ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر دکھاؤ ، ڈاکٹر دکھاؤ،
آپریشن تھیٹر کی میز پر لیٹی زچہ اگر اونچی آواز میں یہ چیخنا شروع کر دے تو کیا کیا جائے؟ پرانے زمانے میں گھونگھٹ کاڑھے دلہن کے لیے کہا جاتا تھا — دلہن دکھاؤ، دلہن دکھاؤ — اور وہ سر جھکائے گھٹنوں میں منہ دبائے بیٹھی رہتی تھی ۔ خواب ہوئے وہ وقت کہ اب ایسا کہنے کی ضرورت نہیں ۔ اب تو اگر دلہن کو نہ دیکھا جائے تو شاید وہ برا مان جائے — لو اتنا مہنگا جوڑا اور میک اپ اور آپ ہیں کہ دیکھ ہی نہیں رہے ۔ افوہ ہم بھی نا ، بہکنے میں سیکنڈ نہیں لگتا — مریض کی بات چھیڑی اور دلہن تک جا پہنچے ۔
خیر گاؤن سنبھالتے ہاتھ میں چاقو پکڑے پردے کے اوپر سے جھانکا — ارے بھئی یہاں ہیں ہم، کیا ہوا؟ دیکھو اب یہ نہ کہنا ، ذرا چہرہ تو دکھاؤ اور تھوڑا سا مسکراؤ—ماسک اور ٹوپی کی اوٹ میں مسکرائے بھی تو کیا دیکھ سکو گی تم ؟
ڈاکٹر پلیز آپریشن ٹھیک کرنا ، اچھے سے —وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
ہائیں اب کیا کہیں ؟ کیا اپنی تعریف کے پل باندھیں یا کچھ اور؟
ڈاکٹر ، گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے —
دیکھو بچے تو ہمارے بھی ہیں ، اور ہمیں تو چھوٹے ہی لگتے ہیں باوجود ان کے احتجاج کے — اماں ہم گود والے بیبیز نہیں رہے اب —
بیٹا — دل کڑا رکھو۔ یہ مشکل وقت ہوتا ہے، خدا سے دعا کرو اور ہم پہ تھوڑا سا بھروسہ — تمہارے پھر سے جی اٹھنے میں ہماری بھی زندگی ہے۔ اگر تم سانس کھو بیٹھیں تو ہمارے سانس قابو میں کہاں؟ تم جیو گی تو ہم بھی جئیں گے ۔
کراچی اور پنڈی کے طوفانی دورے کے بعد ائیرپورٹ سے کوئی سیدھا ہسپتال پہنچ جائے تو کیا کریں ایسی ڈاکٹر کا — ارے کچھ خیال کرو اب پچیس تیس کی تو ہو نہیں تم — سٹھیانے والی عمر کو پہنچنے والی ہو اور حرکتیں دیکھو۔ چلو ہٹو، مت سمجھاؤ ہمیں دل تو بچہ ہے ابھی —دل کی سرگوشی —مریض کی ذمہ داری اٹھائی، وعدہ کیا کہ ہم ہی کریں گے آپریشن، تو نباہنا تو پڑے گا نا ۔
تسلی دی اور چاقو چلایا— اگلی کہانی ویسی ہی، جیسی ہمیشہ ہوتی ہے— چوتھا آپریشن ، پیٹ میں کوئی چیز ویسی نہیں رہی جیسی بنی تھی۔ مثانہ چپکا ہوا، تار تار چیتھڑے جیسا رحم — چلو بھئی رفو گری کے ہنر کا کہیں تو فائدہ نظر آیا —کیا ہوا اگر کندھے شل ہوئے تو؟
پاکستان میں گزری آخری رات، نیند آئی نہیں، تھکاوٹ اور مسلسل سفر، پہنچتے ساتھ آپریشن تھیٹر کی جانب دوڑ ، مریض کا رونا دھونا اور ڈاکٹر کے چور چور بدن پہ لگے دو بازو اور دو ہاتھ — پاؤں کی کچی پکی جڑی ہڈی رہ رہ کر ٹیس کی صورت میں یاد دلاتی رہی کہ جاگتی رہنا بہنا، میرے پہ نہ رہنا—-
اس سب کے بعد اگر ڈاکٹر کو مریض کا گھر والا اور چچا سسر گھیر لیں اور ہسپتال کے بل پہ بحث کرنا شروع کریں جو ڈاکٹر کے اختیار میں نہیں تو بتائیے ڈاکٹر کٹ کھنی بلی بنے گی یا نہیں ؟ بن گئے ہم — اور چیخنے کے بعد سوچا کیا واقعی یہ ہم تھے ؟ چُور چُور جسم سے جواب آیا — بی بی کیا لوہے سے بنی ہو تم ؟
خیر بوسیدہ کہانی ہے یہ ۔ ڈاکٹر مہربان ہو تو مریض بے اعتبار — ڈاکٹر اچھا نہ ہو تو مریض مظلوم — کیا کیا جائے ؟ کس کس کو سمجھائیں اور کیسے ؟
اور اگر کبھی ہم مریض بن کر ڈاکٹر کی چوکھٹ پہ جا بیٹھیں اور وہ مرد ناداں ہمیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دے تو کس سے گلہ کریں ہم ؟ کس سے کہیں کہ جو ڈاکٹر ہمارے حصے میں آیا —ان کی اک نگاہ غلط انداز کے بھی ہم حقدار نہ ٹھہرے — وہ مسلسل ساتھ والوں کو ہمارے علاج کی تفصیلات سمجھاتے رہے اور ایک دنیا کو سمجھانے والی انہیں یہ نہ کہہ سکی ، اے مہربان، ہم بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں ۔ ٹرک بھائی جان ٹھیک کہتے ہیں نصیب اپنا اپنا ۔
کسی اور کو کیا سمجھائیں، جب خود سمجھ نہیں آتا کہ کون صحیح کون غلط ؟
ڈاکٹرسالہا سال خدمت کی روش پہ چلے ، لیکن معاشرے نے کالے حکمرانوں کو سر پہ بٹھا کر سمجھایا کہ یہ ہیں عزت کے قابل لوگ — تم کون؟ کیا مال بیچتے ہو؟ چلو بھاگو۔
نتیجہ کیا نکلا ؟ ڈاکٹرز نے سوچا کروڑوں روپیہ اور دن رات کی محنت کے بعد کوڑی کی عزت نہیں مل سکی ، چلو اب مال ہی بنا لیں اور وہ بھی چور راستے سے نہیں بلکہ دن کی روشنی میں علی الاعلان—
ڈاکٹرز نے روپیہ کمانا شروع کیا لیکن انسانیت مر گئی — سبھی کرتے ہیں بھائی اس انسانیت کو قتل — چھوڑو خدمت شدمت —- تمہارے بھی بچے ہیں جن کا پیٹ روٹی مانگتا ہے ۔ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے کیا تم ہی رہ گئے؟
لیکن یہاں ایک بات ڈاکٹر بھول گئے ۔ زندگی اور موت کی درمیانی لکیر پہ کھڑا ڈاکٹر آسمان کے اوپر بیٹھے مالک کے بعد مریض کا آخری سہارا جسے مریض خدا ہی مان رہا ہوتا ہے اس وقت —مریض کیسے جانے کہ کرنسی نوٹوں کے روگ نے جس طرح اسے سیندھ لگائی ہے ، وہی حشر ڈاکٹر کا بھی ہوا ہے۔
مریض جانے نہ پائے کہیں اور— گھیرو اسے ، آپریشن کرو اس کا ، چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو—ڈاکٹر کو آپریشن کرنا آتا ہو یا نہ ہو— کیا ہوا اگر مریض مر گیا تو ؟ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ڈاکٹر کو بلڈنگ کا کرایہ دینا ہے، بجلی پانی کا بل بھرنا ہے، چوکیدار اور نرس کی تنخواہ دینی ہے ۔ مریض سے پیسہ پکڑے گا تو سب کچھ پورا کرے گا نا ۔
مریض یہ نہیں جانتا کہ اے بی سی ڈی نامی ڈگریاں کس چیز کی ہیں ؟ میڈیکل کالج سے یہ ڈاکٹر کچھ سیکھ کر نکلا یا سفارش سے پاس ہو گیا ؟ اگر سفارش سے ہوا تو کس کا قصور ؟ پاس کرنے والے نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے نہ جانے کتنے مریں گے ؟ سفارش کرنے والے نے کیوں نہیں سوچا ؟ اس لیے کہ کالے حکمرانوں نے اپنا علاج تو گوروں سے کروانا ہے ۔ یہ ڈاکٹر تو دیہی علاقوں کے مکھی مچھر لوگوں کے لیے ہے سو کر دو پاس ۔
لیکن ٹھہریے یہ تو بتائیے کہ یہ بے رحم لالچی بے حس ڈاکٹر آئے کہاں سے ؟ مریخ سے ؟ چاند سے ؟
پہچانیے انہیں — یہ آپ ہی کی اولاد ہیں جنہیں آپ نے میڈیکل کالجوں میں زبردستی جھونکا— ڈاکٹر بنو ڈاکٹر ، کمائی بہت ہے — ڈاکٹر بھوکا نہیں مرتا —
وہ جو مصور ، استاد ، ادیب بننے کے لیے پیدا ہوئے تھے جنہیں انسانی جسم کو ہاتھ لگاتے ہوئے خوف آتا تھا ، انہیں مال کی چاہ میں آپ نے ڈاکٹر بنا دیا —
کاٹیے اب آپ ، بویا بھی آپ نے ہی ہے ۔ ہماری زنبیل میں بہت سی کہانیاں ہیں جو سنانا چاہتے ہیں ہم ، یہ مضمون ان کی تمہید ہے –
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر