دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رندان قدح خوار پھر جیت گئے|| وجاہت مسعود

کسی قوم کی سیاست کی حقیقی بنیاد اس کی معیشت ہے۔ معاشی حکمت عملی سے عاری سیاست محض نعرے بازی، الزام تراشی، سازش، بدعنوانی اور مسلسل اجتماعی انحطاط کا نسخہ ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے ملک میں آزادی کے بعد پون صدی میں معیشت کو کبھی ترجیح نہیں بنایا۔ بابائے قوم نے قطعی مختلف تناظر میں نئے ملک کو ’تجربہ گاہ‘ بنانے کی بات کی تھی۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر کے آخری دن آن لگے۔ مٹھیوں سے پھسلتی لمحوں کی ریت کے لئے زیاں کی چبھن تو اب واقعہ نہیں، طبیعت ہو چلی ہے۔ کیوں نہ ہو، ہمیں تاریخ انسانی کا ایسا زرخیز منطقہ میسر آیا جس میں دنیا نے منزلوں پر منزلیں سر کیں۔ جولائی 1969 میں چاند پر قدم رکھنا تو محض ایک استعارہ تھا جسے نیل آرمسٹرانگ نے ’فرد کا چھوٹا سا قدم اور انسانیت کی عظیم جست‘ کی آفاقیت بخش دی۔ اس سے کہیں اہم حقیقت یہ تھی کہ 1970 میں عالمی معیشت کو گویا پر لگ گئے۔ اس برس امریکا دنیا کا پہلا ملک تھا جس کی معیشت نے ایک کھرب ڈالر کی نفسیاتی حد عبور کی۔ روس دوسرے نمبر پر تھا لیکن جلد ہی جاپان سوویت یونین کو پیچھے چھوڑ گیا۔ 1990 تک آتے آتے روس پہلی دس بڑی معیشتوں کی فہرست سے باہر ہو چکا تھا جبکہ چین، برازیل اور بھارت جیسے ممالک اس درجہ بندی میں نمودار ہو رہے تھے۔ 2022 میں دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں ہر ایک کا حجم ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان دس ممالک میں سوائے چین کے ہر ملک کا سیاسی بندوبست جمہوری ہے۔ بھارت کی آبادی چین کے برابر اور معیشت کا حجم 3.1 کھرب ڈالر ہے، جمہوری بندوبست مستحکم ہے اور ترقی کی شرح نمو 8.9 فیصد ہے۔ چین کا سیاسی نظام یک جماعتی آمریت، معیشت کا حجم 17.7 کھرب ڈالر اور ترقی کی شرح نمو 8.1 فیصد ہے۔ چین کی معیشت اور سیاسی نظام میں تفاوت ہی غالباً آئندہ برسوں میں عالمی معیشت کی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کی آبادی دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، معیشت 42 ویں درجے پر ہے اور انسانی ترقی کا درجہ 192 ممالک میں 161 ہے۔

کسی قوم کی سیاست کی حقیقی بنیاد اس کی معیشت ہے۔ معاشی حکمت عملی سے عاری سیاست محض نعرے بازی، الزام تراشی، سازش، بدعنوانی اور مسلسل اجتماعی انحطاط کا نسخہ ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے ملک میں آزادی کے بعد پون صدی میں معیشت کو کبھی ترجیح نہیں بنایا۔ بابائے قوم نے قطعی مختلف تناظر میں نئے ملک کو ’تجربہ گاہ‘ بنانے کی بات کی تھی۔ ہم نے ریاست کو ذاتی اغراض کی تجربہ گاہ اور عوام کو تجرباتی جانور قرار دے دیا۔ ایک پیچیدگی البتہ یہ رہی کہ پاکستانی قوم کے جم غفیر میں سیاسی اور جمہوری خمیر کی آمیزش موجود ہے۔ کوئی بھی نانبائی آپ کو بتا سکتا ہے کہ خمیر کی مقدار نہایت کم ہوتی ہے لیکن اس کا منصب عمل انگیز ہے جو پورے منظر میں جوہری تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ پاکستان میں طاقت کے ایوانوں میں ہونے والے عشرہ در عشرہ تجربات کو سیاست، صحافت اور جمہوری دانش کے خمیر کی اسی چٹکی نے بار بار شکست دی ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ آپ کو مفتی صدرالدین خان آزردہ سے متعارف کروا دیا جائے۔
12 دسمبر 1789 ءکو پیدا ہونے والے مفتی صدر الدین خان آزردہ دہلی کے مفتی اعظم تھے اور ان کا شرعی فتویٰ حتمی سمجھا جاتا تھا۔ 1857 ءکی جنگ آزادی شروع ہوئی تو مفتی صاحب 1846 سے دہلی کے صدر الصدور چلے آ رہے تھے جو انگریزی بندوبست میں کسی مسلمان کے لئے اعلیٰ ترین ممکنہ عہدہ تھا۔ تاہم اس بطل حریت نے منصب کی پروا کیے بغیر علامہ فضل حق خیر آبادی شہید کے شانہ بشانہ 26 جولائی 1857 ءکو انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور اس پاداش میں اپنی وسیع جائیداد سے محروم ہوئے۔ مفتی صاحب کے علم اور تقویٰ میں کسے کلام تھا۔ دہلی کی تمدنی زندگی کا محور تھے۔ سرسید احمد خان کے استاد تھے مگر دلی موانست مرزا غالب سے تھی۔ مفتی صاحب کی پرہیز گاری اور غالب کی رندی کے دھارے اس دوستی کے ساگر میں آن ملتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی صاحب نے دیوان غالب پر قلم بھی لگایا تھا۔ مفتی صدرالدین آزردہ خود بھی شعر کہتے تھے ۔ آج مفتی صاحب کا ذکر دراصل ان کے ایک شعر کی بازگوئی ہی سے پیدا ہوا۔ فرماتے ہیں، ’کامل اس فرقہ زہاد میں اٹھا نہ کوئی / کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے‘۔ اوپر جس جمہوری خمیر کا ذکر آیا، ان رندان قدح خوار کی طرف ہی اشارہ مقصود تھا۔
آزادی کے بعد پہلے دس برس کا تجربہ جمہوریت کی آفت سے محفوظ رہنا تھا تاکہ بنگالی ہم وطنوں کو ان کے جائز سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ یہ خواہش پالنے والے سیاستدان اور نوکرشاہی کے کارندے بھول گئے کہ جمہوری حقوق غصب کر لئے جائیں تو پھر فیصلہ بندوق سے ہوتا ہے۔ ٹھیک دس برس بعد بندوق نے نقاب اٹھا دیا اور اپنے ساتھ بنیادی جمہوریت کا نسخہ لائی۔ اس نسخے کے ثنا خواں ممتاز مفتی، رئیس امروہوی، اشفاق احمد، ابن انشا اور قدرت اللہ شہاب تھے۔ خط تنصیف کی دوسری طرف جمہوریت پسند اہل سیاست اور دانشور تھے۔ مارچ 1969 میں بنیادی جمہوریت ڈوب گئی مگر بنگالی ہم وطنوں نے یحییٰ خان کا 21 فروری 1971 کا یہ فرمان ماننے سے انکار کر دیا کہ اگر 30 لاکھ بنگالی مار دیے جائیں تو باقی ماندہ ہماری ہتھیلی سے دانہ چنیں گے۔ شوکت اسلام والے تجربے کی ناکامی محض شیر علی خان کے استعفے پر منتج نہیں ہوئی، سرکاری نظریہ پاکستان رمنا ریس کورس میں دفن ہوا۔ بھٹو صاحب کا اسلامی سوشلزم کا کٹا پھٹا تجربہ ہمیں 4 اپریل 1979 کا صدمہ دے گیا۔ ضیا آمریت ہمارے لئے اسلامی نظام لائی۔ ہمارے جمہوری خمیر نے اس ملفوف دشنہ حجام کی بھرپور مزاحمت کی۔ بے نظیر اور نواز شریف حکومتوں کی کشاکش اپنی جگہ مگر 58 ( 2 ) بی کا کانٹا نکال پھینکا گیا۔ پرویز مشرف کی روشن خیال آمریت کو میثاق جمہوریت کی منجنیق سے اڑایا گیا۔ اپریل 2010 کی 18 ویں ترمیم کے جواب میں عمران خانی تجربے کی بنیاد رکھی گئی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی سیاست کو سلام جنہوں نے مقتدر سازش کی اس چومکھی لڑائی میں جمہوریت کا زخم زخم جسد گراں مایہ سلامت نکال لیا۔ مفتی صدر الدین آزردہ آج حیات ہوتے تو رندان قدح خوار کے لئے کیا لکھتے۔ سنیے!
ہیں دونوں مثل شیشہ پہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author