ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی زبان کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کی 67 ویں سالگرہ کی تقریب ان کے آبائی گائوں راجہ رام شجاع آباد میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شاکر شجاع آبادی کی فن ، فکر اور شاعری کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر شاکر شجاع آبادی کی وفات کی افواہ اڑائی گئی تو عظیم شاعر احمد خان طارق ان دنوں حیات تھے ‘ انہوں نے بہت بڑی بات کی ، ان کا کہنا تھا کہ ’’ شاعر تو مر کر بھی زندہ رہتا ہے ۔ نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو وسیب کے نامور شاعر شاکر شجاع آبادی صاحب کی وفات کی خبر اڑاتے ہیں ‘‘۔ احمد خان طارق کا ذکر آیا ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ شاکر شجاع آبادی کی طرح احمد خان طارق بھی سرائیکی کے عظیم شاعر تھے ‘ یہ ٹھیک ہے کہ ہر ذی روح نے ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں یقینا احمد خان طارق کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ شاکر شجاع آبادی نے کہا ہے کہ ’’جے تو مَر تے زندگی چاہندیں، تاں فریدی ٹوٹکا سن گھن، بقاء دے وچ فنا تھی ونج ، بقا جانے خدا جانے‘‘۔ اس غزل کا ہر شعر لافانی ہے، انہی اشعار کی وجہ سے شاکر شجاع آبادی کو جہاں بہت سے دوسرے اعزازات حاصل ہیں وہاں ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ سرائیکی شاعری میں متفرق اشعار شاکرؔ صاحب نے لکھے اور اگر ہم ادبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اُردو شاعری میں علامہ اقبال نے بھی متفرق اشعار لکھے تھے۔حقیقی بات یہ ہے کہ ادب کے حوالے سے شاکر شجاع آبادی ایک شخص کا نہیں ایک عہد کا نام ہے ، اپنی شاعری کے ذریعے شاکر نے ایک زمانے کو متاثر کیا ہے ، اس کے متاثرین کی تعداد لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک پہنچ چکی ہے ، اب پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں شاکرؔ کے چاہنے والے موجود ہیں۔خالقِ کائنات نے ہمارے وسیب کی مٹی کو خصوصی نوازشات سے نوازا ہے ۔ یہ خطہ بلاشبہ زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی ، زرخیزی کا عالم یہ ہے کہ علاقہ پورے ملک کی مجموعی خوراک و لباس یعنی کپاس و گندم کا 70 فیصد مہیا کر رہا ہے اور معدنیات میں تیل ، گیس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان سے حاصل ہونے والی یورینیم کی مالیت کھربوں میں ہے ۔ اس علاقے کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ مردم خیزی کا نظارہ اگر کرنا ہو تو زیادہ دور جانے یا تاریخی جھرونکوں میںجھانکنے کی چنداں ضرورت نہیں ، صرف اتنا کریں کہ آج کے شاکر شجاع آبادی کو پڑھ لیں آپ کو پوری حقیقت سمجھ آ جائے گی کہ اس دھرتی نے کیسے کیسے سپوت پیدا کئے۔ خطے کی زمین کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کو بھی اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا ہے ، اس زبان کی نرمی ، ملائمت اور لطافت اپنی مثال آپ ہے ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بقول حرف کی حلاوت ، بیان کی چاشنی اور شعر کی غنائیت نے سرائیکی زبان کو دنیا کی میٹھی ، منفرد اور ممتاز زبان بنا دیا ہے۔ سرائیکی پیار ، محبت ، امن اور شانتی کے رچائو میں رَچی ہوئی ایسی مٹی ہے جہاں محبت و اُلفت اور امن و دوستی کے پیڑ اُگتے ہیں اور ان پیڑوں کی شاخوں پر یادوں کے ایسے حسین پھول کھلتے ہیں جن کی دلکش خوشبو کبھی بابا فریدؒ کے دوہے ، کبھی سلطان باہوؒ کے بیت ، کبھی خواجہ فرید ؒ کی کافی اور کبھی شاکر شجاع آبادی کے دوہڑے کی شکل میں ہماری سانسوں کو مہکا دیتی ہے ، اس مہک اور خوشبو سے وسیب میں بسنے والے سرائیکی سندھی ، پنجابی ، بلوچ پشتون اور دوسری زبانیں بولنے والے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ، بلاشبہ دھرتی ماں ہے اور اس کی گود میں پلنے والے سب اس کے بیٹے ، لہٰذا تمام بیٹوں کیلئے ماں کی محبت اور سخاوت برابر ہے ۔ ہاں! البتہ سرائیکی ماں دھرتی کا کوئی کم عقل بیٹا اگر سرائیکی ماں دھرتی کوماں نہیں سمجھ رہا اور ماں بولی سے پیار نہیں کر رہا تو کوئی بات نہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوتیلی مائوں کا سلوک اسے ایک نہ ایک دن ماں دھرتی کا فرمانبردار بیٹا بنا دے گا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ماں دھرتی نے ہمیں ایسے ایسے سپوت دئیے ہیں کہ جن پر جتنا ناز کریں کم ہے ، حریت کے حوالے سے احمد خان کھرل ، مولانا عبید اللہ سندھی ، اسلم خان ملغانی ، خواجہ فریدؒ اور نواب مظفر خان شہید ، ایسے سینکڑوں نام ہیں جن پر تاریخ انسانی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔عظیم اسلامی سلطنت ملتان کے فرمانبردار نواب مظفر خان شہید کا نام آئے تو سر احترام سے جھک جاتا ہے ، نواب مظفر خان شہید نے 2جون 1818ء کو قلعہ ملتان کا پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کی فوجوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرکے قوم کا سر ہمیشہ کیلئے فخر سے بلند کر دیا ہے ، نواب مظفر خان شہید نے ایک ایک کرکے اپنے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ماں دھرتی پر قربان کردی مگر حملہ آوروں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے ، تقریباً دو صدی بعد جغرافیے پر قبضے کے بعد ثقافت پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہے ، وہ انسان اور انسانیت سے پیار کرتا ہے ، وہ نہ اشتراکی ہے نہ سامراجی ، وہ دنیا میں پائی جانے والی نابرابری ، جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کرتا ہے وہ اعلیٰ سوچ کا ایک نامور شاعر ہے ، نہایت سادہ اور عام لفظوں میں بات کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ دلوں میں اُتر جاتی ہے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر میں اپنی تحریر میں شاکر کی شاعری کے حوالے اس لئے شامل نہیں کر رہا کہ اس کی شاعری ہوا اور خوشبو کی طرح ایک ایسے لطیف جذبے کا نام ہے جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر گرفت نہیں کر سکتے۔بلاشبہ شاکر شجاع آبادی ہمارے نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ، وہ جب پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے میںہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر