ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کے بہانے بنا کر آئین سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت اتحادی حکومت نہیں بلکہ ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُسے کوئی سہارا مل رہا ہے۔ الیکشن کی تاریخ ہو یا کوئی اور معاملہ گزشتہ 75 سال سے آئین سے کھلواڑ ہی تو ہوتا آ رہا ہے جس طرح قومی، صوبائی اور سینٹ کے الیکشن آئینی معاملہ ہے اسی طرح بلدیاتی اداروں کے الیکشن بھی آئین کے تحت مقررہ مدت کے بعد کرانے ضروری ہیں مگر سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں الیکشن وقت پر نہیں ہوئے ، آئین کے برعکس بڑی مشکلوں اور حیلے بہانوں سے الیکشن کرائے گئے، جبکہ پنجاب جو کہ آبادی میں تینوں صوبوں سے بھی بڑھ کر ہے ، میں بلدیاتی الیکشن کرائے ہی نہیں گئے، صدر مملکت کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ جس میں انہوں نے صدر مملکت کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست نہ کریں۔ حالانکہ اس میں کونسی سیاست ہے ، عمران خان جب بر سراقتدار تھے تو اس وقت اپوزیشن کا مسلسل ایک ہی نعرہ تھا کہ فوری طور پر مڈٹرم الیکشن کرائے جائیں، اب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ دینے اور مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کا پابند ہے ، الیکشن کی تاریخ نہ دینا کیا آئین سے کھلواڑ نہیں؟۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی یہ بات بھی درست نہیں کہ صدر کا الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے کوئی سرو کار نہیں، حالانکہ جہاں آئین کی بات ہو تو صدر تو کیا ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کی بات کر سکتا ہے۔ آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ الیکشن 90 دن میں ہونے چاہئیں ، عمران خان کا یہ کہنا غلط نہیں کہ 91 دن کا مطلب یہ ہوگا کہ جو بھی نگران حکومت ہو گی وہ غیر آئینی ہو گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 22 فروری سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ سیاسی حوالے سے عمران خان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج ، لانگ مارچ اور جیل بھرو تحریک شروع کریں مگر الیکشن کی تاریخ کے علاوہ احتجاج دہشت گردی اور مہنگائی کیخلاف بھی ہونا چاہئے۔ احتجاج اس بات پر بھی ہونا چاہئے کہ ملک ، قوم اور آئین کو تماشا بنا کر رکھ دیا گیاہے، احتجاج اس بات پر بھی ہونا چاہئے کہ قومی مسائل پر حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کوئی توجہ نہیں۔ تحریک انصاف سمیت دیگر اقتدار پرست سیاسی جماعتوں نے صوبہ بنانے کا وعدہ کیا مگر اب صوبے کا نام بھی نہیں لیا جا رہا۔ عمران خان جب برسراقتدار تھے تو ان کو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ یاد دلاتی رہیں کہ حکومت صوبے کا بل اسمبلی میں لائے ہم حمایت کریں گے ، اب جبکہ وہ خود برسراقتدار ہیں وہ صوبے کا نام کیوں نہیں لیتے۔ وسیب کے لوگوں کا یہ مطالبہ غلط نہیں کہ اسی اسمبلی سے صوبے کا بل پاس ہونا چاہئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان ملک کے بائیس کروڑ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف خود اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو چکا، اس کے ذمہ داری بیورو کریسی ، سیاستدانوں سمیت ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن کیا اخلاقی طور پر یہ نہیں بنتا کہ وہ استعفے دے دیں اور ملک و قوم کو مزید عذابوں سے نجات دیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ لاہور میں نوجوانوں کے وفد سے ملاقات کے دوران (ن) لیگ کی چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز نے حکومت کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے نوجوانوں کے سوال پر کہا کہ یہ میری حکومت نہیں، میں حکومت کا حصہ نہیں ، ہماری حکومت تو تب ہو گی جب نواز شریف پاکستان میں ہوں گے ۔ عجب بات ہے کہ ن لیگ کا صدر ملک کا وزیراعظم ہے اور مریم نواز بھی وزیراعظم کا پروٹوکول لے رہی ہیں اور یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ملک میں ہماری حکومت نہیں ، یہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں تو کیا ہے؟۔ قومی مسائل کے حل کیلئے ہم آہنگی کی ضرورت ہے، ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ ختم کر کے سیاسی افہام و تفہیم پیدا کرنے اور مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے مگر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے اور لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک طرف سیاسی افراتفری ہے تو دوسری طرف ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ دہشت گردی اب سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ آرمی چیف نے کراچی پولیس آفس میں دہشت گردی کے واقعہ میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں، دہشت گردی سے ملکر نمٹیں گے ۔ کراچی دہشت گردی کے واقعہ میں وسیب کے علاقے چک آر ایس شجاع آباد کا نوجوان رینجرز سب انسپکٹر تیمور شہزاد فرنٹ لائن پر دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ نماز جنازہ میں فوجی افسران کے علاوہ وسیب کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔ سب انسپکٹر تیمور شہزاد بہادر سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا انسان تھا، وسیب کے تمام لوگوں نے مادر وطن کیلئے تیمور شہزاد کی قربانی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے درست کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے ساتھ اس کے اسباب کو بھی ختم ہونا چاہئے، اس سلسلے میں دہشت گردی کے پس منظر کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا باعث وہ لوگ ہیں جنہوں نے افغان جنگ کے نام پر امریکا سے پیسہ لیا۔ اس وقت ولی خان نے فضل الرحمان سے کہا تھا یہ جہاد نہیں ، فساد ہے، روس اور امریکہ کی جنگ میں 13 ہزار روسی فوجی جاں بحق اور 22 ہزار زخمی ہوئے جبکہ امریکہ کا ایک فوجی بھی نہ مرا، تم نے پیسے لے کر افغانستان کے 40 ہزار مسلم پشتون اور پاکستانی مسلم نوجوان مروا دئیے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر