دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تشدد کی تازہ لہرکے محرکات … (1)||اسلم اعوان

20دسمبر کو درجنوں عسکریت پسندوں پہ مشتمل مسلح جھتے نے جنوبی وزیرستان کے سٹی پولیس اسٹیشن پہ راکٹ لانچرز اور ہیوی مشین گنز سے دھاوا بول کر تھانے میں موجود عملے کو سرنڈر کرا لینے کے بعد گاڑیاں اور ایمونیشن لوٹ لیا۔ 17دسمبر کی شب لکی مروت کے درگئی پولیس سٹیشن پہ دہشت گردوں کے حملے میں اے ایس آئی سمیت چار پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنوں میں سی ٹی ڈی کے حراستی مرکز پہ دہشت گردوں کے حملے کی بازگشت ابھی فضا میں تحلیل نہیں ہوئی تھی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں پہ خود کش حملے نے ملک کی نفسیاتی فضا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض مسلح عسکری تنظیموں نے ریاستی اداروں کے خلاف ایسی غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ دی جس کی مہیب لہریں ہمارے سیاسی‘ معاشی اور سماجی مفادات کو زک پہنچانے کے علاوہ جنوبی ایشیا کی ابھرتی معیشتوں کی نشو ونما میں خلل ڈالنے کا ٹول بننے والی ہیں۔ چند روز قبل عسکریت پسندوں کے فدائی گروہ نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں سی ٹی ڈی پولیس کے تفتیشی مرکز پر حملہ کرکے افسران کو دو دن تک یرغمال بنا کر عین اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی جب آئی ایم ایف کی ٹیم ہماری سیاسی اشرافیہ کو سیاسی استحکام کے فوائد و مضمرات بارے سبق پڑھا رہی تھی تاہم ایس ایس جی کی ضرار بٹالین نے انتہائی مہارت سے کارروائی کرکے یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرانے کے علاوہ 25 عسکریت پسندوں کو مار ڈالا۔ آپریشن میں ایس ایس جی کے دو کمانڈو بھی کام آئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کا تعلق لکی مروت‘ بنوںاور شمالی وزیرستان سے تھا۔ رواں سال ملک میں پہلا حملہ 20 جنوری کو لاہور کے انارکلی بازار میں ہوا جس میں تین افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے۔ اس حملہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی تاہم پولیس اور سکیورٹی فورسز پہ زیادہ تر حملے افغانستان سے ملحقہ بارڈر ایریا میں ہوئے جہاں تاحال ہماری مملکت مغربی اشرافیہ کی طرف سے اس خطے میں بیس برسوں تک لڑی جانے والی تاریخ کی اُس طویل ترین جنگ کے مضمرات سے نبردآزما ہے‘ جس کے ظاہری مقاصد تو امن و جمہوریت کے نعروں میں گونجتے رہے لیکن اسی جنگ کی بدولت جنوبی ایشیا میں جمہوری آزادیاں محدود اور امن و امان کی صورت حال مزید دگرگوں ہوتی گئی۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ امریکی اپنی غیرمعمولی شکست کی خفت مٹانے کی خاطر پاکستان کو قربانی کا بکرے بنانے کے علاوہ افغانوں کی سیاسی ثقافت کو مغربی تہذیب کے پیوند لگانے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اپنی متعین پالیسی کے ذریعے افغانوں اور ہمسایہ ممالک کے لیے کھیل کے قواعد بدلنا چاہتی ہے۔ پہلے امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اسلام آباد کو شامل نہ کرکے پاکستانیوں اور افغانوں میں تفریق کے بیج بونے کی کوشش کر ڈالی۔ اب وہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی مبینہ فعالیت سے خوفزدہ کرکے افغانستان کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ ہمارے مغربی بارڈ پہ گاہے گاہے بھڑکنے والے تشدد کے واقعات اور فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپیں انہی عالمی سازشوں کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ تقدیرکی ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکیوں نے خود تو دوحہ میں طالبان کی اماراتِ اسلامی کو تسلیم کرکے ان سے عالمی سطح کا معاہدہ کرنے میں عار محسوس نہیں کی لیکن اب وہ دنیا پہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ طالبان کو اماراتِ اسلامی کے قیام سے روکا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ افغانوں کو ایک بار پھر باہمی جنگ و جدل کی آگ میں جھونکنے کے لیے مبینہ طور پر پاک افغان بارڈر کے اطراف میں داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری سے بھی باز نہیں آتے۔ روسی میڈیا نے خبر دی تھی کہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کے کئی پُراسرارگروپ سر اٹھا رہے ہیں۔ لگتا ہے عالمی طاقتیں لیبیا کی طرح یہاں بھی قیام امن کی آڑ میں داخلی تقسیم کی ایسی مستقل لکیریں کھینچنا چاہتی ہیں جو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگی کے علاوہ بالآخر جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو مفلوج کرنے پہ منتج ہوں گی۔ چنانچہ دہشت گردی کی حالیہ لہروں کے اسباب و محرکات کے پس منظر میں عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیاں خارج از امکان نہیں ہوں گی۔ حیران کن طور پہ تشدد کی تازہ ترین لہر میں معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی پولیس فورس کو ہدف بنانا اس امر کا غماز ہے کہ دشمن قوتیں ہمارے اُس معاشرتی نظم و ضبط کو منہدم کرنا چاہتی ہیں‘ جس نے گورننس کی ناکامیوں کے باوجود مملکت کا سنبھال رکھا ہے۔
20دسمبر کو درجنوں عسکریت پسندوں پہ مشتمل مسلح جھتے نے جنوبی وزیرستان کے سٹی پولیس اسٹیشن پہ راکٹ لانچرز اور ہیوی مشین گنز سے دھاوا بول کر تھانے میں موجود عملے کو سرنڈر کرا لینے کے بعد گاڑیاں اور ایمونیشن لوٹ لیا۔ 17دسمبر کی شب لکی مروت کے درگئی پولیس سٹیشن پہ دہشت گردوں کے حملے میں اے ایس آئی سمیت چار پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ قبل ازیں 16نومبرکو بھی لکی مروت پولیس موبائل پہ موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کے اچانک حملہ میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت چھ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ دہشت گردی کی اِن تمام کارروائیوں کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کرتے ہوئے ملک کے طول و ارض میں مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔ اسی سال صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں چیک پوسٹوں‘ پولیس کی گشتی پارٹیوں اور پولیو ویکسینیٹروں کی حفاظت پہ مامور 22 پولیس اہلکاروں کو گھات لگا کر شہید کر دیا گیا‘ جن میں انسپکٹر کی سطح کے افسران بھی شامل تھے۔14دسمبر کو شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں خودکش بمبار نے دھماکہ کرکے تین افراد کو شہید اور پانچ کو زخمی کر دیا۔ ایک تھنک ٹینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق‘ 15 اگست 2021ء سے 14 اگست 2022ء تک پولیس اور سکیورٹی فورسز پہ 250 حملوں ہوئے جن میں مجموعی طور 433افراد شہید اور 719زخمی ہوئے۔ اس تھنک ٹینک کے پانچویں شمارے میں شائع ہونے والے تجزیاتی مقالوں کا فوکس بھی شاید ہماری افغان پالیسی اور مفاہمتی شعور کے افق کو زیادہ وسیع کرنے کی نصیحتوں پہ محمول تھا‘ جنہیں سمجھنے کے لیے خود متذکرہ ادارے کے پس منظر میں جھانکنا پڑے گا۔ تھنک ٹینک نے طالبان کی فتح پر خوشی منانے والوں کی ”پشمانی‘‘ کی توضیح کی خاطر طالبان کی غیرروایتی حکمرانی کے نتیجے میں ابھرنے والے سکیورٹی خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے‘ پاکستان کے لیے ایک اور آزمائش یعنی دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا کرنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی تراشیدہ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ طالبان کی عبوری حکومت افغان سرزمین پر غیرملکی دہشت گردوں کی افزائش اور نقل و حمل کو محدود کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں مقیم غیر ملکی دہشت گرد گروپ طالبان کی فتح کو وسطی اور جنوبی ایشیا میں اپنے اثرو رسوخ کو اجاگر کرنے کی مہم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہی پراگندہ مہمات استعماری قوتوں کے خلاف خودمختاری کی جنگ لڑنے والی مظلوم قوموں کا مورال بلند اور غاصب قوتوں کا ڈیٹرنٹ کند ہو جانے کا تاثر قائم کرتی ہیں۔ رپورٹ میں افغانستان میں دہشت گردوں کی فعال موجودگی کے ساتھ اہم دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ‘ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان‘ ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ‘ تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ خراسان جیسی خطرناک تنظیموں کی نشاندہی ملتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا عسکری تنظیموں کی پراسرار افزائش کی شروعات 2012ء میں اس وقت ہوئی جب اباما انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اماراتِ اسلامی کی متوازی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ سرکاری دفتر کھولنے کی منظوری دے کر اشراف غنی کی منتخب حکومت کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان سے امریکی انخلا کے نتیجہ میں مملکت پر طالبانی غلبہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں 51 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی اُس افغان پالیسی کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا جس کی محرکِ اول اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں تھیں جنہیں جواز بنا کر 7 اکتوبر 2001ء میں امریکہ کی قیادت میں مغرب کی مہذب اقوام نے افغانستان جیسے غریب ملک پہ آتش و آہن کی بارش کرنے کے بعد اِس بدقسمت قوم کے مقدر پر مستقل قبضہ جما لیا تھا جس کے خلاف افغانوں نے دلیرانہ انداز میں بیس سال تک آزادی کی جنگ لڑی جسے عالمی برادری نے ”دہشت گردی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے نہایت سفاکی سے کچلنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ بالکل ایسے جیسے فلسطینیوں کی پچھتر برسوں پہ محیط آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کے لبادے پہنا کر لاکھوں مظلوم انسانوں کو اپنے ہی وطن میں غریب الدیار بنا کر اسرائیل آج تک نہتے شہریوں‘ معصوم بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں‘ صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا جواز حاصل کرتا ہے۔ (جاری)

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author