ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لمبا سا ہال تھا جس میں سولہ میزیں ایک قطار میں تھیں۔ بڑی بڑی شیشے کی کھڑکیوں سے روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔ سٹیل کی بنی میزوں سے روشنی کی کرنیں جب منعکس ہوتیں تو رگ و پے میں سرد لہر دوڑ جاتی۔
سرد، نحیف، سیاہی مائل، ہڈیوں پہ منڈھی سکڑتی کھال، اکڑی ہوئی ہڈیاں، چھت کو گھورتی بے نور آنکھیں، پپڑی زدہ ہونٹ، ٹیڑھی ناک، بے جان بازو۔ یہ تھے وہ ننگ دھڑنگ جسم جنہیں موت اپنی گود میں لے کر وہاں تک پہنچی تھی اور اب وہ منتظر تھے۔
ان جسموں کی طرف جو بھی دیکھتا، اس کے جسم میں پھریری دوڑ جاتی۔ زندگی کی حقیقت ایک سیکنڈ میں واضح ہو جاتی۔ اپنے جیسے ہی ایک جسم کو اس حالت میں دیکھنا رونگٹے کھڑے کرتا تھا۔
کچھ مٹے مٹے نشان باقی تھے کہ جسم مرد کا ہے یا عورت کا؟
ڈھلکی ہوئی چھاتی، مرجھایا ہوا عضو تناسل، سوکھی ہوئی اندام نہانی، پلپلے خصیے۔ ایک ہی نظر اٹھتی اور پھر دوسری؟ نہیں، کیا کرتی دوسری نظر؟ کیا کر سکتی تھی؟
کیا ہر حال میں ہم وہی دیکھتے ہیں جو سامنے ہوتا ہے، ہم وہی سنتے ہیں جو سنایا جاتا ہے؟
ان اعضا کے ناموں کا استعمال جو کچھ کے لیے شہوت انگیز، کچھ کے لیے منہ سے نہ صرف گرتی رال بلکہ ہر جسم کو محض جنسی آلہ سمجھ کر ”گل افشانی“ کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن اگر مذکورہ حال میں ان اعضا کی ایک جھلک انہیں دکھا دی جائے تو؟ کیا ان مٹی ہوتے جسموں سے بھی وہ اسی طرح حظ اٹھائیں گے؟
نہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان مردہ جسموں کو دیکھ کر کوئی قے کرتا ہوا دکھائی دے اور کوئی الٹے قدموں واپس دوڑ لگائے، کسی کی رات ڈراؤنے خواب میں بدل جائے اور کسی کا جنسی عمل سے ہی جی اچاٹ ہو جائے۔
کیوں؟
جب چھاتی بھی ہو اور اندام نہانی بھی، عضو تناسل بھی اور خصیے بھی۔ پھر ایسا کیا کہ شہوت دھواں ہو جائے؟
زمانوں پہلے جب طاقت نے مرد کے سامنے عورت کو کمزور جنس اور ملکیت بنا کر کھڑا کیا تھا تب مرد نے عورت کو اپنی ذات کا کوڑا دان سمجھتے ہوئے تضحیک، تحقیر بھرے ایسے لفظ استعمال کرنے شروع کیے جو اپنی ساخت ترتیب اور معنی میں کچھ بھی نہیں تھے سوائے کچھ اعضا کے ناموں کے۔ اعضا بھی وہ، جو زندگی کی نمو اور تسلسل سے جڑے تھے۔
مرد نے عورت کے انہی اعضا کو نشانہ بناتے ہوئے نہ صرف اسے بلکہ معاشرے کو باور کروایا کہ جنسی عمل جس کا ایک فریق وہ خود ہے، کی تفصیلات استہزائیہ انداز میں بیان کرتے ہوئے فریق ثانی یعنی عورت کا تماشا بنایا جا سکتا ہے۔
چونکہ عورت ملکیت تھی اس لیے یہ ترکیب کسی بھی دوسرے مرد کو پچھاڑنے کے بہت سے گروں میں سے ایک سمجھی جانے لگی۔ چوپال میں بیٹھ کر کسی دوسرے مرد کی ملکیت سے جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش جلتی پہ تیل کا کام دیتی۔ ترکیب کارگر ہوتی جب دوسرا مرد کہیں گھر بیٹھی عورت کے مخصوص اعضا سے چھیڑ خوانی کے جملے سن کر آگ بگولا ہو جاتا۔
اودھی تے ماں دی۔
بہن دی۔
یہ سب الفاظ جو اپنی ماہیت میں کچھ بھی نہیں تھے بالآخر ان پہ عزت غیرت، شرم، حیا کا غلاف چڑھا کر عزت داروں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔
کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ پدرسری نظام میں مردوں کی سر پھٹول اور بازی لے جانے کی سرشت نے عورت کے ساتھ کیا کیا؟
اسے کیا بنا دیا؟
تفنن طبع کے لیے ہر کس و ناکس کو اپنے اعضا سے کھیلنے کی خواہش میں عورت نے کیا محسوس کیا؟
یہ جاننے کی زحمت بھی کوئی کیوں کرتا؟
ضرورت ہی نہیں تھی۔
ملکیت اور باندی کو کس ضرب سے کیا تکلیف پہنچتی ہے، اس کا مالک کے درد سر سے کیا۔
نتیجہ کیا نکلا؟
عورت اپنے ہی جسم سے شرمندہ ہونے لگی۔ اس کے لیے خود اپنا ہی جسم ایسا باعث اور محرک جرم علاقہ بنا جس کا ذکر آتے ہی وہ سر جھکانے، منہ چھپانے یا زیرلب بدبدانے پہ مجبور ہو جاتی کہ کہیں کوئی سن نہ لے۔
پرائیویٹ پارٹس، نجی اعضا، اعضائے مخصوصہ، شرم گاہ جیسے الفاظ ایجاد ہوئے۔ یہ تو یہ معاشرے تک نے مان لیا کہ مرد کی غیرت، عزت اور عورت کی شرم و حیا سب سے زیادہ شلوار میں چھپی ہوتی ہے۔
سوچیے جب نام لینا ہی اتنا مشکل ہوا تو ان اعضا کی تکلیف کا اظہار کیسے کیا جاتا؟ صدیوں تک عورت نے گھٹ گھٹ کر مرنا پسند کیا لیکن ان اعضا کی تکلیف کے لیے ان کا نام۔ توبہ توبہ، چھی چھی۔ اچھی عورتیں اپنی زبان پہ یہ لفظ نہیں لاتیں۔
کوئی کیسے کرے گھر میں اعلان کہ چھاتی میں گلٹی نکل آئی ہے؟ پڑھے لکھے گھروں تک میں بریسٹ کینسر سینے کی تکلیف میں بدل جاتا ہے۔
کیسے بتائے کہ پ۔ سے سے پیپ بہہ رہی ہے؟
کیسے کہے کہ گ۔ سے خون نکل رہا ہے؟
کیسے مدد کے لیے بلائے جب ل اسے زخمی کر دے؟
جب مرض لاعلاج ہو جاتا اور مرد محسوس کرتا کہ ملکیت نامی عورت کسی کام کی نہیں رہی، تب وہ عورت ڈاکٹر کے پاس لائی جاتی۔ تب بھی شرم سے دوہرے ہوتے ہوئے اپنی زبان پہ کوئی بھی لفظ لائے بنا وہ یا تو ہاتھ کا اشارہ کرتی کہ تکلیف کہاں ہے؟ یا بڑی مشکل سے نیچے۔ وہاں نیچے۔ آگے۔ پیچھے جیسے الفاظ سے کام چلاتی۔ پاس کھڑے مرد کو تب بھی سمجھ نہ آتی کہ اس عورت کی زبان میں اس قدر لڑکھڑاہٹ کیوں ہے؟
ڈاکٹر ہونے کے ناتے ہماری پڑھائی انگریزی میں ہوئی۔ تمام اعضا کو نہ صرف کتابوں سے پڑھا بلکہ انسانی جسم کو اندر باہر سے کھول کر دیکھ لیا۔ وہ سب مشق ستم بنے جو مردہ حالت میں ننگ دھڑنگ میڈیکل کالج کے ڈائسیکشن حال میں آ پہنچے تھے اور ان کی بے بسی، لاچاری آنکھ میں آنسو لاتی تھی۔
ان جسموں کے ساتھ لگے ہوئے خصیے اور اعضائے تناسل نہ صرف دیکھے، چھوئے بلکہ کاٹ کر بھی دیکھے۔ اندام نہانیوں اور چھاتیوں کا بھی یہی عالم رہا۔
اور زبانوں کا تو علم نہیں لیکن پنجابی، اردو اور انگلش میں ان اعضا کے نام اور گفتگو میں طریقہ استعمال کا خوب علم تھا۔ ان اعضا کا جنسی تعلقات میں عمل دخل بھی سمجھ میں آ چکا تھا۔ یہ بھی علم تھا کہ زندگی کی نمو کا اصل یہی ہیں اور یہ بھی کہ ہارمونز کے زیر اثر یہ اعضا جذبات کے آتش فشاں میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
لیکن یقین جانیے ان اعضا کو دیکھنے، چھونے، کاٹ کر جاننے کے عمل کے دوران ایک سیکنڈ کے لیے بھی جنسی تصور نے طبی مقصد کی جگہ نہیں لی۔ خیال تک چھو کر بھی نہیں گزرا۔ دو برس کی مدت اسی میں گزری۔ کیا کچھ نہ دیکھا اور پڑھا لیکن ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ یہی تو ہے وہ!
کیوں جنسی خیال نہیں آیا؟ کیوں چھونے کے باوجود کوئی کیفیت کا طاری نہیں ہوئی؟
کیونکہ کسی بھی کیفیت کا شکار ہونے کا ایک نظام ہے، ہر ذہن میں ایک رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے، جو ہر اطلاع کو کلاسیفائی اور تقسیم کرتا ہے۔
روسی سائنس دان پیولوو نے کتوں کو گوشت دے کر گھنٹی بجانے کا جو تجربہ کیا، اس سے شاید سب ہی واقف ہیں۔ گوشت اور گھنٹی۔ گھنٹی اور گوشت۔ منہ میں اشتہا سے تھوک بھر آنا پھر نوبت یہاں تک پہنچے کہ کتے تک کا ذہن سمجھ جائے کہ جب گھنٹی بجتی ہے تب گوشت ملتا ہے۔ اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ گوشت کے بغیر گھنٹی بجانے پہ ہی منہ میں تھوک بھر جاتا ہے۔
یاد رہے گوشت موجود نہیں، محض گھنٹی کی آواز اور اس سے منسلک گوشت کا تصور۔ تصور کے پاس ذہن کو پچھاڑنے کی اس قدر طاقت موجود ہے۔
یہی کچھ ان اعضا کے ناموں کے ساتھ ہوا۔ کبھی جنسی حض اٹھانے کے لیے اور کبھی دوسرے مردوں کو پچھاڑنے کے لیے ان اعضا کا نام شہوت کے ساتھ جوڑا گیا۔ جوڑ کر بار بار دہرایا بھی گیا، بلکہ سب کو سجھایا بھی گیا کہ پ یا چ کا نام لو تو جسم میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ یاد کریں منٹو کا ”کھول دو“ ۔
یہی وجہ ہے کہ عورت کی صحت پہ کام کرتے ہوئے ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ وہ الفاظ جن کا استعمال معیوب بن چکا ہے۔ یاد رہے الفاظ نہیں بلکہ ان کا استعمال۔ ان سے گریز کرتے ہوئے انگریزی یا اردو الفاظ برتے جائیں تاکہ بات سنی اور سمجھی جا سکے اور فحش نگاری کا الزام بھی نہ آئے۔
لیکن گھنٹی بجنے پر رال بہنے کا کیا کیا جائے؟ وہ لاعلاج جو کسی صورت عورت کی کانٹوں بھری زندگی میں کسی بھی سہولت کی آمد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، میدان میں کود پڑے۔
اور آپ جانتے ہیں ان کا ہتھیار کیا تھا؟
وہی الفاظ۔
ان کا کہنا تھا کہ ویجائنا کو پ اور چ کیوں نہیں کہا ہم نے؟
عضو تناسل کو ل سے کیوں نہیں پکارا؟
خصیوں کو ٹ کے نام سے پکارنے میں کیا قباحت ہے؟
جی چاہتا ہے کہ ان سے ہم بھی کچھ پوچھ لیں؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ یہ تجربہ گھر میں کر کے دیکھیں کہ نو بالغ تک پیدائش کے عمل کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن کیا ہم اپنی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کے تصور کے ساتھ ”پ“ اور ”چ“ کے مترادف تصور میں لا سکتے ہیں؟ اگر جواب مثبت ہے تو اپنی صحت پر ضرور توجہ کریں۔
اور کیا کسی بھی مہذب جگہ پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے ”ل“ یا ”ٹ“ میں کیا تکلیف ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ بات کہی جا سکتی ہے مگر ان الفاظ میں جن کے ساتھ آپ جیسوں نے شرم، غیرت اور عزت جیسے پھندنے نہ ٹانک رکھے ہوں۔ جان لیجیے الفاظ زہریلے نہیں ہوتے بلکہ ان کا استعمال انہیں بچھو بنا دیتا ہے۔
اور آخری بات یہ کہ ان الفاظ کی طبقاتی صورتوں اور استعمال کو بھولنا نہیں چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر