عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہم کی آخری منزل سوال ہے۔ سوال تجسس کی کھڑکی سے جھانکنے والی وہ آنکھ ہے جس کی پُتلیوں کے سوتے انتظار کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سوال ’سلونی‘ کی بُنیاد اور لاعلمی سے علم کی جانب پہلا قدم ہے۔ بعض سوال جواب سے زیادہ وزنی اور خیال سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بقول امجد اسلام امجد ’سخت بے زمینی‘ اور ’سخت لا مکانی‘ کے اس دور میں ریاست کو چند مشکل سوالات کا جواب ڈھونڈنا ہے۔
ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ریاست اور مملکت کو چند سوالوں کے جواب دینے ضروری ہیں ورنہ ابہام کی اس ریاست میں امکان ختم ہو جائیں گے۔ ان سوالوں کے جواب ہی ریاست کو دو عملی اور فریب سے نکال سکتے ہیں۔
جناب! کیا ہم ایک آئینی جمہوری ریاست ہیں جہاں آئین کی عملداری ہے؟ کیا ہم ایک آزاد معاشرہ ہیں جہاں آزادی رائے اور شخصی آزادیاں موجود ہیں؟ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں؟ اگر آئین کی عملداری ہے تو معاشرتی ناہمواری، مذہبی تفرقہ بازی اور معاشی استحصال کیوں موجود ہے؟
ایسا کیوں ہوا کہ ریاست کے وجود کے ساتھ ہی ایک متضاد بیانیے کو بُنیاد بنایا گیا؟ مذہب، معیشت اور معاشرت کو ایک ایسے بیانیے کے سُپرد کیا گیا جس نے سوائے کنفیوژن کے کچھ نہیں دیا۔
مذہب اور ریاست کو الگ رکھنے والے محمد علی جناح کی ریاست مذہبی جنونیوں کے ہاتھ لگی اور پھر مملکت کے ساتھ وہ ہوا جو کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست خود کو قائد اعظم کے اصلی بیانیے کے مطابق مذہب سے الگ کر سکتی ہے؟
کہنے کو ریاست پاکستان میں ایک آئین کار فرما ہے جس پر گذشتہ پانچ دہائیوں میں کبھی عمل نہیں ہوا۔ آئین کی پامالی کو بارہا وطیرہ بنایا گیا مگر آئین میں رہ کر بے آئینی کی جو تاریخ بنی اور بن رہی ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔
ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ ہم ایک نہیں دو آئین رکھتے ہیں، طاقتور کا آئین الگ اور کمزور کا آئین جُدا؟ طاقتور آئین پامال کرے تو گارڈ آف آنر کے ساتھ دفن ہوتے ہیں اور کمزور کا آئین اور قانون جُنید حفیظ کی طرح کئی سالوں جیل کی کال کوٹھڑی میں گلتا سڑتا رہتا ہے۔
سیاست میں مداخلت اور آرٹیکل پانچ کے ذریعے آئین کا استعمال کر کے پارلیمانی جمہوریت کو روندنے والے بچ نکلیں اور ’توہینِ مقدس گائے‘ کے مرتکب علی وزیر کو ضمانت کے باوجود جیل میں بلاجواز بند رکھا جائے تو ایسے آئین کو طاقتور کی موم کی ناک قرار کیوں نا دیا جائے؟
یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ قرضوں کے حصول کی حد مقرر کیے جانے کے قانون کے باوجود لامحدود قرضے لینے والے حکمرانوں پر کیا تعزیر لگتی ہے اور اس کا خمیازہ کولہو کی طرح جُتے عوام کیوں بھگت رہے ہیں؟ ایسے میں ہر طرح کے ٹیکس سے مبرا اور چھوٹ کی عادی اشرافیہ اور حکمران کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھنے والے عوام کے پاس کیا راستہ بچا ہے؟
گذشتہ چند سال میں ذاتی خواہشات پر تشکیل کردہ نظام ریاست کو ایسے دوراہے پر لے آیا ہے جہاں خوف ہے کہ آئین پر عمل فسطائیت کی راہ ہموار کرے گا اور بے عملی آمریت۔ ایسے میں جمہوریت آئین کی کتاب میں محض ایک باب نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیے
سوال آزادی اظہار کا بھی ہے جو ایک سراب بن چکا ہے۔ سچ کہنے والے مصلوب اور گالم گلوچ کرنے والے آزادی اظہار کے متوالے بتائے جاتے ہیں۔ مخمصے میں ہوں کہ ایک طرف گالی دینا، بہتان لگانا، جھوٹ بولنا آزادی اظہار ہے تو دوسری جانب اسے روکنا آئین کی خلاف ورزی۔۔۔ ایسے میں آزادی اظہار کی حدود کا تعین کیسے ہو؟
شخصی آزادی کی حد کہاں ہے اور کون اسے آئین کے پردے میں استعمال کرنا جانتا ہے؟ آزادی کس کی ناک تک ہے اور کس کی ناک خود آزادی کی حد بن چکی ہے؟ ستم ظریفی کہیے کہ آئین شکن آئین کو ڈھال بنا رہے ہیں اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والے ’آئین بچاؤ‘ تحریکیں چلا رہے ہیں۔
امجد اسلام امجد سے پھر معذرت ’سخت بے آئینی ہے، سخت لا قانونی ہے‘، کیا سب خلط ملط نہیں ہو چکا؟ مان لیجیے کہ آئین کے تحفظ کی آڑ میں آئین چرا لیا گیا ہے۔
مجھے اندیشہ ہے کہ بغاوت کے مقدمات جس انداز میں گھڑے جا رہے ہیں اس کا اصل ہدف مستقبل میں آئین اور جمہوریت پسند ہو سکتے ہیں۔ کہیں ان کارروائیوں کا مقصد آنے والے دنوں میں غداری کے مقدمات کی راہ کو ہموار کرنا تو نہیں؟
آئین میں اداروں کی حدود متعین ہیں مگر کیا کریں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ ہوتی ہے تو عدلیہ آئین پر شب خون مارنے کی تیاری میں لگ جاتی ہے ایسے میں پارلیمانی اختیار انصاف کے چند بُتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئین کا جو حُلیہ ہم بگاڑ چُکے ہیں اسے ابہام سے نکالے گا کون؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر