دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم بھی، تم بھی! ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بھئی میں نے تو دونوں بار غیر سید سے کی، پسند سے کی اور پنجابی میں کہتے ہیں نا گج وج کے کی۔ پہلے صاحب کو اوپر جانے کی بہت جلدی تھی سو جھٹ پٹ چل دیے۔ انہوں نے اس قدر محبت کی کہ میں نے سوچا ارے شادی سے اچھا تو رشتہ ہی کوئی نہیں۔ سو دوسری کر لی اور دوسرے صاحب محبت میں کسی طور پہلے سے کم نہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 کیا کہیں اسے؟ یار غار؟ نصف صدی بعد ملنے والی جڑواں؟ وقت ہم دونوں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا مگر رہے جدا جدا، ہم اور ہما کوکب بخاری۔

پلوں کے نیچے سے گزرنے والا پانی کیسے گزرا؟ دیکھا نہیں ہم نے مگر سمجھتے دونوں ہیں کہ پانیوں کا ریلا منہ زور تھا۔ نصف صدی گزر گئی۔ سو اس وقت کی کہانیاں کیوں نہ ایک دوسرے کو سنائیں؟ دلوں پر رقم سب لمحے، آنکھوں میں منجمد ماہ و سال کیوں نہ پگھلا کر دکھائیں ایک دوجے کو، اپنے اپنے مدار کے سفر کا ذکر۔ سو جب بھی ملیں، ان تمام لمحوں کا نقاب اتر جاتا ہے آپ ہی آپ۔

کیا اسی کی دہائی کے وسط میں تم لاہور میں تھیں؟
ہاں، تھی۔
اچھا، میں بھی وہیں تھی۔
نوے کی دہائی میں کیا تم پنڈی میں تھیں؟
ہاں۔
میں بھی۔
دو ہزار کے بعد کہاں تھیں تم؟
پنڈی۔
میں اسلام آباد۔
اسی کی دہائی کے آخر میں لاہور ٹی وی کے پروگرام جہاں نما میں میں نے شرکت کی۔
میں بھی گئی تھی جہاں نما دو بار۔
میں تین بار۔
ہاہاہا۔
ہی ہی ہی۔
کتابی کیڑا تھی میں۔
میں بھی۔
اسی کی دہائی کے آخر میں خواتین ڈائجسٹ میں میں نے لکھا۔
اور میں نے پڑھا۔
مقررہ تھی میں۔
میں بھی۔
بحث کرنے کی میں شوقین۔
ہار میں نے بھی کبھی نہیں مانی۔
میرے ابا فوجی۔
میرے نیم فوجی۔
ہم لوگ چھ بہن بھائی۔
ہم بھی۔
تین بہنیں، تین بھائی۔
ہم بھی۔
میں بہنوں میں منجھلی۔
ارے واہ میں بھی۔
سید خاندان ہمارا۔
ہمارا بھی۔
ہم پنجابی۔
ہم بھی۔
میں وکیل۔
میں ڈاکٹر۔
ہائے اللہ رہ کیا گیا؟ ہماری حیرانی۔
بتاتی ہوں۔ وہ ہنس کر کہتی ہے۔
کتنی شادیاں کیں تم نے؟
ایک۔
کب؟
پچیس کی عمر میں۔
محبت ہوئی یا ماں باپ نے کروائی؟
ماں باپ نے۔
بی بی مات کھا گئیں نا جڑواں سے۔
وہ کیسے؟
میری دو۔ وہ ہنس کر کہتی ہے۔
پہلی چالیس پہ۔ دوسری اڑتالیس پہ۔ دونوں بار محبت کی شادی۔
گرو ہیں جی آپ گرو۔
ہم ہاتھ جوڑ دیتے ہیں اور دونوں زور زور سے ہنستے ہیں۔
ویسے تم نے محبت کی شادی کیوں نہیں کی؟ وہ پوچھتی ہے۔
یار کسی نے پسند ہی نہیں کیا۔ ہم منہ بسور کر کہتے ہیں
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہوا۔ بالکل ایسے ہی ہوا؟
مگر کیوں؟
پتہ نہیں۔
اور تمہیں کوئی پسند آیا؟
نہیں، کوئی نہیں۔
کیوں؟
پتہ نہیں۔
اچھا سید ذات میں شادی کرنے کا ٹیبو کیوں نہیں توڑا؟
وجہ تھی ایک، اس لیے کسی کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں۔
وہ کیا؟

پہلے یہ جان لو کہ گھر میں امی سے سید غیر سید پہ خوب بحث ہوتی تھی۔ بھائیوں کو پورا شک تھا کہ کوئی گل کھلائیں گے ہم۔ آپا بھی فکرمند رہتی تھیں اور اپنے نجیب الطرفین شوہر کے ممکنہ اعتراضات پر اس قدر خوفزدہ تھیں کہ کوئی گیلانی سید وغیرہ ہوتا تو دروازے سے ہی واپس کر دیتیں، دہلیز پہ قدم رکھنے کا موقع ہی نہ دیتیں۔

وجہ؟
بھئی ان کی نظر میں گیلانی سچے، اصلی کھرے سید نہیں تھے۔ دیسی گھی کی طرح خالص، ہاہاہا۔

خوب ہنسی آتی، دل چاہتا کہ سب کچھ توڑ دوں۔ لیکن ایک شبیہ سامنے آ جاتی۔ منحنی سا کم گو شخص، اپنے آپ میں گم، بیٹیوں کو بیٹوں پہ ترجیح دینے والا، بیٹیوں کی تعلیم پہ کسی کی بات نہ سننے والا، بیٹی کی سرگرمیوں پہ وڈھا آیا حاجی نمازی کا طعنہ برداشت کرنے والا۔

کیسے مزید بوجھ ڈالا جاتا محبت کے اس تاج محل پر؟
کیسے نشانہ بننے دیتے انہیں ہم زہر آلود فقروں اور انگارے اگلتی زبانوں کا؟

ان سے اس قدر محبت تھی ہمیں کہ اوائل عمری میں طے کر لیا کہ آنکھ ہی اس طرف نہیں اٹھانی جو ہمارا دل بے ایمان کر دے۔

ہوسٹل میں رہتے ہوئے بے شمار مواقع آئے لیکن ہم سب کے لیے اجنبی ہی رہے۔ ہماری کچھ سہلیاں اکثر مذاق کرتے ہوئے کہتیں اب ہم جہاں بھی جائیں گے، تمہارا پورا نام اونچی آواز میں پکاریں گے، کاظمی، کاظمی۔ تاکہ کوئی سید صاحب موجود ہوں تو متوجہ ہو جائیں۔

اس تردد کی ضرورت کیا ہے؟ ارے ہم ایسے ہی خوش ہیں۔ ہم کندھے اچکا دیتے۔

خیر جن سید صاحب نے آنا تھا وہ نہ سہلیوں کی پکار پر آئے اور نہ ہی اماں ابا نے تردد کیا۔ لاہور ٹی وی پہ ہمارے کمپئرنگ کے پروگرام نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ دیکھنے والے کاظمی نام دیکھ کر چونکے اور سر جوڑے سوچنے لگے کہ پروگرام تو لاہور کا ہے، کیا لاہوری کنوؤں میں بانس ڈلوائیں؟ یہاں بھی ایک شناسا کام آ گئے جنہوں نے نام سنتے ہی کہا، وہ لڑکی؟ جو ابھی ڈاکٹر بنی ہے، اور ٹی وی میں پروگرام کرتی ہے۔ ہاں ہاں ابھی ہاؤس جاب کر رہی ہے، ارے اس کے ماں باپ تو یہیں رہتے ہیں، فلاں محلے میں۔ بھلے مانس لوگ ہیں۔ لیجیے جناب اگلے دن ہی دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔

ہم لاہور، سید صاحب کوئٹہ، دونوں کے ماں باپ پنڈی۔

موبائل ندارد، فاصلے بہت، نتیجہ کیا نکلا کہ دونوں کی پہلی بات رو بہ رو شب زفاف ہی ہوئی۔ مرتے کیا نہ کرتے، دونوں کے گلے میں ڈھول بندھ گیا تھا، صبر شکر کا کلمہ پڑھا اور ایک دوسرے کو قبول کر لیا۔

اف تم نے تو میری ناک کٹوا دی، میری جڑواں اور اتنی بورنگ شادی۔
ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے ہما کہتی ہیں۔

ہاں بورنگ تو بہت تھی۔ شادی سے پہلے نہ کوئی منگنی، نہ ہیرے کی انگوٹھی نہ چمچماتا جوڑا۔ بات طے کرنے پہ بڑی نند ایک لال رنگ کا ملگجا سا دوپٹہ لائیں، ساس نے ہزار روپیہ ہتھیلی پہ رکھا۔ چلو جی بات طے۔ بعد میں وہ دوپٹہ بھی مانگے کا نکلا، نند کی اپنی شادی کا تھا بکسے سے نکال کر لائیں اور واپسی پر لے بھی گئیں۔ شاید مانگے کے دوپٹے سے ہی اتنی چڑ ہوئی دوپٹے سے۔ لو جی بھاڑ میں جائے ایسا دوپٹہ جو مانگ کر پہننا پڑے وہ بھی ایک نئی زندگی کے آغاز میں۔

خوب ہوا ویسے یہ بھی، ہما زور زور سے ہنستی ہے، ارے بھئی میں نے تو ہر چیز مرضی کی لی، خوب ناز اٹھوائے۔ تم تو بہت پھسڈی نکلیں۔

بس کیا کہوں؟ ہوا تو خوب، سزا ملی نا پھسڈی پن کی۔ اب چاہے ہزاروں لاکھوں کا جوڑا خرید کر پہنوں، وہ ملگجا سا دوپٹہ ضرور یاد آ جاتا ہے۔

ناز اٹھوانے کی تو باری ہی نہیں آئی کیونکہ شادی کے موقع پر کارگزاری اس سے بھی بڑھ گئی۔
وہ کیا؟

انہوں نے سوچا کہ ان کی اماں اپنے بکسے میں پاکستان بننے کے بعد سے جو کپڑے جمع کر رہی تھیں ان کو کسی مصرف میں لایا جائے۔ چھوٹے عزیز از جان بھائی کی دلہن کو اس سے بہتر کیا تحفہ دیا جا سکتا تھا سو وہ سب ایک اٹیچی میں بند کر کے ہمارے کمرے میں رکھوا دیے گئے۔ ہماری آپا انہیں کہہ چکی تھیں کہ آپ بری کے کپڑے دکھانے کے لئے مت لائیے گا، ہماری بہن کو اچھا نہیں لگتا یہ رواج۔ چلو جی، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، وہ جو تھوڑا بہت لحاظ تھا کہ لوگوں کو کیا دکھائیں گے اس سے بھی جان چھوٹی۔ شادی کے بعد ہم نے جس اشتیاق سے اٹیچی کھولا، وہ دو سیکنڈ نہیں نہیں شاید ایک سیکنڈ میں ٹھنڈا ہوا اور اسے ایسے بند کیا جیسے موذی سانپ نکلنے والا ہو۔ مزید دید کی تاب کہاں تھی بھلا؟

اف توبہ توبہ۔ ہما ماتھے پہ ہاتھ مارتی ہے۔

بھئی میں نے تو دونوں بار غیر سید سے کی، پسند سے کی اور پنجابی میں کہتے ہیں نا گج وج کے کی۔ پہلے صاحب کو اوپر جانے کی بہت جلدی تھی سو جھٹ پٹ چل دیے۔ انہوں نے اس قدر محبت کی کہ میں نے سوچا ارے شادی سے اچھا تو رشتہ ہی کوئی نہیں۔ سو دوسری کر لی اور دوسرے صاحب محبت میں کسی طور پہلے سے کم نہیں۔

سو زندگی مزے میں ہے میری۔
میری بھی۔
نصف صدی گزار کر ملنے والی دونوں عورتیں باتیں کرتی ہیں اور خوب ہنستی ہیں۔
ہما کوکب بخاری، سالگرہ مبارک!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author