وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(چار مارچ) جنگلی حیاتیات کے تحفظ کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ اس دن پچاس برس قبل انیس سو تہتر میں اقوامِ عالم نے معدوم حیاتیات و نباتات کے تحفظ کے عالمی کنونشن (سائٹس) پر اتفاق کیا تھا اور اب ایک سو بیاسی ممالک اور یورپی یونین اس کے ممبر ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے لیے نہ صرف بین الاقوامی قوانین پر عمل کریں بلکہ مقامی سطح پر بھی موثر قانون سازی کریں۔
آخر ہمیں جنگلی حیاتیات و نباتات کے بارے میں اتنا حساس کیوں ہونا چاہیے؟ جنگلی پودوں اور جانوروں کے لیے نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے۔ اگر ہم ان کا تحفظ نہیں کریں گے اور انھیں زندہ رہنے کے لیے ضروری رقبہ، خوراک اور عدم مداخلت والا ماحول مہیا نہیں کریں گے تو پھر وہ معدوم ہوتے چلے جائیں گے اور قدرت نے جو حیاتیاتی دائرہ تخلیق کیا ہے وہ بھی تحلیل ہو جائے گا۔
ہر اک شے کا تعلق ہے دوسری شے سے
ہوا چلی تو بکھرنے لگے خس و خاشاک
(عارف امام)
یعنی کسی ایک پودے یا جانور کا معدوم ہونا کرہِ ارض پر موجود زندگی کے دائرے کی ایک کڑی ٹوٹنے جیسا ہے، اور اگر یہ دائرہ پوری طرح ٹوٹ گیا تو پھر اشرف المخلوقات بھی معدومی سے نہیں بچ سکتی۔
بری خبر یہ ہے کہ یہ حیاتیاتی دائرہ نصف سے زائد ٹوٹ چکا ہے۔ انیس سو ستر سے اب تک معلوم جنگلی حیات ساٹھ فیصد تک معدوم ہو چکی ہے۔ رفتار یہی رہی تو اگلے بیس برس میں ہمارے نواسے نواسیاں اکثر چرند، پرند اور بحری مخلوق صرف تصاویر میں ہی دیکھ پائیں گے اور یہ تصاویر دیکھنے والی بھی غالباً یہ آخری نسل ہو گی۔
لیکن جیسا کہ ہوتا ہے ہر معاہدے اور ہر ادارے میں شکار اور شکاری ساتھ ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ سائٹس کنونشن کے تحت پودوں کی لگ بھگ تیس ہزار اور جانوروں کی چھ ہزار اقسام کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ان میں سے اکثر کی تجارت ممنوع ہے اور کچھ کی مشروط یا کنٹرولڈ تجارت کی اجازت ہے۔
آج اس سائٹس کنونشن کی تشکیل کے پچاس برس بعد بھی یہ عالم ہے کہ ہر سال ڈھائی کروڑ ایکٹر کے مساوی جنگل صاف کیا جا رہا ہے۔ دنیا کا پھیپھڑا کہے جانے والے ایمیزون کو لالچ کی چھری سے عقل کے اندھے کہ جن کی آنکھوں پر منافع کی پٹی بندھی ہے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسلسل ختم کر رہے ہیں۔
کانگو بیسن کا استوائی جنگل ایمیزون کے بعد کرہِ ارض کا دوسرا پھیپھڑا ہے۔ اور وہاں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی مغربی کمپنیوں کی پروردہ مقامی مسلح ملیشائیں خام معدنیات، قیمتی لکڑی اور قیمتی چرند پرند لوٹ کے اور شکار کر کے نہ صرف اپنا خرچہ پورا کر رہے ہیں بلکہ اس خام مال سے چین، یورپ اور امریکا کی فیشن انڈسٹری، کنسٹرکشن انڈسٹری، الیکٹرانکس، ادویہ سازی اور سائنسی لیبارٹریوں کی تجرباتی بھوک کا منافع خور پیٹ بھر رہے ہیں اور بھوک ہے کہ مسلسل بھڑکتی جا رہی ہے۔ ایسے ہی انسانوں کے لیے قولِ علی ہے کہ ”کچھ پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے“ ۔
جس اندھا دھند انداز سے استوائی جنگلات کو قیمتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں سے خالی کیا جا رہا ہے۔ اس کے سبب دنیا کی نصف آبادی کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کرہِ ارض کی پچاس فیصد آبادی کا دار و مدار ہی جڑی بوٹیوں پر ہے کیونکہ اس آبادی کو جدید طبی سہولتوں تک سستی اور تسلی بخش رسائی نہیں ہے۔ دوا ساز کمپنیاں ان جڑی بوٹیوں کو مالِ مفت دلِ بے رحم کی قیمت پر خریدتی ہیں اور سونے کے بھاؤ انھی لوگوں کو لوٹا دیتی ہیں کہ جن کی زندگیوں کی ضامن صدیوں سے یہ جڑی بوٹیاں اور ان کے طبی و غذائی مرکبات ہیں۔
سائٹس کو قائم ہوئے پچاس برس گزر چکے ہیں۔ ان پچاس برسوں میں جنگلی حیاتیات کی غیر قانونی تجارت کا حجم دس سے تئیس ارب ڈالر سالانہ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ منشیات اور ہتھیاروں کی منافع بخش تجارت کے بعد جانوروں کی غیرقانونی تجارت سب سے زیادہ منافع بخش جرائم میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ گینڈے کے ایک کلو سینگوں کی عالمی منڈی میں قیمت ایک کلو کوکین، ایک کلو ہیروئن اور ایک کلو سونے کی ویلیو سے بھی دگنی ہے۔ اسی سبب افریقہ سفید گینڈے سے خالی ہو چکا ہے اور بھورے گینڈے کی نسل بس چند برس کی مہمان ہے۔
ہاتھی دانت نے ہاتھی کی نسل ہی معدومیت کے دہانے پر پہنچا دی۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ انیس سو اناسی میں افریقہ میں تیرہ لاکھ ہاتھی تھے۔ اگلے دس برس میں ( انیس سو نواسی ) ان کی تعداد چھ لاکھ رہ گئی۔ دو ہزار دس اور بارہ کے درمیان مزید ایک لاکھ ہاتھی قتل ہوئے۔ حالانکہ سائٹس کنونشن کے تحت ہاتھی دانت کی بلا اجازت تجارت قابلِ سزا جرم ہے۔
ان ہاتھی دانتوں کی سب سے زیادہ کھپت چین میں ہے اور چین سائٹس کنونشن کا ممبر بھی ہے۔ چین کا موقف یہ ہے کہ کوئی سرکاری ادارہ اس جرم میں ملوث نہیں۔ نجی طور پر اگر کوئی یہ حرکت کر رہا ہے تو ہم کہہ نہیں سکتے۔ حالانکہ چین کا شمار ڈیجیٹل دور کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پرندہ بھی غیرقانونی طور پر پر مارے تو قانون نافذ کرنے والا کوئی نہ کوئی ادارہ پھڑپھڑا اٹھتا ہے۔
بہت سے جانور محض اس لیے مارے جاتے ہیں کیونکہ ان کی کھال کی عالمی فیشن انڈسٹری کو ضرورت ہے۔ اس لالچ میں شیر، چیتے، ہرن، بارہ سنگھے، سیل مچھلی، فر والے جانور غرض سب ہی معدومی کے دہانے پر پہنچا دیے گئے۔
مردانہ قوت کی دواؤں کی تیاری میں بعض نایاب چرند و پرند کے عضویات کی مانگ کبھی کم نہیں ہوتی۔ حالانکہ سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان جانوروں کے لحمیاتی اجزا کے استعمال سے جنسی قوت کی بڑھوتری کا کوئی لینا دینا نہیں۔
مزید قیامت اس ہوس نے ڈھائی ہے کہ نایاب جانوروں کا گوشت کھانا اسٹیٹس سمبل ہے اور یہ بذاتِ خود اربوں ڈالر کی مارکیٹ ہے۔ مثلاً پوری پوری شارک اس لیے ہلاک ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے بازوؤں سے بننے والا سوپ امرا کی عیاشی میں شمار ہوتا ہے۔ زیبرے کی کھال جتنی مہنگی بکتی ہے اس کے گوشت کی بھی اتنی ہی مانگ ہے۔ حتیٰ کہ زندہ بندروں کا مغز اور زندہ سانپ کا خون بھی ایک ”ڈیلیکیسی“ شمار ہوتی ہے۔
اس کا خمیازہ انسان کو ایبولا، برڈ فلو اور کورونا کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ بیماریاں جانوروں اور انسانوں کے درمیان قائم نیچرل بیریئر توڑنے کی سزا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ ایک انسان نے پوری انسانیت کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جب یہ آدم ذات دوسری حیاتیات پر ہاتھ صاف کر چکے گا تو اس کے بعد خود کو بھی کھا جائے گا۔ بیشک انسان خسارے میں ہے اور انسان کے سبب باقی فطرت خسارے میں ہے۔
بس یہی یاد دلانے کے لیے ہر سال جنگلی حیاتیات و نباتات کی بقا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر