دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان نے زندگی کا سب سے بڑا یوٹرن کیوں لیا؟|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے حسب ماضی ایک اور سیاسی یوٹرن لیتے ہوئے بڑا انکشاف کیا ہے کہ مارچ 2022 میں امریکہ نے ان کی حکومت گرانے کی سازش نہیں کی بلکہ یہ اس وقت کے چیف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کا کام تھا۔ انہوں نے یہ بات وائس آف امریکہ کی نمائندہ سارہ زمان خان کے ساتھ انٹرویو میں کہی۔ حالانکہ یہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے کہ ان کی حکومت گرانے کی سازش امریکہ سے امپورٹ ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ 3 اپریل 2022 کو (اس وقت کے ) پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے سپیکر اسد قیصر کی دستخط شدہ رولنگ پڑھ کر سنائی، جس میں اس وقت کی پوری اپوزیشن کو آئین کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ (یہ الگ بات کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لارجر بنچ تشکیل دیا اور چند روز میں عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی) ۔

اس سے پہلے کہ ہم مزید بات کریں، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کیا کہا۔

”وی او اے : گزشتہ سال تمام سیاسی جلسوں میں آپ کا بیانیہ تھا کہ امریکہ نے آپ کے سیاسی حریفوں کے ساتھ مل کر آپ کی حکومت کو برطرف کیا (حالانکہ اس دعوے کی بائیڈن حکومت نے تردید کی) ، اگر آپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنے میں کیا چیلنجز دیکھتے ہیں؟

عمران خان: سب سے پہلے تو، بین الاقوامی تعلقات ذاتی انا پر مشتمل نہیں ہونے چاہیے یہ تعلقات آپ کے ملک کی عوام کے مفاد میں ہونے چاہئیں۔ پاکستانی عوام کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں کیونکہ امریکہ ایک سپرپاور ہے اور ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان امریکہ کو برآمدات کرتا ہے۔ جو کچھ بھی ہوا، جیسا کہ اب سامنے آ رہا ہے امریکہ نے پاکستان کو مجھے ہٹانے کا نہیں کہا۔ بدقسمتی سے، جو شواہد سامنے آئے، جنرل باجوہ نے امریکیوں کو کسی طرح باور کروایا کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔ اس لیے مجھے ہٹانے کا منصوبہ امریکہ سے درآمد شدہ نہیں تھا، بلکہ یہاں سے وہاں (امریکہ) برآمد کیا گیا۔

وی او اے : کیا آپ ابھی تک یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ نے آپ کو عہدے سے ہٹانے میں کردار ادا کیا؟

عمران خان: اچھا، سائفر حقیقی ہے، وہ ایک آفیشل میٹنگ پر مشتمل ہے جو امریکی انڈر سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر کے مابین ہوئی، جس میں دونوں اطراف سے منٹس لیے گئے اور اس میٹنگ کے منٹس کو قومی سلامتی کونسل اور کابینہ کے سامنے رکھا گیا۔ اس سب کے باوجود یہ ماضی کا حصہ ہے، ہمیں آگے بڑھنا چاہیے، امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں اور ہم اس کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ”

بلاشبہ مذکورہ بالا سوال و جواب پڑھ کر آپ کو جھٹکا ضرور لگا ہو گا، کیونکہ گزشتہ دس ماہ کے دوران عمران خان کے ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کے بیانہ کو دیکھتے ہوئے یہ عمران خان کا سب سے بڑا یوٹرن ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے، کیا 10 اپریل سے لے کر اب تک پلوں کے نیچے سے اتنا پانی گزر چکا ہے کہ ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ والا بیانیہ عمران خان کی سیاست کے لئے غیر موثر ہو چکا ہے یا پھر 2023 کے سیاسی منظرنامے میں یہ بیانیہ عمران خان کی سیاست کے لئے رکاوٹ بن رہا تھا، جس سے جان چھڑانا ضروری ہو گیا؟

خیال رہے کہ 27 مارچ 2022 کو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں عوامی جلسے کے دوران (اس وقت کے ) وزیراعظم عمران خان نے اچانک کوٹ کی جیب سے ایک مُڑا تُڑا کاغذ نکال کر جس طرح عوام کے سامنے لہرایا اور کہا کہ یہ وہ خط ہے جو ایک دوست ملک سے انہیں ملا، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ (نہیں، نہیں ایک دوست ملک) نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کی ہے۔ پھر کیا ہوا، ’امریکی سازش نامنظور، امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ پی ٹی آئی کارکنوں کا مقبول عام نعرہ بن گیا۔ تب سے اب تک ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کا ٹرینڈ سوشل میڈیا پر سب سے اوپر نظر آ رہا ہے۔

حالانکہ اس دوران ایف آئی اے نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ مل کر لاکھوں جعلی ٹویٹر اکاؤنٹس کی نشاندہی کی اور انہیں بند بھی کروایا، اس کے باوجود ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کا ٹرینڈ ہے کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرون و بیرون ملک موجود کارکنوں نے (عمران خان کی سوچ پر عمل کرتے ہوئے ) موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی مخالفت کو واقعی جنگ کے طور پر لیا اور ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کے نعرہ کو اپنی آخری دفاعی لائن سمجھ کے اس آخری مورچے پر ڈٹ گئے۔

پچھلے دس ماہ کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں کی مستقل مزاجی داد کی مستحق ہے، جنہوں نے، اگر کسی مخالف نے فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ اٹھایا تو جواباً نعرہ لگا ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ ، ہیلی کاپٹر کیس، پش اور میٹرو بس منصوبہ یا پھر توشہ خانہ اور عمران خان کو بطور وزیراعظم ملنے والے غیرملکی تحائف کے حصول و فروخت میں (مبینہ) بے قاعدگیوں و بددیانتی کا سوال اٹھایا گیا تو جواب ایک ہی تھا ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ ۔

اب موجودہ حکومت کو امپورٹڈ کہنا ہے یا نہیں؟

گو عمران خان اپنی حکومت ہٹانے کے حوالے سے غیرملکی سازش کے بیانیہ سے مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوئے، تاہم وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں ان کا تازہ ترین موقف اتنا کمزور ہے کہ اگلے ایک یا دو انٹرویوز میں ان کا یہ بیانیہ اوندھے منہ گر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ان کی حکومت گرانے کی سازش (اس وقت کے ) آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے تیار کر کے امریکہ ایکسپورٹ کی تو کیا مستقبل میں وزیراعظم بننے کی صورت میں آپ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیونکہ ایک منتخب حکومت کو گرانے کی سازش تیار کرنا اور اسے بیرون ملک برآمد کر کے امریکہ جیسی سپرپاور کی سپورٹ حاصل کرنا آئین سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یا پھر، کیا آپ سائفر کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس منظر عام پر لانا چاہیں گے؟

مگر اہم سوال وہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں اپنے بیانیہ کی نفی کر کے اپنے ہی پاؤں پہ کلہاڑی کیوں ماری؟

گزشتہ دنوں ( 31 جنوری تا 8 فروری 2023 کے دوران) جب آئی ایم ایف مشن کے ساتھ حکومت کے مذاکرات چل رہے تھے تو مذاکرات کے دوسرے روز مجھے فنانس ڈویژن کے ایک سینئر افسر کا فون آیا کہ آپ کے لئے ایک اہم انفارمیشن ہے، کیا اسی وقت آسکتے ہیں؟

صحافی تو ہمیشہ خبر کا متلاشی ہوتا ہے اور جب خبر خود چل کے آئے تو اندھا کیا مانگے کے مصداق، فوراً بتائے گئے مقام پر پہنچ گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ صاحب ایک پرانی ٹیکسی میں پہنچے اور قریبی مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے نہ صرف خبر بتائی بلکہ اپنے موبائل فون پر آئی ایم ایف کا ورکنگ پیپر بھی دکھایا۔

ابھی شش و پنج میں تھا کہ مذکورہ اہم خبر کون سے ٹی وی چینل پہ بریک کرنی چاہیے کہ دو روز بعد ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی، جیسے ہی اٹینڈ کی تو وائس ریکارڈنگ چل گئی، گفتگو انگریزی میں تھی تاہم گفتگو کا متن وہی تھا۔

تب سوچا کیوں نہ یہ خبر کسی ٹی وی چینل کو دینے کی بجائے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی جائے جس کو چاہیے ہوگی خود ہی اٹھا لے گا اور مزید تفصیل کے لئے رابطہ بھی کر لے گا۔ خبر یوں تھی کہ ”پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے فروری 2022 میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے بعد ازاں مارچ کے وسط میں توڑنے پر آئی ایم ایف، پی ٹی آئی کو وائلیٹر ڈیکلیئر کرچکا ہے، دوران مذاکرات آئی ایم ایف مشن نے وفاقی وزارت خزانہ کو نہ صرف اپنے اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کر دیا بلکہ مطالبہ کیا کہ، یا تو موجودہ حکومت (ریاست پاکستان سے ) یہ ضمانت دلوائے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی برسراقتدار نہیں آئے گی یا پھر ایک دوست ملک سے گارنٹی دلوائے کہ اگر مستقبل میں پی ٹی آئی حکومت نے انٹرنیشنل کمٹ منٹس پوری نہ کیں تو وہ بھی پاکستان کی مالی معاونت نہیں کرے گا۔“

قطع نظر اس کے کہ ریاست پاکستان نے آئی ایم ایف مشن کو کیا گارنٹی دی ہے یا دینی باقی ہے (کیونکہ تاحال آئی ایم ایف مشن اور حکومت پاکستان کا ایگریمنٹ نہیں ہوا) ۔ انتہائی مستند ذرائع کے مطابق عمران خان کا وائس آف امریکہ کے ساتھ تازہ ترین انٹرویو اسی پیرائے میں ہے اور عمران خان نے غیرملکی سازش کے حوالے سے مذکورہ بالا سوالات کے پہلے سے تیار شدہ جوابات دیے ہیں (جن کی تیاری میں کئی اہم لوگوں کی مشاورت شامل ہے ) ، کیونکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنے فیصلے پہ نظرثانی کر کے پی ٹی آئی کو کسی طرح نان وائلیٹر ڈیکلیئر کرے۔ مگر یہ تب ممکن ہو گا جب امریکہ چاہے گا، کیونکہ آئی ایم ایف کے بارہ رکنی ایگزیکٹو بورڈ میں سات ممبران امریکی بلاک سے تعلق رکھتے ہیں۔
بصورت دیگر عمران خان سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہے گا۔

About The Author