وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی بنگال والے کہتے ہیں کہ جو بنگال آج سوچ رہا ہے وہ باقی بھارت کل سوچے گا۔ اگر میں اس بات کو جنوبی ایشیا کی سطح پر جا کے دیکھوں تو بات کچھ یوں بنے گی کہ جو پاکستان کل کر چکا وہ بھارت آج کر رہا ہے۔
مثلاً ہم نے پچھلے پچھتر برس میں ریاستی سرپرستی میں مذہب اور سیاست کا آمیزہ بنا کے بھانت بھانت کے تجربے کر لیے۔کچھ تیر نشانے پر لگے تو اکثر تجربات میں ہاتھ جلا لیے اور ایک آدھ میں تو لیبارٹری ہی بھک سے اڑ گئی اور اسے دوبارہ تعمیر کرنا پڑا۔
بھارت دو ہزار دو میں گجرات فسادات کے ذمے دار مودی کے دور سے اس پگڈنڈی پر باضابطہ چڑھا ہے،ہمیں تو غیر منتخب ضیا الحق ملا تھا۔بھارت نے اپنا والا خود اپنے ہاتھوں سے چنا۔جس نے پچھلے آٹھ برس میں بتدریج آزاد پریس کا گلا گھونٹ دیا اور نیوز چینلز کو اپنے اتحادی اڈانیوں اور امبانیوں کے حوالے کر دیا۔
کل تک بھارت پاکستان کو طعنے دیتا تھا کہ یہاں اقلیتیں درجہ دوم کی شہری اور انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ آج پاکستانی اس بابت بھارت کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں مسلمان اور کرسچن چھوڑ سکھوں اور دلتوں کو آبرو کے لالے پڑے ہیں۔
کوئی بھی حکومت بھلے بلٹ کے زور پر آئے یا بیلٹ کے راستے۔بھلے دو ووٹوں پر ٹکی ہو یا دو تہائی اکثریت کی تلوار سے مسلح ہو۔بائیں بازو کی ہو کہ دائیں کی۔ سیکولر ہو کہ مذہبی۔ سب میں ایک خوف ساجھا ہے۔
اور خوف یہ ہے کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے اور ووٹروں کے دل میں اس وقت کون کون سے سوالات کلبلا رہے ہیں۔اور ان سوالوں کو بڑھاوا دینے والے روایتی یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کیسے مرید بنایا جا سکتا ہے۔
سرکاریں اس بارے میں بھانت بھانت کے قانون بناتی رہتی ہیں۔دھمکی ، پیار ، پھول اور ڈنڈے سے بھی کام لیتی ہیں۔ پھر بھی اندر ہی اندر کہیں نہ کہیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی رہتی ہیں۔کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں وہ نہ ہو جائے۔
جیسے پاکستان میں روایتی اور سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کے لیے دو ہزار سولہ سے پہلے تک غداری ، فحاشی اور افواہ کی روک ٹوک کے لیے انگریز دور کے درجن بھر قوانین موجود تھے۔
ان قوانین میں آزادی کے بعد تھوڑی بہت ترامیم ہر حکومت نے اپنی ضروریات کے حساب سے کیں تاکہ ان کی دھار تیز رہے۔ان قوانین کے نشانے پر آنے والے صحافیوں کو ایک ساتھ بیسیوں پولیس پرچے بھی بھگتنے پڑتے تھے۔
پٹائیاں بھی ہوتی تھیں اور کوڑے بھی لگ جاتے تھے۔مگر ہر آنے والی حکومت میں احساسِ عدم تحفظ ہر گزشتہ حکومت کے مقابلے میں کم پڑنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔
اس کیفیت میں دو ہزار سولہ میں پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ( پیکا ) کا قانون لاگو ہوا۔ اس کی ضرورت یوں بتائی گئی کہ سوشل میڈیا کے بازار میں کسی شریف عورت یا آدمی یا ادارے کی عزت یا پگڑی کسی جملے یا تصویر کے ذریعے اچھلے یا کوئی کسی کو بلیک میل کرے تو ایف آئی اے ایسے ملزم پر گرفت کر سکتی ہے۔
اگرچہ میڈیا نے تب بھی بہت شور مچایا کہ پیکا کے پردے میں دراصل حکومت مخالف لوگوں کی گردن ہی ناپی جائے گی مگر تب نواز شریف حکومت نے ہر پچھلی حکومت کی طرح یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میڈیا کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
جب عمران حکومت نے ان قوانین میں مزید سختی لانے کی کوشش کی تو انھی نواز شریفیوں نے اسے آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی ایک فسطائی کوشش قرار دیا۔ اللہ اللہ۔
آج یہ حال ہے کہ پیکا کے ہوتے سوشل میڈیا پر ججوں اور جرنیلوں کے کھل کے لتے لیے جاتے ہیں۔ مگر یہ قانون ٹرولرز کے خلاف اتنا استعمال نہیں ہوتا جتنا صحافیوں یا حکومت مخالف ویب سائٹس یا ٹویٹراٹیز کے خلاف ہوتا ہے۔
ابھی ابھی ایک رپورٹر کو سابق سپاہ سالار کا ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر سے چرانے کے الزام میں اٹھا لیا گیا اور فی الحال وہ ضمانت پر باہر ہے۔لیکن یہ ریکارڈ اوریجنل ہے یا جعلی اور اس بنیاد پر بذاتِ خود یہ مالیاتی تفصیلات اور صاحبِ تفصیلات بھی چھان بین کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں۔اس بابت سب چپ ہیں۔
دوسری جانب ایک ایسے ملک میں جہاں قتل کا پرچہ کٹوانے کے لیے بھی دباﺅ یا سفارش کام آتی ہے۔ پولیس نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کے ایک متنازعہ ٹویٹ پر ہر راہ چلتے کے کہنے پر چاروں صوبوں میں جھٹ سے لگ بھگ بیس پرچے کاٹ ڈالے اور سواتی کو فٹ بال الگ سے بنایا گیا۔ ان کی گلو خلاصی بھی عدالت کے ذریعے ہوئی۔
اس پس منظر جب سرحد پار سے خبر آئی کہ مودی سرکار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبروں اور افواہوں کو روکنے کا اختیار مرکزی وزارتِ اطلاعات کے پریس انفارمیشن بیورو کو سونپ رہی ہے اور کئی صحافی اور تنظیمیں اس کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ چلو دیر آید درست آید۔مودی سرکار کو خیال تو آیا کہ افواہ اور جھوٹی خبر کتنا بڑا مسئلہ ہے۔
ہمیں امید ہے کہ جس طرح این ڈی ٹی وی سمیت لگ بھگ تمام لائسنسڈ الیکٹرونک میڈیا کو جھوٹی خبروں اور تبصروں سے بچانے کے لیے تیزی سے پاک کیا جا رہا ہے۔
اور جس طرح رویش کمار، رعنا ایوب، صدیق کپن ، فہد شاہ اور دوسرے اسٹینڈ اپ کامیڈینز اور ایمنٹسی جیسی غیر ملکی تنظیموں کو جعلی رپورٹنگ اور جعلی تبصرے بازی سے روکنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
اور جس طرح بالی وڈ میں فحاشی کے انسداد اور تاریخی واقعات کی ” درستی “ کے لیے سرکاری حمایت سے جہاد ہو رہا ہے۔ اسی طرح پریس انفارمیشن بیورو نفرت انگیز ٹرولز، وٹس ایپ اور ٹویٹر پر اچھلنے والے سوشل اور پولٹیکل گند کی صفائی میں بھی پہلے کی طرح اپنا کردار اچھے سے نبھائے گا۔
بہتر بات ہے کہ حزبِ اختلاف کانگریس کی قیادت نے بھی آئی ٹی کے قانون میں تبدیلی کی تجویز کو سنسر شپ ٹو پوائنٹ او قرار دیا ہے۔
حالانکہ انیس سو پچھتر میں مسز اندرا گاندھی کی ایمر جنسی لگی تو اسی پریس انفارمیشن بیورو کو میڈیا کا گلا گھونٹنے کا کام سونپا گیا تھا۔چنانچہ کانگریس سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسے قوانین کیسی کیسی خوبصورت نقابیں اوڑھا کے لائے جاتے ہیں۔
نیا قانون لاگو ہونے کے بعد بی بی سی جیسے ادارے کو بھی شاید کچھ عقل آ جائے جو ” مودی کوئیسچن “ جیسی گجرات دشمن دستاویزی فلمیں بنا کے ایک محب وطن اور شدھ میڈیائی ماحول کو بگاڑنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔اب اس دستاویزی فلم کو یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھارت کی جغرافیائی حدود سے ہٹایا جا رہا ہے۔
پاکستان تو پہلے ہی سے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں شامل ایک سو اسی ممالک میں سے ایک سو باسٹھویں نمبر پر ہے۔بھارت اس وقت ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔ہم چاہیں گے کہ بھارت اس میدان میں بھی پاکستان کو اگلے برس تک پیچھے چھوڑ دے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر