رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظامِ سرمایہ کے دلالوں کے ناٹک کا دن ۔۔۔۔ مگر ایک دن کہ جس نے ابھی آنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور تحریک لبیک سمیت مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کے درمیان مقابلے کیلئے پولنگ شروع ہو چکی ھے۔ اس حلقہ میں پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے کا اعلان کہ کون جیتا، کون ہارا تو پولنگ کے نتائج آنے کے بعد ہوگا۔ لیکن آج کی صبح کی پہلی کرن طلوع ہونے سے بھی پہلے یہ طبقاتی نظامِ سرمایہ، اس نظام کی گماشتہ ریاست اور اس کے دلال سرمایہ دار، حکمران اس وقت سے جیت گئے جب ہر پارٹی سے منسلک عام آدمی کو پولنگ کیمپ، ووٹر لسٹوں، پولنگ ایجنٹوں، بسوں، گاڑیوں، رکشے اور موٹر سائیکلوں کی گھامڑ دھوس میں اس قدر الجھا دیا گیا کہ آج کے دن پٹرول، ڈیزل ، بجلی، تعلیم، سودے سلف کی سب گرانی یاد نہیں رھی۔ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کس کس گھر میں کون کون قابلِ علاج بیماری کے علاج نہ ہو سکنے کی وجہ سے سسک سسک کر جان دینے سے اموات ہوئی ہیں۔
اور کس کس گھر میں اب بھی جگر گوشے جان دینے کو ایڑیاں رگڑ رھے ہیں؟ آج کسی کو یاد نہیں رہا کہ کس کے دوست، بزرگ، باپ، والدہ، بھائی اور بہن نے کچھ دن پہلے کسی بنیادی ضرورت کے پورا نہ ہونے پر زہر پھانک لیا ھے۔ کون کون آٹے کی تھیلی لینے کیلئے پیسے مٹھی میں لے کے گیا مگر تھیلی اٹھائے بغیر پیٹھ میں پولیس کے چابک کھا کے لوٹا۔ اور پھر کس کس گھر کی عزت روٹی کے ایک لقمے کے بدلے نیلام ہوئی ھے۔ کس کس نے آج سے کچھ دن پہلے موبائل اور موٹر سائیکل کسی ڈاکو کے حوالے نہ کرنے پر اپنے نوجوان عزیز کی تڑپتی لاش اٹھائی ھے۔ نہ ھی آج کسی کو یاد ھے کہ ناقص سڑک کو قاتل روڈ کہنے والوں نے کتنی روندی ہوئی لاشوں کے ٹکڑے گٹھڑیوں میں باندھے ہیں۔۔۔۔۔
یہ نظام یہ ریاست اور اس نظام و ریاست کے سب گماشتے یہی چاہتے ہیں اور اسی کیلئے ھی سب میلے سجائے جاتے ہیں ۔ رھے لوگ وہ تو ابھی میدان میں اترے ھی نہیں۔ تاھم آج کے دن کی دوڑ دھوپ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو اس وقت شاید خیال نہ رھے مگ رات کو پتہ چل جائیگا کہ جس نے سب سے زیادہ دھونس، دھاندلی، کمینگی اور خباثت کا مظاہرہ کیا وھی جیت گیا ۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ھے بلکہ یقیناً ایسا بھی ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ الیکشن ہو، محبت ہو یا جنگ سب جائز ہوتا ھے۔
لیکن یاد رھے کہ اس نظام میں الیکشن، محبت اور جنگ سب پیسے کیلئے اور پیسے والے کی ذاتی ہوس کی تسکین کیلئے ہوتی ھے۔۔۔۔
تاھم ایک الیکشن ابھی ہونا ھے کہ جس کے بارے انقلاب روس کے سرخیل کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ” عوام کی امنگوں ، حسرتوں کے حصول اور خوابوں کی تعبیر کے الیکشن میں ووٹ ہاتھ سے نہیں پاؤں سے ڈالے جاتے ہیں” یعنی عوام کے مقدر کے فیصلے پولنگ بوتھ پہ رکھے باکس میں پرچیاں ڈالنے سے نہیں بلکہ کھیتوں، کھلیانوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور چوکوں چوراہوں میں عوام کے قدموں کی ٹھوکروں کی زد میں آ کر تاج اچھلتے ہیں اور تخت زمیں بوس ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ بس ایک تیاری کی دیر ھے، اگر آج سرمائے کے دلال ہاتھ سے پرچیاں ڈالوانے کے ناٹک کر رھے ہیں تو دنیا کو بہت جلد محنت کش طبقے کے دھمک بھی سنائی دے گی۔ سو ۔۔۔۔۔۔
پَل بھر کا مہماں ھے اندھیرا
کس کے روکے رکا ھے سویرا
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ