دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی تاریخ کی المناک شہادت….….|| بشیر نیچاری

بشیر نیچاری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی وسماجی کارکن ہیں، سیاسی سماجی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مختلف جرائد ورسائل میں لکھتے بھی رہتے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

بشیر نیچاری

@BashirNichari
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی سیاست عسکریت پسندی مذہبی جنونیت اور اقتدار کی ہوس سے آلودہ ہے برصغیر پاک وہند کی سیاست کو مذہبی جنونیت عسکریت نے شدید نقصانات سے دوچار کیا ہے اس عسکریت پسندی اور جنونیت کی ہاتھوں خطے کی عظیم رہنماوں کی شہادتیں واقع ہوئے دنیا بھر میں مقبول سیاست دانوں کی فہرست تیار کی جائے تو بھٹو خاندان اس فہرست میں سب سے زیادہ نمایاں رہیں گے بینظیر بھٹو کا نام دنیائے سیاست میں ایک ممتاز اور اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ سیاسی شخصیات کا الگ الگ مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ وہ اپنے لیے ایک الگ فہرست بنانے کی مستحق ہیں اور یہاں تک کہ بینظیر بھٹو اپنی نام کی طرح بے نظیر ہیں اور اس کی نظیر ہمیں عالمی سیاست میں کہیں نہیں ملتی. بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ان کی شاندار اور دلکش شخصیت نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ ذہین اور پرکشش نوجوان لڑکی جو ہر قدم پر آگے آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات سے بخوبی واقف تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف تھی کہ اس نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا اس میں جان کی بازی لگانی ہے۔ ان کے خاندان کا شمار ملک کے خوشحال ترین خاندانوں میں ہوتا تھا ان کے دادا مسٹر شاہنواز بھٹو نے ریاست جوناگڑھ کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت کی تھی اور ان کے والد ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم بنے تھے اس سے پہلے وزیر تجارت کے طور پر کام کیا تھا اور بعد میں بحیثت وزیر خارجہ اہم کارنامے سرانجام دئیے تھے بھی تھا بچپن اور نوجوانی میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ سب کچھ دیکھی۔ اس نے نہایت لگن سے ملکی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم مکمل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران اس کا مقصد ایک سفارت کار کے طور پر اپنے کیریئر اور عملی زندگی کا آغاز کرنا تھا اور اس وقت ان کا سیاست میں آنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، جون 1977 میں وطن واپسی کے صرف دو ہفتے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ عزم و ہمت اور بہادری کی مثال شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے دوران لاتعداد مصائب اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا جس میں ان کے والد بھائیوں کے شہادت کی پراسرار دردناک صدمے بھی شامل ہیں جو ان کی زندگی کی سمت بدلنے کے لیے اہم ثابت ہوئے۔ والد کی شہادت کے بعد ایک نہتی لڑکی کا صبر ہمت حوصلہ دیدنی تھا اس نے مشکل وقت میں اپنی والدہ کے ساتھ مل کر جیالوں کو سنبھالا مشکلات کا جوانمردی سے مقابلہ کر کے تاریک رات میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی زندگی میں 5 جولائی 1977 سے 27 دسمبر 2007 تک مسلسل وہ عوامی حقوق کی جنگ میں آمروں وقت کی یزیدوں سے لڑتے ہوئے میدان میں شہادت نوش کی بینظیر کی زندگی کا ہر پہلو جدوجہد کی علامت ہے وہ اپنی خوشیاں ملک وقوم پر لٹائے اور بے حساب مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کھبی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھی اس نے طے کردہ منزل کی جانب سفر جاری رکھی۔ وہ جیلوں اور عدالتوں بدترین آمریتوں سے لڑتے رہے قیدوبند کی صوبتیں برداشت کرنا ایک نازک پھول جیسی نوجوان لڑکی کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتی انھوں نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی اسکی زندگی ہر سیاسی کارکن کے لیے طلوع آفتاب کی روشنی سے عبارت ہے سکھر جیل کے بارے میں محترمہ کہتی ہیں "انتہائی گرم موسم نے اس کے سیل کو تندور میں تبدیل کردیا تھا۔ میری جلد پھٹ چکی تھی اور مجھے گرم چادروں پر ہاتھ رکھنا پڑا میرے چہرے سے پسینہ بہہ نکلا میرے بال جو بنیادی طور پر ہمیشہ کے لیے گھنے تھے گرنے لگے اور میری مٹھی میں آگئے کیڑے مکوڑے میرے ارد گرد اندھیرے کوٹھری میں گھومتے تھے جیسے کسی قابض فوج کے سپاہی مقبوضہ ریاست میں پھیل جاتے ہیں مکھیاں مچھر اور دوسرے حشرات الارض چھت سے گر کر مجھے ڈنک مارتے تھے جس سے بچنے کے لیے میں خیمے کی چادر سے سر ڈھانپ کر راتیں جاگ کر گزارتا تھا اور جب اس چادر کے نیچے سانس لینے میں دقت ہو جاتی تھی تو دل دہل جاتا تھا اور جب میں نے اسے اپنے چہرے سے ہٹایا تو کیڑے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھے یہ سطریں ان کی اپنی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ سے لی گئی ہیں وہ قید کے ان دنوں کو اپنی زندگی کے بدترین دنوں کے طور پر یاد کرتی تھی۔ 1984 میں جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے کان کا انفیکشن شدید حد تک بڑھ گیا تو انہیں علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی گئی۔ ان دنوں 1984 سے 1986 کے دوران ان کے بھائی شاہنواز کی اچانک اور پراسرار موت ان کے لیے ایک صدمہ تھی جس پر وہ بمشکل چند دنوں کے لیے ان کی تدفین کے لیے پاکستان آئیں۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور اسی سال دسمبر کے بعد ضیاء الحق نے مارشل لاء اٹھا لیا اور بعد ازاں اپریل 1986 میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں جہاں لاہور ایئرپورٹ پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اگر ہمیں استقبال کی ایسی کوئی مثال ملتی ہے تو اس کا موازنہ 18 اکتوبر 2007 کو ان کی دوسری جلاوطنی سے واپسی کے بعد ان کے دوسرے استقبال سے کیا جاسکتا ہے۔ 1986 میں واپسی پر انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں اپنے والدہ کی ساتھ کوچیئرمین کے طور پر کام کیا اور 1988 میں انہوں نے پارٹی کی تنظیم نو کی۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں وہ عالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم بن کر دنیا کو حیران کر دیا۔ لیکن صرف 18 ماہ بعد اگست 1990 میں ان کی حکومت ایک سازش کے نتیجے میں ختم کروا دیا۔ 1993 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے اور دوسری مرتبہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں امریکی سامراج کی حانب سے انھیں ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا کہا پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں انھیں اقتدار سے علحیدہ کرنے کی دھمکی دیا گیا مگر بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے شروع کردہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے صاف انکار کیا ان کو 20 ستمبر 1996 کی آخری ڈیڈ لائن دی گئی اور ڈیڈ لائن پورے ہوتے ہی اسی دن ان کے بڑے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو ستر کلفٹن میں ان کے گھر کے سامنے ریاستی پولیس کے ہاتھوں قتل کروا کر قتل کا الزام بھی اس پر لگا دیا اور 5 نومبر 1996 کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے 58 2b کا استعمال کیا اور دوسری بار ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف لاتعداد ریفرنس دائر کیے گئے۔ عدالت پر عدم اعتماد اور ان کے اور ان کے شوہر کے خلاف ریفرنسز کی میں کینگرو کورٹس سے ناانصافی کے سبب ایک بار پھر جلاوطنی اختیار کی۔ اس کے بعد 2007 تک اس نے جلاوطنی کی زندگی گزاری اور 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کا اعلان کیا لیکن اس کے تمام ساتھیوں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ پاکستانی قوم سے بے پناہ محبت کی وجہ سے واپسی کے لیے رخت سفر باندھ لی اور بتایا کہ ان کی زندگی اور موت دونوں پاکستانی عوام کے لیے ہیں ان کی تمام خواب قوم کی ترقی ملک میں جمہوریت کی بحالی سے وابستہ ہیں۔ ان کی بہن صنم بھٹو نے انھیں خبردار کیا کہ ان کے بچے بہت چھوٹے ہیں اس لیے وہ انہیں نہ چھوڑیں۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے صرف 3 بچوں کو چھوڑ کر جا رہی ہوں لیکن پاکستان میں لاکھوں بچے میرے منتظر ہیں اور میری واپسی کی راہ دیکھ رہی ہیں لوگوں کی امیدیں مجھ سے وابستہ ہیں پھر 18 اکتوبر 2007 کو اپنے جلاوطنی کو ختم کر کے واپس وطن پہنچی تو عوامی سمندر نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے محبوب قائد دختر مشرق ذوالفقار علی بھٹو کی پنکی کا تاریخی استقبال کرکے اپنے پاکستانی قوم ہونے ثبوت دے کر پورے جہاں کو اپنے قوم ہونے کا ایک جھلک دیکھایا مگر امریکی سامراج اور سامراج کی دلال عوام کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر گھبرا گئے سامراجی قوتوں نے رات کی تاریکی میں خودکش دھماکے کر کے بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ان دھماکوں میں سینکڑوں جانثاروں نے جانیں دے کر اپنے قیادت پر قربان ہوئے سیاسی دنیا حیران تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اپنے قائد اور نظریہ کے لیے آج بھی جانیں قربان کرتے ہیں اب بھٹو کا انقلاب ادھورا نہیں رہیگا بینظیر بھٹو اپنے والد کی مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچا کر رہیگی ایسے جانثار ساتھی دنیا کی کسی سیاسی پارٹی کی لیڈر کو نصیب نہیں ہوئی جو اپنے نظریے اور قیادت کے لیے لاکھوں کہ تعداد میں نکلیں اور سینکڑوں کی تعداد میں جانیں قربان کریں۔ سامرجی قوتوں اور سامراج کی گماشتوں نے فیصلہ کیا ہر حال میں بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانا ہے اور انقلاب کو روکنا ہے مگر دوسرے طرف شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے عزم کی تھی کہ آمریت کا سورج غروب ہو کر رہیگا جمہوریت کی سورج کو جیالے طلوع کرکے رہیں گے محترمہ جہاں جاتی تھی تو عوام اپنے محبوب قائد کی فقیدالمثال استقبال کرتے تھے آخر کار ستائیس دسمبر دوہزار سات کو سامراجی گماشتے عوام سے انکی محبوب قائد کو چھینے میں کامیاب ہوئے شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے دہشتگردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے مقابلہ کیا جو وعدے شہید بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں کیا تھا وہ آصف علی زرداری نے ایک ایک کرکے پورے کیے آمریت کی تابوت میں آخری کیلیں ٹونک دی اپنے شریک حیات کی موت کا انتقام جمہوریت کو مکمل بحال کر کے لیا اور آمریت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر کے آمر وقت کو اقتدار سے نکال پھینکا آصف زرداری کی سیاست کی بہترین داوپیچ سے واقف تھا اپنے مخالفین بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کی روایت ڈال کر بینظیر بھٹو کی جانشین ہونے کا مکمل ثبوت دیا بینظیر کی شہادت پر پورے ملک میں ریاست کے خلاف ایک غم وغصہ تھا ریاست ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا ملک دشمن آصف زرداری سے امید لگا بیٹھے تھے کہ وہ محترمہ کی شہادت کے غم وغصے میں بغاوت کر کے پاکستان کو توڑ دیں گے مگر دشمنوں کے امیدوں کو آصف زرداری نے پاکستان کھپے جا نعرہ لگا کر خاک میں ملا دیا آصف زرداری کی سیاسی بصیرت نے دنیا کو حیران کر دیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو زندہ بھی بینظیر تھی اور انکی شہادت بھی بینظیر ہے وہ عوامی حقوق کی جدوجہد میں عوام کی درمیان شہید ہوئے آج ان کے فرزند چیرمین بلاول بھٹو کی روپ میں ایک اور ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ کی منصب سنبھال کر دنیا بھر میں کامیابی کی جھنڈے گاڑ رہا ہے دنیا بھر کے مظلوم طبقہ جو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہے آج بلاول بھٹو اس مظلوم طبقے کی نماہندگی کرکے سرمایہ داری کے مظالم کو دنیا بھر میں بے نقاب کر دیا ہے بھٹو خاندان وفاداری اور جدوجہد کا علمبردا ہے۔ آج بلاول بھٹو عوامی امیدوں کا مرکز نگاہ ہیں انکی والدہ عوام کی مقبولیت ترین لیڈر تھیں محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان میں انقلاب کی علامت بن چکی تھی وہ بےروزگار نوجوانوں کی خوابوں کی تعبیر بنی تھی خوف ذدہ آمر وقت پرویز مشرف نے جمہوریت کی سورج کو طلوع ہوتے اور اپنے اقتدار کے خاتمے کو یقینی دیکھ کر مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں امریکی سامراج کا گماشتہ بن کر بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ بینظیر عوام کی لیڈر تھی اور عوام کی درمیان شہادت نوش کی بینظیر کی شہادت دنیا کی سیاسی تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے وہ شہادت کی منصب تک پہنچنے سے پہلے عوام کو جمہوریت کا منزل دیکھا چکے تھے۔ شہادت بھٹو خاندان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ایک عظیم لیڈر کی عظیم بیٹی نے اپنے مرحوم والد کے مشن کو جاری رکھا۔

بنیظیر بھٹو ایک روشن خیال لیڈر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ انہوں نے سیاست کی تعلیم اپنے والد مرحوم قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو سے حاصل کی تھی۔ وہ ایک مثالی سیاسی کردار کی حامل تھیں اور ملک کے لیے ان کی خدمات کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بارہا ملک سے جلاوطن ہو چکی تھیں اور انھیں جلاوطنی میں ہر قسم کی سہولتیں اور آسائشیں میسر تھیں وہ ایک شہزادی کی طرح پیدا ہوئی تھی اگر وہ چاہتی تو اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ پرتعیش زندگی گزار سکتی تھی۔ مگر اس نے اپنی زندگی عوام کے لیے وقف کردی تھی عالمی دنیا مشرق کی اس عظیم بیٹی کو سننا چاہتی تھی انھیں ایک لیکچر کے لیے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے تھے اور اس طرح کے سیاسی لیکچرز کے لیے ان کے لیے دنیا بھر میں لامحدود پیشکشیں تھیں۔ انہوں نے قائداعظم کے بہترین ساتھی مسٹر افزئی کی بیٹی فرح سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ یہاں میری طلب، دلکشی اور مقبولیت کی گواہی دیں اگر میں سیاست کو چھوڑ کر پرتعیش زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں اور میں اپنے شوہر بچوں کو یہاں بلاتی ہوں تو ہم یہاں ایک پرکشش خاندانی زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن مجھے یہ سب چیزیں پسند نہیں ہیں، مجھے اپنے ملک اور عوام سے بےحد پیار ہے عوامی جدوجہد کو میں اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ مجھے اپنی فرائض انجام دینے کے لیے واپس اپنا ملک جانا پڑیگا اور میرے لوگ وہاں میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ عوام دشمن قوتیں مجھے کبھی زندہ نہیں رہنے دیں گی لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے قاتل آرام نہیں کریں گے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاست میں کئی تبدیلیاں لانے کی پوری کوشش کی وہ بہت بہادر تھیں انہوں نے پاکستان میں بہادری سے جدوجہد کی انہوں نے ہمیشہ خواتین کا ساتھ دیا۔ بچیوں کے ساتھ اس کا ہمیشہ پیار بھرا رویہ تھا۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں رہیں۔ وہ عوام کی قربت سے لطف اندوز ہوئیں انہیں حقیقی عوامی لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی میں جلسہ نہ کرنے کے لیے انھیں بار بار تنبیہ کیا گیا اور انھیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ نڈر باپ کی دلیر بیٹی تھی اس نے کھبی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ایک بار اس نے کہا کہ آپ کسی شخص کو جلاوطن کر سکتے ہیں لیکن نظریے کو نہیں اور اسی طرح آپ کسی فرد کو قتل کر سکتے ہیں نظریے کو نہیں۔ ایک بار والٹر نے کہا تھا کہ تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات جنم لیتی ہیں جن کی لمبی عمر ہوتی ہے ان کے چاہنے والے قبول کرتے ہیں اور وہ مخالف گروہوں کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوتے ہیں بے نظیر اسی قسم کی شخصیت ہیں ڈیفنس ہاؤسنگ میں اپنے ساتھیوں سے گفتگو کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات کا سامنا ہے میں جانتی ہوں کہ جمہوریت دشمن قوتیں مجھے جمہوریت اور عوام سے دور رکھنے کی کوشش کریں گی لیکن میں ان سے بالکل نہیں ڈرتی۔ میں اپنے حامیوں، ووٹروں، اپنے لوگوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی۔ اگر میں ان سب کو چھوڑ دوں تو میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے سے انکاری ہو جاونگی میرا جینا مرنا پاکستان کے عوام کے ساتھ ہیں میرے والد نے بہادری سے موت کو گلے لگایا تھا پھر میں ایسا کرنے سے کیسے انکار کر سکتی ہوں۔ پھر عالم جہاں نے دیکھا عظیم باپ کی بیٹی نے کیسے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کو گلے لگایا۔ جس مقام پر انھیں قتل کیا گیا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر پاکستان کی پہلی وزیر اعظم کو بھی کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ وہ مقام یہاں سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے وہ جیل جہاں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ دار پر چڑھایا گیا تھا وہ اسی پنڈی شہر میں واقعہ ہے پنڈی سے تین لاشیں پاکستان کو ملیں اور تینوں ملک کے وزیراعظم جمیوریت کی شمع روشن کرنے والے عوام کی مقبول رہنماء تھے۔ سچائی کا تقاضا ہے کہ آج ان کی برسی مناتے ہوئے ہم ان کی خدمات اور اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ وہ ایک عظیم رہبر تھیں۔ بنیظر بھٹو پاکستان کو جوڑنے والی زنجیر تھیں ان کی شہادت مادر وطن پاکستان کی روح کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور ایک گھناؤنا جرم ہے جس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کتنی عظیم رہنما تھیں آج اس کی پندرویں برسی پر پورا قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی ہے خنجراب سے لے کر جیونی تک ان کی برسی کو نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ منا کر اپنے محبوب قائد کو یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

بشیر نیچاری کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author