وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنا۔“
پنجاب کے بارہ کروڑ لوگوں کو اس کا مطلب سمجھانے کی ضرورت نہیں اور بقیہ جن دس کروڑ پاکستانیوں کو اس محاورے کا پس منظر نہیں معلوم وہ ان بارہ کروڑ سے پوچھ لیں جنھیں معلوم ہے۔ ورنہ کسی بھی ریاستی عمل دار سے جان لیں جو پچھتر برس سے یہی کام کرتے آ رہے ہیں۔
جو لوگ ایوب خان کے دور میں لڑکے بالے تھے انھیں یاد ہو گا کہ پورے نظامِ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کھکیڑ، اساتذہ کی معیاری تربیت اور ضروری سہولتوں کی فراہمی کے خرچے سے بچنے کا طریقہ یہ نکالا گیا کہ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں غیر ملکی امداد کے بل پر سو عدد پیلے سکولوں کے درمیان ایک عدد پائلٹ اسکول ، ایک عدد ماڈل ہائی اسکول اور ایک عدد کمپری ہینسو اسکول قائم کر کے فرض کر لیا گیا کہ معیارِ تعلیم اچھا ہونے لگے گا۔
اگلے دس پندرہ برس میں ان ماڈل اسکولوں اور ان سے کم سہولتوں کے حامل پیلے اسکولوں کے نتائج میں کوئی واضح فرق سامنے نہیں آ سکا۔ فروغِ تعلیم کے لیے غیر ملکی امدادی سوتے خشک ہونے کے سبب ان تجرباتی اسکولوں کو بھی پیلیا ہو گیا۔
مگر ناکامی سے سبق لینے کے بجائے تجربے کو بدستور آگے بڑھایا گیا۔ اس سلسلے کی آخری مثال دورِ شریفیہ کے پنجاب میں دانش اسکولوں کا قیام تھا۔ کروڑوں روپے مختص کرنے کے باوجود نتیجہ کم و بیش وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔ چنانچہ گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے میں بھی ناکامی کے بعد تعلیمی انتظامی نظام ہی نجی شعبے کی سہولت کاری کے لیے وقف ہو گیا۔
پٹرول کی بچت کے ذریعے قومی زرِ مبادلہ بچانے کی پہلی کوشش جنرل ضیا الحق نے کی جب انھوں نے کسی عاقل خوشامدی کے کہنے پر ایک روز سرکاری گھر کے بالکل بغل میں واقع دفتر تک سائیکل پر پیڈل مارنے کا مظاہرہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ دیگر امرا بھی تقلید سلطان میں قومی بچت کی اس اسکیم میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
یوں ہم سب اسکنڈے نیویا ، چین ، ویتنام اور کیوبا کی طرح صدرِ مملکت سے نائب قاصد تک ایک ہی ” سائیکل “ کا حصہ بن جائیں گے۔اس کارِ بے مصرف میں جتنے سنجیدہ خود جنرل صاحب تھے اتنے ہی سنجیدہ ان کے حوالی موالی بھی تھے۔چنانچہ ایک مہینے بعد کسی کو یاد بھی نہیں تھا کہ سائیکل چلانے کے فوٹو سیشن کا مقصد اصل میں تھا کیا ؟
اس ملک کی اشرافیہ کو سادگی اپنانے کا بچپن سے ہی شوق رہا ہے۔ محمد خان جونیجو نے بھی سوچا کہ اگر لگڑری گاڑیوں کا وی آئی پی کلچر ختم ہو جائے تو ملک کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ مثال قائم کرنے کے لیے یہ اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ کوئی ملٹی اسٹار جنرل ہو کہ گریڈ بائیس کا افسر۔ سب سوزوکی ایف ایکس میں سفر کریں گے۔
اس سے پہلے کہ کوئی وفاقی سیکریٹری یا جنرل سوزوکی میں بیٹھتا، جنرل ضیا نے جونیجو صاحب کو ہی جھنڈے والی گاڑی سے اتار کے سندھڑی آم کے پیداواری علاقے ( میر پور خاص ) میں قائم ان کے آبائی گاﺅں سندھڑی بھیج دیا۔ اس واقعہ کے تین ماہ بعد خود جنرل صاحب بھی بہاول پوری چونسے کی پیٹیوں کی تاب نہ لا سکے۔
کفایت شعاری بذریعہ سوزوکی کے جونیجوی تجربے کے تینتیس برس بعد عمران خان نے وی آئی پی کلچر کے گونگلو سے مٹی یوں جھاڑی کہ ایوانِ وزیرِ اعظم کی لگژری گاڑیوں کے بیٹرے کو قطار میں کھڑا کر کے نیلامی کا ٹینڈر دے دیا اور وزیرِ اعظم ہاﺅس کی گائیں بھینسیں بھی فروخت کر ڈالیں اور وزیرِ اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا وچن بھی دے ڈالا۔ہم سب سمجھے لو بھئی اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے وارث کا ظہور ہو گیا۔
اور پھر یوں ہوا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر بھی بطور ٹیکسی استعمال ہونے لگا اور بات بڑھتے بڑھتے توشہ خانے تک پھیل گئی۔
اسی طرح کسی لال بھجکڑ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ پٹرول اور بجلی کے اخراجات کا معاشی بوجھ کم کرنے کے لیے اگر سرکاری دفاتر میں دو چھٹیاں کر دی جائیں تو سالانہ کئی کروڑ ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ بی بی صاحبہ کو یہ تجویز پسند آ گئی۔
اخراجات کم ہوئے کہ نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے البتہ معروف شاعر جمال احسانی مرحوم کے بقول ہفتے میں دو چھٹیوں سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ پہلے سرکاری دفاتر میں جو کام چھ دن میں نہیں ہوتا تھا اب وہی کام پانچ دن تشنہ رہنے لگا۔اگلی حکومت نے نہ صرف گھنٹہ آگے پیچھے کر دیا بلکہ ہفتہ پھر چھ دن کا کر دیا۔اس سے اگلی حکومت نے پھر پانچ دن کا کر دیا اور اس سے اگلی حکومت نے پھر چھ کا کر دیا۔ انقلاب پھر بھی نہ آیا۔
میاں صاحبان نے ملکی معیشت میں بچت کے منصوبوں کو جب جب بس چلا ” نیکسٹ لیول “ پر پہنچا دیا۔ اپنے پہلے دور میں انھوں نے نوجوانوں کی بے روزگاری ختم کرنے کے لیے پیلی ٹیکسیاں چلوا دیں اور پھر فلک نے دیکھا کہ اس اسکیم میں اربوں روپے پھونکے جانے کے باوجود نہ ٹیکسیاں رہیں اور نہ انھیں چلانے والے۔
پھر کسی نے کان میں کہا کہ جی قرض اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں سے براہ راست اپیل کی جائے۔ چنانچہ پہلے اسلامی ایٹمی ملک کے وزیرِاعظم نے چاغی دھماکوں کے کچھ عرصے بعد قرض اتارو ملک سنوارو کا گجر بجا دیا۔آج جب کہ چھوٹے میاں صاحب سریرآراِ سلطنت ہیں۔ قرضہ کل قومی آمدنی کے اسی فیصد کے برابر ہے اور گردن سودی پانی سے اوپر رکھنے کے لیے بھی ساختہ آئی ایم ایف آکسیجن سلنڈر درکار ہے۔
اسی طرح روٹی سستی کرنے کے لیے کسی نے پنجاب کے خادم اعلیٰ کو مشورہ دیا کہ تندوریوں اور فلور ملیوں کو رعایتی امدادی قیمت پر سستی گندم اور آٹا دیا جائے تو روٹی پانچ روپے پر منجمد ہو جائے گی اور ہر جانب ” شیر ایک واری فیر“ ہو جائے گا۔
چنانچہ گونگلو سے مٹی جھاڑنے کی اشرافی ذہنیت کے ہاتھوں اربوں روپے تندور میں جھونک کے انگلیاں جلا لی گئیں۔آج بفضلِ ذہانت انھی خادم اعلیٰ کے راج میں روٹی کہیں بیس تو کہیں پچیس روپے کی دستیاب ہے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ گونگلو دیکھ کے گونگلو رنگ پکڑتا ہے۔ اس کا ایک مظہر دیامر بھاشا ڈیم ہے۔جس ڈیم کی سرمایہ کاری پر سے عالمی بینک نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس ڈیم کو ” چیف جسٹس سابق نثار “ نے اپنے دور میں کاندھوں پر اٹھا لیا۔آٹھ ارب جمع ہوئے کہ دس ارب روپے۔خدا بہتر جانتا ہے۔مگر آٹھ تا بارہ ارب ڈالر کے اس آبی منصوبے کی داڑھ تک گیلی نہ ہو پائی۔
اب دو ہزار ایک سو سینتیسویں بار ایک اور تجربہ نافذ کیا جا رہا ہے۔یعنی مارکیٹیں رات ساڑھے آٹھ بجے اور شادی ہال دس بجے بند ہو جائیں ، سرکاری دفاتر میں تیس فیصد کم بجلی استعمال ہو۔زیادہ بجلی چوسنے والے بلب بنانے بند کر دیے جائیں ، ای بائیکس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بلڈنگ کوڈ میں ترامیم کے ذریعے رہائشی و دفتری عمارات کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ قدرتی روشنی زیادہ سے زیادہ اندر آسکے تو ملک کو توانائی کے بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا نے یہ تازہ وفاقی منصوبہ پہلے ہی گھنٹے میں مسترد کر دیا۔ انجمنِ تاجران کئی بار پہلے بھی آٹھ بجے بتی گل کرنے کے منصوبوں کی بتی بنا چکی ہے اور خود منصوبہ بند بھی قائل ہیں کہ وہ نہ تو ان سرکاری محکموں پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں جو بجلی کے اربوں روپے کے عادی نادہندہ ہیں اور نہ ہی ڈیم اور بجلی گھر سے صارف کی دوکان تک پہنچنے والی بجلی کے چالیس فیصد لائن لاسز کو کنٹرول کرنے کی مالی و تکنیکی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی توانائی کے شعبے کو ڈھائی کھرب روپے کا گردشی قرضہ لوٹانے کی پوزیشن میں ہیں۔ لہٰذا تھوڑے سے نمائشی اقدامات کے ذریعے گونگلو پر سے مٹی جھاڑنے میں کسی کا کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی گونگلو سردیوں کی فصل ہے۔
(تو کیا بجلی کی بچت کا یہ انقلابی منصوبہ گلگت بلتستان پر بھی لاگو ہو گا جہاں اسکردو میں منفی بیس درجہ حرارت میں ہزاروں مکین روز باہر نکلتے ہیں تاکہ بیس سے بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جانب سرکار کی توجہ مبذول کروا سکیں۔وہاں تو ہیٹر گرم کرنے کے لیے گیس بھی نہیں پہنچائی جا سکی)۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر