دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90روز میں انتخابات کرائیں سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کور ٹ نے پنجاب،خیبرپختونخوا اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے،سپریم کورٹ

پنجاب،خیبرپختونخواالیکشن ازخودنوٹس فیصلے کا 13صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ بھی تحریری حکم کا حصہ
ازخودنوٹس جلد بازی میں لیا گیا ، جسٹس منصور علی ، جسٹس جمال مندوخیل ، تحریری فیصلہ
ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، اختلافی نوٹ تحریری فیصلہ
معاملہ ہائیکورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی ، جسٹس منصور علی ، جسٹس جمال مندوخیل
ہائیکورٹس میں معاملہ ازخود کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، دو ججز کا اختلافی نوٹ
ہائیکورٹس میں زیر التوا مقدمات کا جلد فیصلہ کرے، دو ججز کا مشترکہ اختلافی نوٹ
الیکشن کمیشن 90 دن کی ڈیڈلائن اور سیکشن 57/58 مدنظر رکھتے ہوئے صدر کو تاریخ تجویز کرے، فیصلہ
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں، سپریم کورٹ
ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے تین بنیادی سوالات کا جائزہ لیا ،تحریری فیصلہ
پارلیمانی جمہوریت آئین اہم حصہ ہے، سپریم کورٹ تحریری فیصلہ
دوسرا سوال کہ آئینی کردار کون اور کب ادا کرے گا؟ سپریم کورٹ تحریری فیصلہ
تیسرا سوال کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا انتخابات میں کیا کردار ہوگا، سپریم کورٹ
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں، تحریری فیصلہ
گورنر اسمبلی تحلیل کے تو 90روز میں انتخابات لازم ہیں ، سپریم کورٹ تحریری فیصلہ
گورنر اسمبلی تحلیل کرے توالیکشن کی تاریخ بھی دے گا ، سپریم کورٹ تحریری فیصلہ
صوبوں کو آئین کے مطابق چلانا وفاق کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ
صوبوں میں وقت پر انتخابات کرانا بھی وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ
آئین کے مطابق ریاستی ادارے الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کی مدد کے پابند ہیں، عدالت
وفاقی حکومت بروقت انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد دینے کی پابند ہے، سپریم کورٹ
نگران صوبائی حکومتیں بھی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی مدد کرنے کی پابند ہیں، سپریم کورٹ
‏جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ کے 23 فروری کے نوٹ سے متفق ہیں،دو ججز کا نوٹ
پنجاب خیبرپختونخوا الیکشن از خود نوٹس اور پی ٹی آئی آئینی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، نوٹ
پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات از خود نوٹس اور پی ٹی آئی آئینی درخواستیں مسترد کرتے ہیں، نوٹ

سپریم کورٹ نے پنجاب،خیبرپختونخواالیکشن ازخودنوٹس کیس کامحفوظ فیصلہ سنادیا
سپریم کور ٹ نے پنجاب،خیبرپختونخوا اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں
بینچ کے اکثر ججز نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا، چیف جسٹس عمرعطابندیال
عدالت نے 90روز میں انتخابات سے متعلق درخواستیں منظور کرلیں
سپریم کورٹ میں فیصلہ تین دوکے تناسب سے سامنے آیا
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ
ہمارے سامنے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ کا معاملہ آیا،چیف جسٹس عمرعطابندیال
آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے،سپریم کورٹ
گورنر کی منظوری نہ ہونے پر پنجاب اسمبلی 48 گھنٹوں میں تحلیل ہوئی،سپریم کورٹ
خیبرپختونخوا اسمبلی کی صورتحال مختلف ہے،سپریم کورٹ
انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونا ہیں،سپریم کورٹ
پارلیمانی جمہوریت آئین کا سیلینٹ فیچر ہے،سپریم کورٹ
جمہوریت میں پارلیمانی نظام ایک اہم ستون ہے،سپریم کورٹ
اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے،سپریم کورٹ
ایسی صورتحال خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہوئی اور گورنر نے اسمبلی ختم کردی ،سپریم کورٹ
پنجاب اسمبلی 14، کے پی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی،سپریم کورٹ
پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی، سپریم کورٹ
جب گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کی ہو تو پھر بھی مقررہ وقت میں الیکشن کرانا لازمی ہے،عدالت
پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی، سپریم کورٹ
اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے،سپریم کورٹ
الیکشن کمیشن ایکٹولی گورنر اور صدر کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے،سپریم کورٹ
خیبر پختونخواکی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے،سپریم کورٹ
گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی،سپریم کورٹ
صدر نے 9اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا،سپریم کورٹ
اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہ کیا،سپریم کورٹ
اب الیکشن کمیشن صدر کے ساتھ مشاورت کرے معاملے کو حل کرے،سپریم کورٹ
وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے،سپریم کورٹ
الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے،سپریم کورٹ
9اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے،سپریم کورٹ
یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریگا، سپریم کورٹ
الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں تمام سہولیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کا پابند ہے، سپریم کورٹ

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ

پہلے سے 2درخواستیں موجودتھیں ،اختلافی نوٹ
پہلے سےموجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی،اختلافی نوٹ
ظہور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں،اختلافی نوٹ
جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو،اختلافی نوٹ
منظور الہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا،اختلافی نوٹ
ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے،اختلافی نوٹ
90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں،اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے،اختلافی نوٹ
23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں،اختلافی نوٹ

28فروری کو ہونے والی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ ،پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت
5رکنی بینچ پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کررہاہے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی بینچ کا حصہ
پی ٹی آئی ،پیپلزپارٹی کے وکلا سپریم کور ٹ میں موجود
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سپریم کورٹ میں پیش
اسلام آباد ہائیکور ٹ بار کی درخواست پر وکیل عابد زبیری کی جانب سے دلائل
میں دلائل دینے کیلئے تیار ہوں،اٹارنی جنرل
عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا،اٹارنی جنرل کا اعتراض
سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، اٹارنی جنرل
جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا،چیف جسٹس عمرعطابندیال
جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری کے دلائل
عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے،اٹارنی جنرل کا اعتراض
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں،عابد زبیری
سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں، عابد زبیری
موجودہ کیس میں گورنر نے قائم مقام حکومت پنجاب میں بنائی،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
آرٹیکل 105/3 قانون کہتا ہے کہ گورنر کو الیکشن کے لیے تاریخ دینا ہوتا ہے ، عابد زبیری
18ویں ترمیم سے پہلے صدر تاریخ کا اعلان کرسکتا تھا ،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
کیا یہ درست نہیں کہ گورنر کا اقدام صدر کا اقدام ہوتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
اگر گورنر اسمبلیاں ختم نہیں کرتا تو پھر کیا صورتحال ہوگی، اس پر دلائل دونگا، عابد زبیری
آرٹیکل 224اے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صدر یا گورنر قائم مقام حکومت بنائینگے، عابد زبیری
آرٹیکل105/3میں تاریخ دینے کی بات کی گئی ہے ،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
کیا حکومت تا ریخ دینے پر ایڈوائس نہیں کرسکتی؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سوال
ایسی کوئی قد غن نہیں لیکن حکومت نے ایسی ایڈوائس نہیں کی، عابد زبیری
پھر آج اس پر ایڈوائس کروالیں، جسٹس جمال مندوخیل
90دن کا وقت اسمبلی تحلیل ہونے کیساتھ شروع ہو جاتا ہے، جسٹس منیب اختر
اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟جسٹس منیب اختر
الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ کا سوال
الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلیٰ کا نہیں،وکیل عابد زبیری
عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے،اٹارنی جنرل کا اعتراض
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں،عابد زبیری
سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں، عابد زبیری
گورنر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے،وکیل عابد زبیری
نگران وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے،وکیل عابد زبیری
آپ 105 آرٹیکل میں ترمیم کے بعد کی صورتحال بتا رہے ہیں، چیف جسٹس کا عابد زبیری سے مکالمہ
یہ معاملہ شاید صدر کا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل کا مکالمہ
ایسی صورتحال میں جب گورنر کردار ادا نہ کریں تو صدر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، عابد زبیری
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل کرنے کا طریقہ 48 گھنٹے ہیں ؟
اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں خاص طور پر جب عام انتخابات کی بات ہو تو پھر 90دن میں تاریخ دینا ضروری ہے، عابد زبیری
سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارعابد زبیری
آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا،جسٹس جمال خان مندوخیل
کیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟جسٹس جمال مندوخیل کا سوال
الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا،چیف جسٹس عمر عطابندیال
آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے،آئین کی مختلف شقوں کی ہم آہنگی ضروری ہے،جسٹس منیب اختر
پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں،جسٹس محمد علی مظہر
آئین آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹے میں حکومت ختم ہوسکتی ہے، عابد زبیری
آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے،جسٹس جمال مندوخیل
اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، عابد زبیر ی
اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال
صدر کے وکیل موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں، عابد زبیری کا عدالت کو جواب
اگر صدر الیکشن کی تاریخ مشاورت سے دے سکتے ہیں توکیا گورنر بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس
مشاورت شاید الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوگی، چیف جسٹس عمر عطابندیال
اگر گورنر الیکشن کرانے پر مشاورت کرتے ہیں توپھروہ وسائل سے متعلق بھی پوچھ سکتے ہیں ؟ جسٹس منصور علی شاہ
الیکشن کمیشن یا پھرگورنر انتخابات کی تاریخ ہر صورت میں دے سکتا ہے، عابد زبیری
آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، جسٹس محمد علی مظہر
گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے ، جسٹس محمد علی مظہر
کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟جسٹس جمال مندوخیل
کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی ؟ جسٹس جمال مندوخیل
آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہوناہے ، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی ، عابد زبیری
نگران کابینہ کی ایڈوائس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے، چیف جسٹس
گورنر جب بھی تاریخ دے گا تو 52 دن کا وقت اپنے ذہن میں ضرور رکھے گا، جسٹس محمد علی مظہر
صدر کو بعض اختیارات آئین اور الیکشن ایکٹ دیتا ہے، وکیل عابد زبیری
الیکشن ایکٹ کے تحت صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے تاریخ دی سکتا ہے، عابد زبیری
الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیر کیوں کی ؟چیف جسٹس عمرعطابندیال
شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیر ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطابندیال
گورنر الیکشن کی تاریخ کے لیے کس سے مشاورت کریں گے؟چیف جسٹس
مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ جسٹس منصور علی شاہ
ہمیں علم ہے کہ صدر جو بھی عمل کریں گے وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ساتھ کریں گے ،جسٹس منصور علی شاہ
صدر اپنے اختیارات کن قوانین کے تحت استعمال کرتے ہیں ، معاونت کریں، جسٹس منصور علی شاہ
آئین کے مطابق صدر نے کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
آرٹیکل 57کے مطابق انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے، جسٹس منیب اختر
بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی،جسٹس محمد علی مظہر
تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 تین میں ہے،عابد زبیری
حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں،جسٹس جمال مندوخیل
آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟ چیف جسٹس کا عابد زبیری سے مکالمہ
نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں،چیف جسٹس عمر عطابندیال
دباو میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دیں گے ،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا،جسٹس منصور علی شاہ
الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟عدالت
گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے،وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن
گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں،جسٹس محمد علی مظہر
گورنر الیکشن کمیشن کے انتظامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا،جسٹس محمد علی مظہر
گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس محمد علی مظہر
صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے،جسٹس جمال مندوخیل
آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل
قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل
اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ
صدر مملکت کس قانون کے تحت چھٹیاں لکھ رہے ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ
صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری
آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں،جسٹس منصور علی شاہ کا عابد زبیری سے مکالمہ
اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے،جسٹس جمال مندوخیل
نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کرینگے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں،چیف جسٹس
سپریم کورٹ ،پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں ساڑھے 11بجے تک وقفہ
اگر وزیر اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر
کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے،جسٹس جمال مندوخیل
آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں،اٹارنی جنرل
الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے،اٹارنی جنرل
سپریم کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے پیر صابر شاہ کیس میں بھی فیصلہ کیا،وکیل الیکشن کمیشن
گورنر کی دو زمہ داریاں ہیں کہ ایڈوائس پر عمل کرے اور نہ کرے،جسٹس جمال مندو خیل
آپ کا موقف ہے کہ گورنر نے چونکہ تحلیل نہیں کی تو وہ تاریخ دے گا، جسٹس محمد علی مظھر
کیا گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دینگے، کیا وہ آپ کو ایڈوائس کے لیے بلاتے نہیں؟چیف جسٹس
آخر میں حکومت میں نے ہی انتخابات کرانے ہوتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطابندیال
آپ ایڈوائس کے معاملے پر ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل میں چلے گئے، جسٹس محمد علی مظہر
الیکشن کمیشن نے 2خط الگ سے گورنر خیبرپختونخوا اور پنجاب کو لکھے ،جسٹس محمد علی مظہر
الیکشن کمیشن نے خط میں تاریخ دینے کی بات کی ہے ،جسٹس محمد علی مظہر
الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت کام کرنا ہے،وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن 3 طرز کی تاریخ دے سکتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن سینیٹ،صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن
ہم صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کی بات کررہے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن
ہمارا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر نے کرنا ہے،وکیل الیکشن کمیشن
وزیر اعلیٰ کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عملدرآمد ہوتا ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
آپ کا کہنا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہ وہ تاریخ دے گا،جسٹس جمال مندوخیل
پنجاب کے گورنر کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی،وکیل الیکشن کمیشن
کیا گورنر پنجاب آج تک اس موقف پر قائم ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر
ہم نے گورنر پنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ دینے کےلیے خط لکھا،وکیل الیکشن کمیشن
گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال
گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟چیف جسٹس عمر عطابندیال
گورنر نے مشاورت کےلیے آپکو بلایا یا نہیں؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال
گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضہ نہیں ہے، وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کے معاملے پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے،چیف جسٹس
الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، اس پر کمیشن گورنر کے سامنے تیار ہوکر جائیں،چیف جسٹس
آپ تیار ہوکر آج ہی گورنرز کے پاس جا سکتے ہیں،جسٹس جمال مندو خیل
الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور گورنرز کو لکھے گئے خط عدالت میں پیش کردیئے
آپ ایک کانفرنس کرلیں، اس میں سب کو بتائیں کہ یہ صورتحال ہے، چیف جسٹس
31جنوری کو گورنر کی جانب سے جو خط لکھا گیا اس میں کیا کہا گیا ؟ چیف جسٹس کا استفسار
گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ کمیشن اس پر مشاورت کرنے کی بات کی ہے، جسٹس محمد علی مظہر
آپ یہ کہتے ہیں کہ تاریخ دینا گورنر کی صوابدید نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ
اس خط کے جواب میں الیکشن کمیشن نے ایک اور خط لکھا ،وکیل گورنر
گورنر کی ذمہ داری ہے اسمبلی تحلیل کرے یا نہ کرے، جسٹس جمال مندوخیل
گورنر کہتے ہیں اسمبلی تحلیل نہیں کئ تو تاریح کیوں دوں، جسٹس محمد علی مظہر
ہماری نظر میں گورنر کا موقف درست نہیں، وکیل الیکشن کمیشن
شیڈول کو مدنظر رکھ کر ہی گورنر کو تاریخ تجویز کی گئی تھی، وکیل الیکشن کمیشن
کیا گورنر نے مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کو بلوایا تھا؟ چیف جسٹس
گورنر نے مشاورت کے لیے انہیں بلایا، وکیل الیکشن کمیشن
گورنر نے مشاورت کی بجائے انٹراکورٹ اپیل دائر کردی، جسٹس محمد علی مظہر
ہائیکورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا،جسٹس محمد علی مظہر
عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی،وکیل الیکشن کمیشن
کیا گورنر خیبرپختونخوا سے تاریخ کےلیے بات ہوئی ہے؟چیف جسٹس
گورنر خیبرپختونخوا کو یاددہانی کا خط بھی لکھا تھا،وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے،جسٹس محمد علی مظہر
آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر کی؟ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل الیکشن کمیشن سے سوال
انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی،وکیل الیکشن کمیشن
کیا گورنر سے مشاورت کےلیے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے،چیف جسٹس
کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا،چیف جسٹس
کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کو بتایا گیا،وکیل الیکشن کمیشن
آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جو کرنا ہے کریں،جسٹس جمال مندوخیل
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل ختم
گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل کو روسٹرم پر بلا لیا گیا
گورنر خیبرپختونخوا کے 31 جنوری کے خط کا کیا مطلب ہے؟چیف جسٹس
اسمبلی وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی،وکیل گورنر کے پی
ہم نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا،وکیل گورنر کے پی
پیپلز پارٹی،ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی
سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے،فاروق ایچ نائیک
چیف جسٹس پاکستان نے پانچ رکنی لارجر بنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے،فاروق ایچ نائیک
گورنر کے پی کے خط کا کیا مطلب ہے؟چیف جسٹس
گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے،وکیل گورنر کے پی
گورنر نے خط میں کہیں نہیں لکھا وہ تاریخ نہیں دیں گے،جسٹس محمد علی مظہر
گورنر کے پی نے اسمبلی وزیراعلی کی ایڈوائس پر تحلیل کی،وکیل گورنر کے پی
الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کا کہا،ایڈوکیٹ جنرل خالد اسحاق
خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا، وکیل گورنر کے پی خالد اسحاق
گورنر خیبرپختونخوا نے اسمبلی وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی، خالد اسحاق
الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کا کہا،ایڈووکیٹ جنرل
خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا، ایڈووکیٹ جنرل خالد اسحاق
آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت سے کون رجوع کرسکتا ہے واضح نہیں ہے، فاروق ایچ نائیک
آئین کے مطابق گورنر کے پاس تاریح دینے کے لیے 90 دن کا وقت ہے، فاروق نائیک
پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، فاروق نائیک
گورنر گورنر خیبرپختونخوا کے پاس 17 اپریل تک تاریخ دینے کا وقت ہے، فاروق نائیک
اس حساب سے 90 دن میں انتحابات کیسے ہوں گے؟ جسٹس منیب اختر کا سوال
آرٹیکل 254 پر عمل کیسے ہو گا؟ جسٹس منیب اختر
آرٹیکل 254 پر عمل کے نکتے پر بعد میں آؤں گا، فاروق ایچ نائیک
اسمبلی ازخود تحلیل ہو تو آئین خاموش ہے تاریخ کون دے گا؟ فاروق نائیک
پنجاب میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی گورنر نے نہیں کی، فاروق نائیک
الیکشن ایکٹ کا اختیار کے تابع ہے، فاروق نائیک
قانون کے اس حصے کا بتائیں جہاں لکھا ہے فنڈز کی کمی کی صورت میں کیا ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ
معاشی صورتحال اور فنڈنگ پر قانون خاموش ہے، وکیل فاروق نائیک
کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا،چیف جسٹس عمر عطابندیال
عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں،چیف جسٹس عمر عطابندیال
ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا،چیف جسٹس
آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو،چیف جسٹس
قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا،چیف جسٹس عمر عطابندیال
حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
پہلی بار ایسی صورتحال ہےکہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے،چیف جسٹس
آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال
اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردےگا،چیف جسٹس
معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے،چیف جسٹس عمر عطابندیال

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو اپنی قیادت سے ہدایات لینے کا وقت دیدیا

سیاسی قاٸدین سے مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں ، جسٹس منصور علی شاہ

جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرے ، جسٹس منصور علی شاہ

میرے پنچایتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے ، ، جسٹس منصور علی شاہ

جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریقین لچک دکھاے ، جسٹس منصور علی شاہ

اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جاے ،جسٹس جمال مندوخیل

قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں ، ، جسٹس منصور علی شاہ

ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آےگا ، جسٹس منصور علی شاہ

فاروق ناٸیک کی کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا

عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا سے آج چار بجے تک راے مانگ لی

وزیراعظم ،آصف زردار اور مولانا سے مشاورت کرنی ہے ،فاروق ناٸیک

آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں ،چیف جسٹس

عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے ، چیف جسٹس

عدالت نے سماعت میں چار بجے تک وقفہ کر دیا

عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدا مسترد کردی

آج چار بجے تک سیاسی قیادت سے مشاورت کرکے جواب دیں،عدالت

وزیر اعظم، آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن سے مشاورت کرنی ہے،فاروق ایچ نائیک

عدالت کا کام رکاہوا ہے اس لئے کل تک انتظار نہیں کرسکتے،چیف جسٹس

1975میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی، وکیل ن لیگ
عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا، وکیل منصور اعوان
ہائیکورٹ کا فیصلہ آچکا جو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہے، وکیل منصور اعوان
اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دیگا تو کوئی مسئلہ نہیں ، وکیل منصور اعوان
عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائیگا، وکیل مسلم لیگ ن
موجودہ حالات میں مقدمات2مختلف ہائیکورٹس میں ہیں ، جسٹس منیب اختر
ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، جسٹس منیب اختر
وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے، جسٹس منیب اختر
یہ بھی ممکن ہے ہائیکورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے، جسٹس منصور علی شاہ
لاہور ہائیکورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا ہے ، وکیل ن لیگ
اصل معاملہ وقت کا ہے جو کافی ضائع ہو چکا ہے ،جسٹس محمد علی مظہر
90دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ جسٹس محمد علی مظہر
لاہور ہائیکورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہورہا، جسٹس منصور علی شاہ
امکان ہے ہائیکورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے، وکیل ن لیگ

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی ٰنے دلائل کا آغاز کردیا
الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، کامران مرتضیٰ وکیل جے یو آئی
گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، وکیل کامران مرتضیٰ
مردم شماری ہو چکی ہے، وکیل کامران مرتضیٰ
ایسا ممکن نہیں ،2 صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہوں، وکیل کامران مرتضیٰ
کامران مرتضیٰ کا فاروق ایچ نائیک کے موقف سے اختلاف
ایسا نہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسرے میں نہ دے، وکیل کامران مرتضیٰ
آرٹیکل 105/3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا ہے، وکیل کامران مرتضیٰ
الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کےمطابق نہیں ہے، وکیل کامران مرتضیٰ
الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو، وکیل کامران مرتضیٰ
غلطی کو درست آپ نے کرنا ہے یا عدالت نے؟ جسٹس جمال مندوخیل
پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا ، جسٹس محمد علی مظہر
اسمبلی کو قانون سازی کیلئے کتنا وقت درکار ہو گا؟جسٹس جمال خان
وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے، وکیل کامران مرتضیٰ
گورنر آپ کی پارٹی کے ہیں انہیں کہیں تاریخ کا اعلان کردیں، جسٹس جمال خان

مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل
جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ کے دلائل
آئین کے مطابق انتخابات کا اعلان گورنر کرے گا،وکیل کامران مرتضی ٰ
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالات مختلف ہیں،جسٹس منیب اختر
کیا دونوں صوبوں میں گورنر اعلان کر سکتا ہے،جسٹس منیب اختر
دونوں صوبوں میں انتخابات کا اعلان گورنر ہی کر سکتا ہے،وکیل کامران مرتضی
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی ٰکے دلائل مکمل
صدر پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کردیا

گورنر خیبر پختونخوا کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے، سلمان اکرم راجہ
پنجاب میں صدر کو اختیار تھا خیبر پختونخوا میں نہیں، سلمان اکرم راجہ
صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتائیں؟جسٹس جمال مندوخیل
الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کو اختیار آئین کے مطابق دیا گیا ہے،سلمان اکرم راجہ
الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں،سلمان اکرم راجہ
صدر کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے، سلمان اکرم راجہ
صدر کے اختیار پر آپ کا موقف آگیا،جسٹس جمال خان مندوخیل
کیا آپ اسپیکرزکی درخواستوں کو قابل سماعت سمجھتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
درخواستیں 90 روز میں انتخابات کے لیے ہیں ،سلمان اکرم راجہ
صدر نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف کیسے تاریخ دے دی،جسٹس منصور علی شاہ
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سیکشن 57 کا حوالہ نہیں تھا،سلمان اکرم راجہ
صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا اپنا آئینی اختیار استعمال کریں، سلمان اکرم راجہ
گورنر خیبر پختونخوا تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے،سلمان اکرم راجہ
تاریخ کا اعلان کون کریگا؟جسٹس منیب اختر
موجودہ صورتحال میں آئین خاموش ہے، وکیل

صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کیلئے بلوایا تھا،وکیل سلمان اکرم راجہ
الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا،سلمان اکرم راجہ وکیل
صدر مملکت نے آئین و قانون کے مطابق تاریح دی،وکیل سلمان اکرم راجہ
90روز میں ہر صورت انتخابا ت ہونے چاہئیں،وکیل سلمان اکرم راجہ
عدالت ازخود نوٹس لینے اور درخواستیں سننے کیلئے بااختیار ہے،وکیل سلمان اکرم راجہ
صدر کو آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں،وکیل سلمان اکرم راجہ
کابینہ نے صدر کو کہا ہے آپ کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے،وکیل سلمان اکرم راجہ
جہاں آرٹیکل6 لگتا ہے وہاں لگاتے نہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل

گورنر خیبر پختونخوا کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے، سلمان اکرم راجہ
پنجاب میں صدر کو اختیار تھا خیبر پختونخوا میں نہیں، سلمان اکرم راجہ
صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتائیں؟جسٹس جمال مندوخیل
الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کو اختیار آئین کے مطابق دیا گیا ہے،سلمان اکرم راجہ
الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں،سلمان اکرم راجہ
صدر کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے، سلمان اکرم راجہ
صدر کے اختیار پر آپ کا موقف آگیا،جسٹس جمال خان مندوخیل
کیا آپ اسپیکرزکی درخواستوں کو قابل سماعت سمجھتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
درخواستیں 90 روز میں انتخابات کے لیے ہیں ،سلمان اکرم راجہ
صدر نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف کیسے تاریخ دے دی،جسٹس منصور علی شاہ
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سیکشن 57 کا حوالہ نہیں تھا،سلمان اکرم راجہ
صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا اپنا آئینی اختیار استعمال کریں، سلمان اکرم راجہ
گورنر خیبر پختونخوا تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے،سلمان اکرم راجہ
تاریخ کا اعلان کون کریگا؟جسٹس منیب اختر
موجودہ صورتحال میں آئین خاموش ہے، وکیل

27فروری 2023 کوہونے والی سماعت کا احوال

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کل ساڑھے 9بجے تک ملتوی
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کرنے والا 9رکنی بینچ ٹوٹ گیا
سپریم کورٹ نے 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا
نئے بینچ تشکیل دینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا،سپریم کورٹ
چار ججز نے نئے بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کو بھجوایا
سپریم کورٹ کے چار وں ججز کے نوٹس آرڈر شیٹ میں شامل
جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے نوٹ لکھا
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو نوٹ بھی شامل
چار ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال
معاملہ دوبارہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا ہے،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کا5 رکنی بینچ کمرہ عدالت میں پہنچ گیا
حکمنامے میں اختلاف کرنے والے چاروں ججز بینچ میں شامل نہیں
چیف جسٹس، جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں شامل
جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل
الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے لاہور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی
بینچ کے 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال
عدالت کاباقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے،چیف جسٹس
جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
علی ظفر آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال
کل ہر صورت مقدمہ کو مکمل کرنا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، فاروق ایچ نائیک
آپ کی درخواست بھی سن کر نمٹائی جائے گی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا فاروق نائیک سے مکالمہ
وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی،علی ظفر

سپریم کورٹ میں نیا بنچ تشکیل

چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل

جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی نئے بنچ میں شامل ہیں

جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل نہیں

اختلافی نوٹ لکھنے والے 4 ججز میں سے 2 ججز بھی بنچ میں شامل نہیں

جسس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی بنچ میں شامل نہیں

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت

آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں ،گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں دیتا،جسٹس منصور علی شاہ
آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ایک کے مطابق گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ تحلیل کرے یا نہیں،جسٹس منصور علی شاہ
اب بتائیں کہ کیا گورنر کی صوابدید ہے یا ان کا کردار میکینکل ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
علی ظفر صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں "جی بالکل”،جسٹس منصور علی شاہ
کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ
کیا اگر کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ آجائے تو انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن مخصوص حلقوں میں انتخابات کا وقت بڑھا سکتا ہے،وکیل علی ظفر
انتخابات کی تاریخ گورنر دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
ملک میں جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہونگے؟ جسٹس منصور علی شاہ
قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں، وکیل علی ظفر
جنگ کا قانون میں کہیں ذکر نہیں اس کیلئے ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے،وکیل علی ظفر
الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کو کہا ہے کہ عملہ دیں انہوں نے نہیں دیا،چیف جسٹس پاکستان
الیکشن کمیشن نے بجٹ بھی مانگا اس کا مطلب یہی کہ انتخابات کی تیاری ہو رہی تھی،چیف جسٹس
کیا الیکشن کمیشن کا انتخابی پروگرام 90 دن سے اوپر ہو سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن میں انتخابات کرانے ہیں، جسٹس منیب اختر
اسمبلیوں کی تحلیل الیکشن ایکٹ کے اندر نہیں آتی، وکیل الیکشن کمیشن
اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کا ذکر الیکشن ایکٹ میں ہی ہے،جسٹس منیب اختر
آئین گورنر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے،جسٹس منصور علی شاہ
آئین کے تحت صدر مملکت کو غیر جانبدار اور آزاد ہونا چاہئے، وکیل الیکشن کمیشن
گورنر خیبر پختونخوا نے اسمبلی تحلیل کی ان کو انتخابات کی تاریخ بھی دینا تھی،جسٹس منیب اختر
جب گورنر نے تاریخ نہیں دی تو صدر کے پاس ڈیفالٹ پاور موجود ہے،جسٹس منیب اختر
آئین خود کہتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے،جسٹس منیب اختر
پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا، جسٹس منیب اختر
1976میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے،جسٹس منیب اختر
اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، جسٹس منیب اختر
پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو، جسٹس منیب اختر
اگر صدر اور گورنر دونوں ہی تاریخ دے دیں تو کس کا عمل درست ہوگا؟جسٹس جمال مندوخیل
صوبائی اسمبلی تحلیل ہو تو گورنر کی تاریخ درست ہوگی،وکیل علی ظفر
گورنر اسمبلی تحلیل کرکے تاریخ نہ دے تو عدالت حکم دے سکتی ہے، جسٹس منیب اختر
انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے،جسٹس منیب اختر
بعض حالات میں ذمہ داری گورنر اور بعض میں صدر کی ہے،جسٹس منیب اختر
صدر اور گورنر کس طریقہ کار کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں؟ چیف جسٹس
قانون کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے، چیف جسٹس
یہ اہم معاملہ ہے کہ دیکھا جائے صدر الیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں،چیف جسٹس
ہم جاننا یہ چاہتے ہیں کہ صدر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت کس چیز پر ہوتی ہے، چیف جسٹس
الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے تیار ہو اور پیسے نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا،جسٹس جمال خان مندوخیل
الیکشن کمیشن کو سہولیات فراہم کرنے حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے،وکیل علی ظفر
حیرانگی ہے پورے ملک میں کرکٹ میچز کیلئے پیسے ہیں انتخابات کیلئے نہیں،جسٹس منیب اختر
سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے،جسٹس جمال مندوخیل
گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا،جسٹس جمال مندوخیل
کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے،وکیل علی ظفر
آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے،جسٹس منیب اختر
پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں،چیف جسٹس
پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟چیف جسٹس
اگر گورنر غیر حقیقی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے،وکیل علی ظفر
الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی سمیت تمام مراحل کیلئے 52 دن درکار ہیں، وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن نے اسی بنیاد پر ہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی تھیں، وکیل الیکشن کمیشن
کیا گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے دن ہی تاریخ دینا ہوتی ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ
کیا الیکشن کمیشن گورنر کی دی گئی تاریخ سے آگے پیچھے انتخابات کرا سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ
انتخابات کو ہر صورت وقت پر ہونا ہوتا ہے، وکیل علی ظفر
ترکیے میں اتنا بڑا زلزلہ آیا اور ان کے صدر اردگان نے انتخابات کا پھر بھی اعلان کیا،وکیل علی ظفر
تمام فریقین کے وکلا مختصر دلائل دیں،چیف جسٹس پاکستان
صدر مملکت کی طرف سے سلمان اکرم راجہ پیش ہونگے،معاون وکیل
کل ساڑھے نو بجے کیس کی سماعت کا آغاز کریں گے،چیف جسٹس
عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے، اٹارنی جنرل
آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سے کیا گیا ہو،جسٹس جمال مندوخیل
پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں، جسٹس جمال مندوخیل
صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں، اٹارنی جنرل
کیا فاروق نائیک صاحب دلائل دیں گے؟ چیف جسٹس
عابد زبیری اور شعیب شاہین کو سنیں گے، چیف جسٹس
ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، چیف جسٹس
جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون بولتا ہے،چیف جسٹس پاکستان
صدر مملکت کے سیکریٹری عدالت میں پیش
صدر مملکت نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے، سیکریٹری ٹو صدر
صدر مملکت کا کہنا ہے اٹارنی جنرل اپنا موقف دے چکے، سیکریٹری ٹو صدر
اگر گورنر نے تاریخ دینی ہے تو وہ کسی سے مشورہ کریگا، چیف جسٹس
گورنر الیکشن کی تاریخ کیلئے الیکشن کمیشن سے مشورہ کریگا، چیف جسٹس
90دن کب ختم ہورہے ہیں ، چیف جسٹس
13اپریل کو 90 دن ختم ہورہے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن 90 دن سے پہلے کا شیڈول بھی دے سکتا ہے،چیف جسٹس
کیا تاریخ دینے کے بعد کسی صورتحال میں بھی الیکشن تاریخ تبدیل ہوسکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
2008میں انتخابات کی تاریخ آگے کی گئی تھی،اٹارنی جنرل
وہ تو قومی سانحہ تھا، جسٹس منیب اختر
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کل ساڑھے9بجے تک ملتوی

کیس میں سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ 

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 

میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں،جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں،جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ میں شامل ایک جج کا آڈیو لیکس کا تذکرہ
جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کردیا، نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ کا دیگر سینئر ججز کی بنچ پر عدم شمولت پر بھی اعتراض
2 سینئرججز کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ
عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے، جسٹس منصور علی شاہ
آڈیو لیک کے بعد عام عوام میں تنازعہ کھڑا ہوا، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
آڈیو بینچ میں موجود ایک جج سے بھی متعلقہ ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
ایک جج کی آڈیو سے متعلق عدالت کے اندر اور باہر آواز اٹھی، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
سپریم کورٹ نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سےجواب آیا، جسٹس منصور علی شاہ
یہ خبر بھی شائع ہوئی پاکستان کونسلز نے ایک جج کیخلاف جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ، نوٹ
جج پر لگائے گئے ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
ایسے جج جس پر الزام ہے اسے بینچ میں شامل کرنا نامناسب ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب دیگر سینئر ججز کو بینچ میں شامل نہ کیا جائے، نوٹ
دو ججز اپنی واضح رائے دے چکے ہیں اس لیے انھیں شامل نہیں ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ
عدلیہ کی اصل طاقت عوام کا اعتماد ہے، جسٹس منصور علی شاہ
عدالتی کی غیر جانبداری اور شفافیت ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے،جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ 

الیکشن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
الیکشن سے متعلق درخواستیں پشاور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائیکورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے، نوٹ
سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں،جسٹس یحییٰ آفریدی

جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
اختلافی نوٹ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے آڈیو لیکس کا تذکرہ
غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں، نوٹ
دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیے،جسٹس جمال مندوخیل
دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آڑٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا ،جسٹس جمال مندوخیل
ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی  نوٹ

چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا:جسٹس اطہر من اللہ

ہمارے سامنے رکھےگئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا:جسٹس اطہر من اللہ

صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:جسٹس اطہر من اللہ

کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟:جسٹس اطہر من اللہ

اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں:جسٹس اطہر من اللہ

ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے:جسٹس اطہر من اللہ

اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اورمعاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے:جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگےہیں:جسٹس اطہر من اللہ

کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟:جسٹس اطہر من اللہ

کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے:جسٹس اطہر من اللہ

 

About The Author