کہ گالی، گولی ، بم اور بندوق پر علم و شعور سے فتحیاب ہو کر ، استحصال سے پاک غیر طبقاتی سماج کے ذریعے انسانیت نے بالآخر سرخرو ہو کے رہنا ھے ۔۔۔۔۔
بکس میلے سے لوٹ رھے تھے کہ طلباء کی بِھیڑ سے تیزی سے نکل گلریز آصف نے جو سرائیکی کے فقیر منش مگر مہان شاعر سیف اللہ آصف کا بیٹا ھے ہمیں اپنے دوستوں سمیت پکڑ لیا۔ چائے پانی پینے اور کچھ وقت مل بیٹھنے کی محبت کا اظہار کیا۔ ھم کہ ہر ہر پَل چاہت کے متلاشی تو اور کیا چاہتے؟۔ فوراً مان گئے۔ وہ ہمیں اپنے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ لے گئے، اپنے استاد پروفیسر اظہر مقصود حیدرانی صاحب سے ملوایا۔ جو بہت شفیق ، عالم اور مہربان دوست اور استاد ہیں۔ چائے کی مختصر محفل میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وقت کی تنگ دامنی آڑے آئی تو ان سے اجازت چاھی ۔۔۔۔۔۔۔
گلریز آصف ، اس کے دیگر دوستوں کے پیار ، نوجوانوں کے پاکستانی سیاست، سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے کردار، سامراجی تسلط اور سوشلزم بارے سوالات کے جوابات کی تشنگی کیساتھ اگلی بار سیر حاصل ملاقات کے وعدے کیساتھ سارا وقت خوشیوں سے لبریز یوں گذرا کہ واقعی محسوس ہوا کہ اس وزٹ کے ایک پل میں جیسے صدیاں گذار آئے۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ