ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن سے پرانی یاد اللہ ہے، ہم نے ان کے بزرگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ دو دن قبل شام چار بجے گورنر کیمپ آفس بہاولپور میں ملاقات طے تھی، ملاقاتیوں کا ہجوم تھا، اسی دن پشاور کی مسجد میں خودکش حملہ ہوا ،اسی بناء پر سکیورٹی الرٹ تھی اور حفاظتی اقدام کے طور پر گورنر لوگوں سے اپنے روم میں ملاقات کر رہے تھے۔ میں نے اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی ، گورنر صاحب نے مجھے بلوا لیااور سب سے پہلے انہوں نے پشاور کی مسجد میں دہشتگردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گورنر نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ حکومت دہشتگردوں کے ساتھ سختی سے نمٹے گی اور ملک سے دہشت گردی کی نئی لہر کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ گورنر سے ملاقات کے د وران میں نے وسیب کے حوالے سے جو گزارشات پیش کیں اس کا ذکر آگے چل کر کریں گے ۔ پہلے دہشت گردی کا ذکر اس بناء پر ضروری ہے کہ قوم ابھی تک مسجد میں خود کش حملے کے غم سے باہر نہیں نکل سکی ، شہادتوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایک افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے نہ تو اسے قومی سانحہ قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی شہداء کے لواحقین کیلئے کسی امداد کا ذکر سننے کو نہیں ملا۔ وائٹ ہائوس نے پشاور میں مسجد کے اندر خودکش دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔وائٹ ہائوس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اپنے بیان کہا کہ پشاور سے افسوس ناک اور دل دہلا دینے والی خبر سامنے آئی ، نمازیوں پر حملہ ناقابل معافی عمل ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کوریلا نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے پشاور پولیس لائنز مسجد میں دہشت گرد حملے پر تعزیت کا اظہار کیا۔ لیکن اس بات پر بھی تو غور ہونا چاہئے کہ چار عشروں سے پاکستان جس دہشت گردی کا شکار ہے اس کا باعث بھی خود امریکا ہے۔ قوم ابھی پشاور کی مسجد میں خودکش حملے کے غم میں سوگوار تھی کہ گزشتہ روز میانوالی میں تھانہ مکڑ وال پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا۔ ڈی پی او محمد نوید کے مطابق تھانے پر 15 سے 20 دہشتگردوں نے جدید اسلحے سے حملہ کیا، پولیس کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد اپنے زخمی ساتھیوں کو لیکر فرار ہوگئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حملہ ناکام بنانے پر پولیس کو شاباش دی اور غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرنیوالے افسران اور جوانوں کو انعام اور تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف تعریفی اسناد سے دہشتگردی کا سدباب ہو سکے گا؟۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ آج سوال یہ ہے کہ دہشتگردوں کو دوبارہ کون لے آیا؟، گزشتہ دور میں خیبرپختونخواہ کو دوبارہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پشاور پولیس لائنز مسجد دھماکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے ، یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوتی تو حکمران ناکامی کا اعتراف کریں اور گھر چلے جائیں ۔ افغانستان والے اپنے ملک کو سنبھال لیں گے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے۔ پی ڈی ایم ،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کرسی اور مفادات کیلئے برسرپیکار ہیں، سیاسی پارٹیاں آپس میں لڑنے کی بجائے ملک پر توجہ دیں۔ آئے روز مہنگائی اور دہشت گردی سے عوام دوہری اذیت کا شکار ہیں، آخر کب تک عوام برداشت کریں گے ،ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں تک پہنچیں گے۔ حکمران ایوانوں سے نکل کر عوام میں آئیں اور لوگوں کی فریادیں سنیں ، ابھی پٹرول بم گرایا گیا، اس کے ساتھ گیس بھی 60 روپے فی کلو مہنگی کر دی گئی۔ سابق صدر آصف زرداری نے تجویز دی ہے کہ کم از کم ماہانہ تنخواہ35ہزار روپے مقرر کی جائے مگر نجانے کب حکومت ایسا کرے اس سے پہلے لوگ مر رہے ہیں ، میں جو کچھ لکھ رہا ہوں ان باتوں کا اظہار گورنر کیمپ آفس میں موجود لوگ بھی کر رہے تھے۔ گورنر میاں بلیغ الرحمن سے ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ وسیب کی زبان و ادب کے حوالے سے آپ کے بزرگوں کی عظیم خدمات ہیں، آپ کے دادا مولانا حفیظ الرحمن نے قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ کیا اور دوسرے بزرگ مولانا عزیز الرحمن نے 1944ء میں نواب آف بہاولپور کی خصوصی ہدایت پر دیوان فریدؒ ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع کرایا۔ آپ کو بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ گورنر صاحب نے کہا کہ آپ کے مطالبے پر سرائیکی ادبی مجلس (رجسٹرڈ) بہاولپور کی بحالی کیلئے کمشنر بہاولپور اقدامات کر رہے ہیں۔ وسیب کی یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے قائم کرائے جائیں گے کیونکہ سرائیکی پاکستان کے تمام صوبوں میں بولی جاتی ہے۔ گورنر نے بتایا کہ 2008ء میں ہمیں جب موقع ملا تھا تو ہم نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سمیت وسیب کی یونیورسٹیوں کو بھاری فنڈز مہیا کئے ۔ انہوں نے بتایا کہ بہاولپور میں چولستان یونیورسٹی آف وٹرنری اینیمل سائنسز کے ساتھ رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی قائم کی اور کالجوں میں سرائیکی لیکچرز کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں، وسیب کی محرومی اور پسماندگی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ گورنر سے ملاقات کے دوران میں نے گورنر صاحب کو وسیب کی یونیورسٹیوں کے مسائل بارے آگاہ کیاکہ خواتین یونیورسٹی بہاولپور، خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان ، خواتین یونیورسٹی ملتان ، ایمرسن کالج یونیورسٹی، ملتان ، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان ، جھنگ یونیورسٹی جھنگ ، سرگودھا یونیورسٹی سرگودھا اور یونیورسٹی آف میانوالی میںسرائیکی شعبہ جات کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔خان پور کیڈٹ کالج عرصہ دس سال سے منظور ہے مگر ترقیاتی کام اور کلاسز کے اجراء سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ خان پور میں شوگر فارم کا وسیع رقبہ موجود ہے وہاںزرعی یونیورسٹی کے قیام کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سندھیالوجی طرز پر سرائیکی ادارے کا قیام بھی اشد ضروری ہے، ملتان اور ڈی جی خان کے کیڈٹ کالج بھی منظور شدہ ہیںمگر توجہ نہیں دی جا رہی۔ گورنر میاں بلیغ الرحمن نے کہا کہ ان مسائل کی طرف بھر پور توجہ دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ دعا کریں ملک بحرانی کیفیت سے نکل آئے ، ہم اپنے وسیب کیلئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر