ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر تو ستمگر ہے ، کیا ملک کا موجودہ سیاسی بحران بھی دسمبر کی ستمگریوں کا نتیجہ ہے؟ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟، اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا وزیر اعلیٰ تبدیل ہوگا؟، ان باتوں کا کسی کے پاس درست جواب نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت نام کی ہے اور کوئی مربوط سیاسی نظام بھی نہیں ہے، ہر بات کا ایک اصول ہوتا ہے مگر یہاں بے اصولی بڑا اصول بنی ہوئی ہے۔ کہنے کو سب ملک کے خیر خواہ ہیں ، سب کے دل میں غریب عوام کیلئے ’’درد‘‘ موجود ہے ، سب کہتے ہیں کہ ہم اقتدار نہیں اصولوں کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں ، نواز شریف کی زبان سے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جملہ ختم ہوا تو عمران خان کی زبان پر آ گیا ہے۔ باتیں سب کرتے ہیں مگر ملک کے غریب عوام کو غربت ، مہنگائی اور قرضوں سے نجات کیلئے کسی جماعت نے ابھی تک کوئی مربوط لائحہ عمل نہیں دیا، آئندہ پچاس سال تو کیا پانچ سال کیلئے کسی نے بھی مستقبل کا کوئی جامع پلان نہیں دیا۔ جتنے بھی لوگ اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ سب آزمائے ہوئے ہیں، تعلیم ، صحت ، روزگار ، گڈ گورننس نہ کسی نے دی ہے نہ آئندہ کیلئے کچھ بتایا ہے، خارجہ پالیسی سب کے سامنے ہے، ضیاء الحق دور سے لیکر کل کے بنوں آپریشن تک دہشت گردی کے عذاب ہی بھگت رہے ہیں ، محروم طبقات کو انصاف اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے کچھ بھی نہیں ہوا۔ اُمید کے سہارے ملک کے بائیس کروڑ عوام کب تے جئیں ؟، دسمبر ستمگر ہے تو خدارا قوم کو دسمبر کی ستمگریوں سے نجات دلائیں ، ملک بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کریں ، اقتدار آنی جانی چیز ہے، اسی دسمبر میں ملک قوم اور جمہوریت کیلئے بہتر فیصلے کریں، اسمبلیاں تحلیل نہ کریں جو مسائل درپیش ہیں ان کے سدباب کیلئے انہی اسمبلیوں سے آئین سازی کریں اور وسیب سے صوبے کا جو وعدہ ہوا ہے قومی اسمبلی سے اس کا بل پاس کرائیں کہ پنجاب اسمبلی سے قرارداد پاس ہونے کے بعد سینیٹ پہلے ہی صوبے کیلئے آئین میں ترمیم کر چکا ہے۔ اب ہم دسمبر کی سابقہ ستمگریوں کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دسمبر کی ستم ظریفیوں میں ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر پی ڈی ایم کے وہ رہنما بھی جائیں گے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا نظریہ ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ بن چکا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ 25 دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے اور کرسمس کا تہوار بھی ، مگر دسمبر بہت ستم گر ہے، اس کی یادیں خوشگوار نہیں کہ اسی مہینے سقوط ڈھاکہ ہوا، لاکھوں لوگ مارئے گئے اور ہم اپنے لخت جگروں کے ساتھ آدھے ملک سے بھی ہاتھ بیٹھے، اسی مہینے سندھ ماں دھرتی کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی لاش گڑھی خدا بخش پہنچی۔ اسی مہینے سانحہ پشاور پیش آیا جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں لخت جگر ہم سے جدا ہوئے ، اسی موقع پر کہا گیا کہ ’’ جنازوں پر پھول ہمیشہ دیکھے ، مگر پھولوں کے جنازے پہلی مرتبہ دیکھے ۔‘‘ صحافت کے طالب علم اور محرومی کا شکار’’ پس افتادہ‘‘ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو کوئی لمحہ،کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں جو زخموں سے چور لہورنگ نہ ہو ،دسمبر کی دوسری بے شمار ستمگریوں میں ایک19 دسمبر 1984ء کو کرایا جانیوالا ضیا ء الحق کا ریفرنڈم بھی تھا، اس فراڈ ریفرنڈم میں یہ نہ پوچھا گیا کہ صدر کون ہو؟ بلکہ ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس کا ’’ ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں جواب دیناتھا، ریفرنڈم میں واضح کیا گیا تھا کہ’’ہاں‘‘ کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ پانچ سال کیلئے ضیاء الحق آئینی طور پر ملک کے منتخب صدر ہوں گے۔ سوال یہ تھا کہ’’کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے شروع کیا ہے‘‘ پاکستانی عوام نے جنرل ضیاء الحق کے’’فراڈ‘‘ کو مسترد کیا اور وہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ گئے اور سرکاری اہلکاروں نے پرچیوں پر مہریں مارنے کا فریضہ سرانجام دیا، یہ اس جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم تھا جس نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 ء کے الیکشن میں ’’جھرلو‘‘ کے الزام میں برطرف کیا تھا،دسمبر کے ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کریں ۔ دسمبر کی تلخ یادوں میں ایک یہ بھی ہے کہ یکم دسمبر 2019ء کو دنیا کو کرونا وائرس کی لپیٹ میں لینے والے کوویڈ 19 وائرس کا کیس پہلی بار چین کے شہر ووہان میں رونما ہوا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا نے کرونا بھگتا۔ کرونا تاریخ عالم کا بد ترین حادثہ ہے جس کے اثرات صدیوں تک رہیں گے اور ہزاروں سالوں تک اس حادثے کو بھلایا نہیں جا سکے گا۔ ایک عالم کی موت کو عالم کی موت کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ یادوں میں، کتابوں میں ہمیشہ یاد رہتے ہیں لیکن ظاہری طور پر موت برحق ہے تو اس یادہانی کیلئے بتاتا چلوں کہ 17 دسمبر 1273ء میں عظیم مفکر، شاعر اور صوفی مولانا جلال الدین رومی کا قونیہ میں انتقال ہوا۔ ٭٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر