عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریشم کے دھاگے کو کون گانٹھ لگائے، پھسلتی ریت کو مٹھی میں کیسے قابو کیا جائے؟ چاند کو دیا کون دکھائے اور ستاروں کو اُن کی ہی چال کون بتائے؟
کیا ہم ناکام ہو رہے ہیں؟ بحیثیت قوم تو بہت دیر ہوئی اجتماعی دانش سے محروم ہو چکے مگر بحیثیت ریاست بھرم کا کیا ہوا؟ ریاستیں ناکام ہوتی ہیں تو جنگجو حاوی ہوتے ہیں، نظام مرتے ہیں تو لاقانونینت جنم لیتی ہے، آئین ہارتے ہیں تو قومیں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب پیش نظر ہے اور منتشر ذہن یہ سوچ رہا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
عدالت، سیاست، صحافت، معیشت کی مسلسل پسپائی تو تھی اب طاقت کا اصل مرکز یعنی مقتدرہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی پسپا ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں۔ جس اختیار کو بڑھاوا دینے کے لیے مقتدرہ نے کئی سال لگائے اب خود بے اختیار ہے۔ خوف کا جو راج بنایا گیا خود اس شکنجے میں پھنس چُکے ہیں۔ طاقت یوں کمزور ہو گی کبھی سوچا نہ تھا، اختیار یوں بے اختیار ہو گا دیکھا نہ تھا اور اقتدار یوں بے کار ہو گا، کسی کو معلوم نہ تھا۔
گذشتہ چند برسوں میں اداروں کو گرانے کے لیے بنیادوں میں بے آئینی اور تسلط کی خواہش کا جو ڈائنامائٹ لگایا گیا اب وہ محض دیا سلائی جلانے کی دوری پر ہے۔ ازل سے طاقت کی مرکز اسٹیبلشمنٹ نے آر ٹی ایس کا ٹیکہ لگا کر پارلیمنٹ کی جو بے توقیر ی کی تو نتیجہ ایک غیر اہم اور کٹھ پُتلی ادارے کی صورت رہ گیا اور بدقسمتی دیکھیے کہ پارلیمان میں بیٹھے دو معمولی رینکس کے افسران کے کنٹرول میں بائیس کروڑ عوام کے بظاہر نمائندے تھما دیے گئے۔
یہاں وہاں سے اکٹھے کیے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر بنائے معزز اراکین اصلی اور جمہوریت پسند سیاسی ورکروں کو نگل گئے اور یوں پاکستان کا بالادست ادارہ محض ایک عمارت کی صورت رہ گیا۔
ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت صحافت میں ایسے صحافیوں کی آبیاری کی گئی جو ایجنڈا اور کنٹوپ صحافت کی مثال بنے جبکہ سوشل میڈیا کی وہ بریگیڈ تیار کی گئی جس نے جمہوریت پسند صحافیوں، سیاست دانوں، ججوں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے آئین پسندوں کی باضابطہ اور باقاعدہ کردار کُشی کو ترویج دی اور یوں تنقیدی آوازیں عزت کی خاطر خاموش ہوتی چلی گئیں، محض چند شر پسند بولتے رہے کہ شاید چُپ رہنا اُن کی سرشت میں ہی نہ تھا۔
جمہوری معاشروں کی بقا آزاد عدلیہ سے ہوتی ہے سو عدلیہ کو کیوں بخشا جاتا۔ عدالتوں میں مفادات کے تحفظ کے لیے کردار تشکیل کیے گئے اور صداقت اور امانت کے معیار کا پیمانہ جی ایچ کیو سے طے پاتا رہا۔ عدالتیں انصاف کا فین کلب بن گئیں یا سوشل میڈیا بریگیڈ خوف کا عنصر بنا، دل گرفتگی ہے کہ معزز جج عدالتوں کے دروازے کھولے ملزموں کی راہ تک رہے ہیں جبکہ سامنے لگی گھڑی کا وقت کوئی اور طے کر رہا ہے۔۔۔ انصاف کا جنازہ اس دھوم سے نکلے گا یہ بھی اب انہونی نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیے
کسی مہذب کیا غیر مہذب معاشرے میں بھی وہ نہیں ہوتا جو جنرل باجوہ کے جاوید چوہدری کو دیے انٹرویو کے مطابق گذشتہ دور میں عمران خان صاحب کو صادق اور امین کی سند کے لیے کیا گیا۔ آج کل پھر چند صوتی ثبوت منظر عام پر ہیں مگر احتساب کون کرے گا۔ کمزور اور کمپرومائزڈ انتظامیہ دانت رکھتے ہوئے استعمال نہیں کرسکتی جبکہ بے دانت صدارتی آفس مسلسل آئین پر طبع آزمائی کر رہا ہے اور اب تو بغیر مشاورت صوبائی انتخابات کا اعلان بھی ہو چکا۔
فوج کئی برسوں کی محنت شاقہ یعنی پراجیکٹ عمران کی ناکامی کے بعد یوں دیوار سے لگی بیٹھی ہے کہ جیسے ہلی تو دیوار اُس پر آ گرے گی۔ خدا خدا کر کے سیاست سے الگ ہیں مگر سیاست اُن سے بھی الگ ہو کے بے آسرا سی ہے اور وہ خود کو جن کے سپرد کر چکے تھے اب اُنہی کے ہاتھوں میں ہے مقتدرہ کا گریبان۔
دھیرے دھیرے ہر ادارہ پسپا ہوتا چلا گیا اور سب پسپائیوں کا فائدہ صرف ایک شخص نے اُٹھایا اور وہ عمران خان ہیں۔ خوف کی جو فضا اُن کو طاقت دینے کے لیے بنائی گئی اُس کا شکار اب نظام ہے۔ طاقت کا طلسم اب کسی اور ہاتھ میں ہے اور جادو کی چھڑی بھی۔۔۔ ایک ایک کر کے سب پسپا ہوئے ہیں اب یہاں سے پسپائی کس کی؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر