دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محل سرا خاموش مگر قبریں بولتی ہیں|| وجاہت مسعود

بند دروازوں کی نیم روشن غلام گردشوں میں یہ اصول منطبق نہیں ہوتا اور ریاست ناگزیر طور پر زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ 29 اکتوبر 1923 کو سلطنت عثمانیہ کا سورج غروب ہو گیا۔ قصے کہانیاں ختم ہوئے۔ اب اپنے ایک مدبر کی مقتل میں لکھی تصنیف سے رجوع کرتے ہیں۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک میں شرمناک انکشافات کا موسم ہے۔ انکشاف مگر گزرے دنوں اور سابق اقتدار کے غبار میں اوجھل ہونے والوں کے بارے میں ہیں۔ اب کیا ہو رہا ہے؟ کوئی نہیں بتا رہا اور بتائے گا بھی نہیں۔ 25 فروری 1956 کو بیسویں کمیونسٹ کانگرس میں خروشچیف کی نام نہاد ’خفیہ تقریر‘ سے پہلے کوئی سٹالن کے 30 سالہ اقتدار کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ کچھ برس بعد کسی میں خروشچیف سے سوال کرنے کا یارا بھی نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خروشچیف کی تقریر کا پورا متن بھی 1989 سے قبل سوویت عوام کی رسائی میں نہیں تھا۔ سٹالن کی ’شخصی تقدیس‘ کی مذمت کرتے ہوئے خروشچیف نے باریک مہارت سے کمیونسٹ پارٹی کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا تاکہ شخصی اقتدار کا آلہ کار بننے والا سیاسی بندوبست قائم رکھا جا سکے۔ سوئے اتفاق ہے کہ خروشچیف کی تقریر سے ٹھیک ایک برس بعد 27 فروری 1957 کو ماﺅزے تنگ کا مقالہ ’عوام میں تضادات حل کرنے کا صحیح طریقہ‘ شائع ہوا۔ کلیدی جملہ تھا کہ ’سو طرح کے پھول کھلنے دو، سو طرح کے خیالات سامنے آنے دو….‘ چاﺅ این لائی ایک مہذب مدبر تھا، ماﺅ کے جال میں پھنس گیا۔ جب اشتراکی چین کے سوجھوان دانشور ٹھیک سے نشان زد ہو گئے تو ثقافتی انقلاب کے ذریعے انہیں بے رحمی سے کچل دیا گیا۔ صدر لیو شاﺅ چی نومبر 1969 اور مارشل لن بیاﺅ ستمبر 1971 میں کھیت رہے۔ ڈینگ شیاﺅ پنگ مردود قرار پائے۔ چاﺅ این لائی زندہ رہے مگر بے دست و پا ہو گئے۔ عظیم جست میں قریب ساڑھے چار کروڑ قحط کا شکار ہوئے تھے۔ ثقافتی انقلاب میں اموات کی تعداد دو کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔ قوم کی دانش پر ہل چلا دیا گیا۔ عمران خان کی کرشماتی قیادت کے اسیر پاکستانی نوجوان یقیناً کہیں گے کہ یہ کھوسٹ بڈھا انہیں ایران توران کی کہانیاں سناتا ہے۔ ’نڈر اور بے باک‘ صحافیوں کی طرح چور لٹیرے سیاست دانوں کو گالیاں نہیں دیتا؟ ان مخلص اور قابل محبت بچوں کو میں دوش نہیں دیتا، کچھ اور کہانیاں سناتا ہوں۔

سلطنت عثمانیہ 13 ویں صدی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ 1363 میں سلطان نے اپنی فوج میں ینی چری کے عنوان سے ایک خاص شعبہ قائم کیا۔ مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم نوجوانوں کو مختون کر کے عثمانی سلطان کی اس ذاتی محافظ فوج میں شامل کیا جاتا تھا۔ یہ مختصر مگر مستعد لشکر براہ راست سلطان سے تعلق رکھتا تھا۔ مقامی افراد سے کسی نسبی تعلق کی عدم موجودگی میں یہ لوگ انتہائی وفادار اور قابل بھروسا تھے تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی غیرجوابدہ قوت کا اندازہ کر کے سیاسی قوت حاصل کر لی۔ ینی چری عسکری اصلاحات کے مخالف تھے اور حرم سرا کی خصوصی عورتوں سے گٹھ جوڑ کر کے حکومتوں کے سازشی بناﺅ بگاڑ میں دخیل ہو گئے۔ بالآخر سلطان محمود ثانی نے 1826 ءمیں فیصلہ کن کارروائی کر کے ینی چری فوج کا خاتمہ کر دیا۔ یہاں شاید حرم سرا کی اصطلاح پر آپ کی نگہ نکتہ رس ٹھہری ہو۔ استغفراللہ! ناچیز کی مجال نہیں کہ پاکیزہ مسلم تاریخ پر انگشت نمائی کرے۔ حرم سرا عثمانی سلاطین کے محلات کا وہ حصہ تھا جہاں ان کی بیویاں، رشتہ دار عورتیں، مفتوحہ لونڈیاں، خواجہ سرا اور مدخولہ کنیزیں مقیم ہوتی تھیں۔ تاریخ میں معاملاتِ خلوت اور سیاسی رسوخ میں گہرا تعلق رہا ہے۔ واللہ پاکپتن شریف کے روحانی درجات کی طرف اشارہ مقصود نہیں۔ 1520ءمیں سلیمان عظیم الشان کی خلوت میں باریابی پانے والی روکسلونا (حورم سلطان) اور بعد ازاں ماہ پیکر سلطان (کوسم سلطان) کے زیر اثر سلطنت عثمانیہ کا 1533 سے 1656 تک کا زمانہ ’عورت راج‘ کہلاتا ہے۔ یہ سلطنت کے تین اہم ستونوں یعنی حرم سرا، خواجہ سرا اور ینی چری میں فیصلہ سازی پر درپردہ اجارے اور گٹھ جوڑ کا زمانہ تھا۔ سیاست کا بنیادی اصول ہے کہ انتقال اقتدار کا طریقہ کار واضح ہو نیز اختیارات میں علیحدگی اور باہم جوابدہی کا بندوبست موجود ہو۔ بند دروازوں کی نیم روشن غلام گردشوں میں یہ اصول منطبق نہیں ہوتا اور ریاست ناگزیر طور پر زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ 29 اکتوبر 1923 کو سلطنت عثمانیہ کا سورج غروب ہو گیا۔ قصے کہانیاں ختم ہوئے۔ اب اپنے ایک مدبر کی مقتل میں لکھی تصنیف سے رجوع کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں If I am assassinated لکھی تو ایوب خان کی جرمن عسکریت پسندی سے شیفتگی کی آڑ لے کر نہایت دقیق نکات بیان کیے۔ تاریخ کے موضوع پر بھٹو صاحب جیسا صاحب نظر ہماری قومی تاریخ میں کوئی دوسرا نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب نے لکھا کہ نپولین کو قابو کر کے 26 ستمبر 1815 کو روس، پرشیا اور آسٹریا نے ایک معاہدہ کیا لیکن کچھ برس بعد یورپ کے عوام پھر سے سڑکوں پر نکل آئے۔ معاشی حقیقت یہ تھی کہ پرشین فوج نے اپنے معاشی وسائل سے زیادہ حجم اختیار کر لیا تھا۔ پرشیا کی فوج کے سامنے تین راستے تھے۔ (الف) جنگ کے ذریعے اپنا رقبہ بڑھایا جائے، (ب) فوج کا حجم کم کیا جائے یا (ج) پرشیا کی معیشت عسکری اخراجات کے بوجھ تلے منہدم ہو جائے۔ پرشیا نے جارحیت کے ذریعے اپنے وسائل بڑھانے کی کوشش کی مگر بالآخر اسی طرح ناکام ہوئی جیسے پاکستانی فوج مختلف عسکری مہم جوئیوں میں ناکام ہوئی ۔ بھٹو صاحب کا استدلال اس قدر بصیرت انگیز تھا کہ مجھے لفظ بہ لفظ دہرانے دیں۔ ’تمدن کا مطلب عوام کی حکمرانی ہے۔ پاکستان کسی فوج نے فتح نہیں کیا، عوام کے ووٹوں سے قائم ہوا…. آج کی دنیا میں قوم کو فوج کے ہاتھ میں دینا ایسا ہی ہے جیسے کشتی اس کے سپرد کر دی جائے جو تیرنا نہیں جانتا۔‘ جسے شہید جمہوریت کے لفظوں پر شک ہو، وہ دیکھ لے کہ معیشت ڈوب رہی ہے اور ایک کے بعد ایک آئینی ادارہ اور ریاستی منصب اپنا وقار کھو رہا ہے۔ محل سرا سازش کی فحش سرگوشی ہے، ہمارے شہید اور زندہ رہنماﺅں کی قبریں ہمارا قومی سچ پورے آہنگ سے بیان کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author