یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناظرے کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ہم کبھی دوسرے کی بات نہیں سنتے، بلکہ اپنی اگلی بات یا دلیل سوچتے رہتے ہیں۔ ہم اُس موضوع یا نام نہاد دلیل کی طرف لانا چاہتے ہیں جس پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں پوری طرح دسترس ہے۔ لیکن معاملہ زیادہ دلچسپ اُس وقت ہوتا ہے جب دونوں فریق ہی دسترس نہ رکھتے ہوں۔
غالباً جوزف پرودھوں نے کارل مارکس کے فلسفے پر ایک کتاب لکھی تھی: Philosophy of Poverty، تاکہ مارکس کے خیالات کو غربت کا فلسفہ ثابت کر سکے۔ جواب میں مارکس نے کتاب لکھی: Poverty of Philosophy۔ یہ ہوتا ہے علمی مناظرہ جو آج بھی ہماری یادداشت اور تاریخ میں باقی ہے۔
جاری گفتگو میں اپنا لُچ فرائی کرتے ہوئے میں تین چار نکات پیش کرنا چاہوں گا:
ہمارے لیفٹ کی یہ خوبی رہی ہے کہ اُنھوں نے ہمیشہ اپنے مطالعہ کو چند کتابچوں سے آگے نہیں بڑھایا۔ شاید ہی کسی نے کبھی داس کیپیٹل پڑھی ہو گی۔ کم از کم میں کسی ایسے کو نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ اشتراکیتِ راشدہ کی بات کرنے لگیں گے، نہ کہ مارکس ازم کی۔ ان کے ذہن میں سرمایہ داری کا تصور وہی ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں لینن نے بیان کیا (اور دارالاشاعت ترقی کے کتابچوں کی بدولت اُن تک پہنچا)۔
دوسری طرف لبرل ہیں جو غیر ذمہ داری کو انسانی آزادی سمجھتے ہیں۔ لبرل سوچنے اور بات کہنے کی آزادی چاہتا ہے، لیکن اُسے یہ نہیں معلوم کہ کہنا کیا ہے! وہ سوال اٹھانے کی آزادی مانگتا ہے، جواب دینے کی عقل نہیں۔ یہی لبرل ازم پوسٹ ماڈرن ازم کی بھی شکل اختیار کر کے موجود کو جسٹیفائی کرتا ہے۔
لیکن انفرادی، گروہی یا اجتماعی سطح پر ایک اچھی دنیا تو سبھی کو چاہیے۔ نہیں؟ چلیں فرض کر لیا کہ واقعی چاہیے، تو ذرا سوچیں کہ اگر آپ ایک بہتر دنیا کا تصور پیش کریں، تو بتائیں کہ اُس کی بنیاد کس اصول پر ہو گی؟ ایسا کر کے دیکھ لیں، آپ سوشلسٹ تصور کے قریب تر ہی ہوں گے۔
مارکسزم آپ کو موجود (given) کو جسٹیفائی کرنے کی نہیں، سمجھنے کی کنجی عطا کرتا ہے۔ جب آپ socio-economic یا socio-political حوالے سے بات کرتے ہیں، طبقات کی بات کرتے ہیں، مذہب کے کردار کی بات کرتے ہیں، تو مارکسزم ہی اُگل رہے ہوتے ہیں۔
آپ کو ول ڈیورانٹ پسند ہے، کارل ساگان پسند ہے، کیرن آرم سٹرانگ پسند ہے، وغیرہ وغیرہ، لیکن وہ تو ’’لبرل‘‘ نہیں۔ وہ چیزوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں، ورنہ وہ کچھ بھی نہ دیکھ پاتے۔
دیکھیں، بات اتنی سی ہے کہ کوئی مہابیانیہ یا محیطِ کُل نظریہ موجود نہ ہونے کا پرچار آج کا مہا بیانیہ یا غالب نقطۂ نظر ہے (جس نے پوسٹ ماڈرن ازم کا لبادہ بھی اوڑھا)۔ جونہی آپ کسی کو مخاطب کرتے ہیں، تو کسی نے کسی مہا بیانیے کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک لبرل اور ایک نام نہاد سوشلسٹ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت اس سماجی پیرامیٹرز سے باہر نہیں ہوتے، تو پھر وہ خود کو تاریخی عمل سے جدا کر کے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
اگر بحث کرنی ہے تو اُس سے پہلے ٹھوس کام ہونا چاہیے۔ مارکسزم کیا ہے؟ تاریخی مادیت کیا ہے؟ جدلیات اور مارکسزم کیا ہے؟ اِس بارے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لبرل ازم کی فرار پسندی اور سوشلزم کی دقیانوسیت کی بجائے مارکس ازم ہی آپ کو یہ ہمت دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر