نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیسہ اخبار سٹریٹ سے بازار صحافت تک|| وجاہت مسعود

ریاستی دباﺅ نے صحافی کے قلم میں تزلزل اور زبان میں لکنت پیدا کر دی۔ سات دہائیوں سے سیاست دان کو بدعنوان، جمہوریت کو بیرونی سازش اور انسانی حقوق کو مغربی ایجنڈا قرار دینے والے صحافیوں کو لفافہ خور کا خطاب دیا گیا تو اس الزام کو من و عن تسلیم کرنے والی نسلوں کے ذہن مفتوح ہو چکے تھے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پشاور سے کلکتہ تک 1500 میل لمبی جرنیلی سڑک شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں تعمیر کرائی تھی۔ اس شاہراہ پر وزیر آباد سے لاہور کا فاصلہ نوے میل سے زیادہ نہیں لیکن اس مختصر سے منطقے نے اردو صحافت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وزیرآباد کے مولوی محبوب عالم نے 1887ءمیں ہفت روزہ پیسہ اخبار جاری کیا۔ بیسویں صدی میں لاہور منتقل ہو کر اسے روز نامہ اخبار کی شکل دی۔ پیسہ اخبار کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ گورنمنٹ کالج اور انارکلی بازار کے درمیان واقع پیسہ اخبار کے دفتر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت کو ایک خصوصی ڈاک خانہ قائم کرنا پڑا۔ سرکاری طور پر اس گلی کو پیسہ اخبار سٹریٹ کا نام دیا گیا۔ مولانا ظفر علی خان کا آبائی وطن بھی وزیر آباد ہی تھا۔ ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے 1903 میں ہفت روزہ زمیندار نکالا۔ 35 سالہ ظفر علی خان حیدرآباد دکن سے خارج البلد ہوئے تو 1908ءمیں زمیندار کو لاہور لا کر اردو صحافت کو ایک نیا باب بخشا۔ ہمارے عہد میں ادب اور صحافت کے زندہ رود عطا الحق قاسمی نے بھی وزیر آباد ہی میں آنکھ کھولی۔ زمیندار اخبار سے روز نامہ انقلاب برآمد ہوا جسے غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کی قیادت نے عزت بخشی۔ پونچھ سے براستہ کلکتہ لاہور پہنچنے والے چراغ حسن حسرت نے اپنے لئے الگ جوئے آب نکالی۔ یہ زمانہ پنجاب کی اردو صحافت میں ہندو مسلم تقسیم سے عبارت تھا۔ پرتاب، محراب، ملاپ اور وی بھارت جیسے بڑے اخبارات کے ہندو مالکان وسیع مالی وسائل رکھتے تھے اور پیشہ ورانہ قاعدے ضابطے سے چلتے تھے۔ اردو اخبارات مذہبی جذبات کی آڑ لے کر کارکن صحافیوں کو تنخواہ دینے کے روادار نہیں تھے نیز دیسی ریاستوں کی سرپرستی، انگریز سرکار کی کاسہ لیسی اور مقامی سیاست دانوں کی خوشنودی کے محتاج تھے۔ اردو صحافت کی اسی روایت نے پاکستان میں ایک نئی صورت اختیار کی۔
1947ء میں ظفر علی خان، غلام رسول مہر اور مجید سالک کا عہد ختم ہو رہا تھا۔ میاں افتخار الدین نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی بنیاد رکھی لیکن ریاست صحافت کی آزادی سے خائف تھی۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ سے اخبارات کا ناطقہ بند کرنے کا سلسلہ اپریل 1959 میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی بندش پر منتج ہوا۔ یہ دس برس حمید نظامی، الطاف حسین اور زیڈ اے سلہری کی صحافت سے عبارت تھے۔ سادہ اصول ہے کہ صحافی ریاست اور عوام کے درمیان کشاکش میں عوامی مفاد کا حامی ہونے کی نسبت سے جائز سیاسی فریق ہے لیکن حکومت کے بناﺅ بگاڑ میں مداخلت نہیں کر سکتا اور نہ ریاستی منصب کا جویا ہو سکتا ہے۔ ہماری صحافت اس اصول پر استوار نہیں ہوئی۔ حمید نظامی لیاقت علی خان کے مخالف تھے اور خواجہ ناظم الدین کے مقابلے میں غلام محمد کے ترجمان تھے۔ الطاف حسین نے ایوب آمریت میں وزارت قبول کی۔ زیڈ اے سلہری جنگ ستمبر میں فوج کے اعزازی ترجمان بن گئے۔ ایسی صحافت سے نیشنل پریس ٹرسٹ ہی برآمد ہونا تھا جو جمہوری قبا میں آمرانہ ریاستی استبداد کا پیوند تھا۔ سیاست ہو یا صحافت، ہم نے قوم کی اشک شوئی کے لیے مٹھی بھر معتوب مزاحمت کاروں کی ایک فہرست تیار کر رکھی ہے۔ اہل سیاست یا اہل صحافت کی مدافعت میں وہی نصف درجن نام دہرا دیے جاتے ہیں۔ گنتی کے چند واقعات بھی ساتھ میں ٹانک لیے جاتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ تاریخ مسخ کرنے اور عوام کا سیاسی شعور کند کرنے میں صحافت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ سول ملٹری گزٹ کا جرم کشمیر کے بارے میں ایک ایسی خبر شائع کرنا تھا جو بعد ازاں درست ثابت ہوئی۔ منیر انکوائری رپورٹ میں درج ہے کہ آفاق، احسان، مغربی پاکستان اور زمیندار جیسے اخبارات اشتعال انگیزی کے لیے دولتانہ حکومت سے عوضانہ لے رہے تھے۔ جنوری 1965 کی صدارتی مہم میں ہماری صحافت کا کردار درخشاں نہیں تھا۔ جنگ ستمبر 65ءمیں قوم کو ولولہ انگیز خبروں اور ترانوں میں مدہوش رکھا گیا۔ چنانچہ قوم کبھی معاہدہ تاشقند کے سیاق و سباق سے آگاہ ہی نہیں ہو سکی۔ 1971 میں مغربی پاکستان والوں کو کیسے خبر ہوتی کہ مشرقی محاذ پر ہماری حالت دگرگوں ہے کیونکہ ہر حقیقت پسند بات کو غداری سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے نیشنل پریس ٹرسٹ تحلیل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس عہد کا انجام الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی اور حسین نقی سے پوچھ لیجئے۔
تسلیم کہ ہماری صحافت میں آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی روایت موجود رہی ہے لیکن اس مزاحمت کی اجتماعی شرح اتنی ہی ہے جتنی ہمارے ملک میں جمہوری روایت کی توانائی۔ ضیا آمریت کا خیر مقدم ہو یا افغان جہاد کے بلند آہنگ قصیدے، ہماری صحافت سیاست کو کالعدم، سیاسی کارکن کو تخریب کار اور جمہوری آوازوں کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتی رہی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے شکوہ نہیں کہ قریب نصف صدی تک سرکاری ادارے تھے۔ اخبارات اور جرائد نے بھی آمریت کی مسلط کردہ سنسر شپ کو اپنے اندر اتار لیا۔ ریاستی دباﺅ نے صحافی کے قلم میں تزلزل اور زبان میں لکنت پیدا کر دی۔ سات دہائیوں سے سیاست دان کو بدعنوان، جمہوریت کو بیرونی سازش اور انسانی حقوق کو مغربی ایجنڈا قرار دینے والے صحافیوں کو لفافہ خور کا خطاب دیا گیا تو اس الزام کو من و عن تسلیم کرنے والی نسلوں کے ذہن مفتوح ہو چکے تھے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ صحافت کے سر سے ففتھ جنریشن وار فیئر کا بادل چھٹ چکا ہے مگر ایسے کہ سرکاری یا نجی تمام صحافتی ادارے خبر دینا بھول چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے سکینڈل بیان کرنا اور لمحہ موجود کے سیاسی اور معاشی حقائق سے نظریں چرانا صحافت کی آزادی نہیں۔ بازار صحافت میں خبر کی ساکھ گم ہو چکی ہے۔ صفحہ اول کی خبر یہ ہے کہ فلاں کھلاڑی کے نکاح مسنونہ میں کتنا حق مہر رکھا گیا نیز کس اداکارہ کے نومولود بچے کی تصویر وائرل ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author