عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات اب روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ پنجاب کے عوام کو ان کا حق نہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے بلکہ یہ کارروائی جنرل مشرف کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ پنجاب صرف نون لیگ کا گڑھ نہیں بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا قلعہ بھی ہے۔ اس قلعے کی سیاسی قوتوں میں شگاف ڈالنے کی روایت پرانی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں پہلے مارشل کے حواری اس قلعے پر قابض رہے پھر ق لیگ دریافت کی گئی۔
نون لیگ کا انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اس کے کارکنوں اور قیادت کو صعبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کا دور آیا تو پنجاب کی حکومت تو ملی مگر ہر وقت گورنر راج کا خطرہ سر منڈلاتا رہا۔ دو ہزار تیرہ کے بعد جیسے ہی نون لیگ کو حکومت ملی ساتھ ہی عمران خان دھرنا لے کر وفاق پر چڑھ دوڑے۔ وہ جو خدمت کو عزت دینے کی بات کرتے تھے وہ چور ڈاکو لٹیرے کے نام سے بدنام کر دیے گئے۔ کبھی پاناما آیا کبھی اقامہ۔
لیکن ایک دن بھی سکون سے حکومت نہیں کرنے دی گئی۔ جو پراجیکٹ اس دوران نون لیگ نے مکمل کیے وہی آج تک پنجاب کا اثاثہ ہیں۔ اس کے علاوہ ترقی کے نام پر بس کاغذی کارروائی ہی ہوئی ہے۔ عمران خان کے دور میں تو پنجاب کی تضحیک کی انتہا ہو گئی۔ عثمان بزدار جیسے کمزور شخص کو وزیر اعلی لگا کر پنجاب پر مسلط کر دیا گیا۔ اس طرح کے شخص کو وزیر اعلی لگانے کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ اس کو فرنٹ مین بنا کر خوب من مانی کی جائے۔
جس طرح پنجاب کو اس دور میں لوٹا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اہل پنجاب جو شہباز شریف کی طرز حکمرانی کے عادی تھے وہ سلطنت ایک مٹی کے مادھو کے حوالے کر دی گئی۔ پانچ سال خوب پنجاب کے ووٹرز کی توہین کی گئی۔ خان صاحب کی حکومت گئی تو چند دن حمزہ شہباز کو نصیب ہوئے مگر پھر ایک متنازعہ فیصلے کی وجہ سے پرویز الہی کو پنجاب پر مسلط کر دیا گیا۔ وہ سارے ووٹر جو جی ٹی روڈ پر ”میاں کے نعرے“ لگاتے تھے اب پھر منہ دیکھنے لگے۔ پنجاب پر نون لیگ نے بہت عرصہ حکومت بھی کی ہے۔ اس عرصے میں بہت اچھے اچھے کام بھی ہوئے ہیں مگر اس کا اعتراف نہ کرنے کا فیصلہ کہیں ہو چکا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اس وقت پرویز الہی پنجاب کے وزارت اعلی پر براجمان نہ ہوتے۔
کسی زمانے میں پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ بھی رہا ہے۔ لیکن دو ہزار تیرہ کے بعد رفتہ رفتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی دم توڑ گئی۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے پنجاب پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کی کئی کوششیں کی مگر ان کوششوں میں سنجیدگی نہیں نظر آئی۔ پیپلز پارٹی کا پنجاب کا ووٹر بدظن ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔ اس سیاسی خلا کو تحریک انصاف نے پر کر دیا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے متنازعہ انتخابات میں جہاں دھاندلی کے بہت شکایات ملیں لیکن یہ بھی پتہ چلا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی اگرچہ نادیدہ ہاتھ ملوث ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اپنے ہی قلعے میں بیس میں سے سترہ نشستیں ہار جانا نون لیگ کے لیے لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں صورت حال مختلف نظر نہیں آئی۔
دو ہزار تئیس کے عام انتخابات کب ہوتے ہیں کسی کو علم نہیں۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ حکومت کو معیشت کی بحالی کا وقت نہ ملے اور حکومت کی تمنا ہے کہ اس کی میعاد میں جتنا اضافہ ہو سکے اتنا بہتر ہے۔ خان صاحب کبھی کوئی اسمبلی توڑنے کی نوید سناتے ہیں کبھی کسی نئے فتنے کو آواز دیتے ہیں۔ ان حالات میں انتخابات کی تاریخ گوں مگوں میں ہے۔ لیکن جب بھی الیکشن ہونے ہیں کیا نون لیگ اس کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ صرف نواز شریف کی واپسی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں؟ یا پھر ووٹر کو اپنے طرف مائل کرنے کا کوئی حیلہ بھی ان کے پاس ہے؟
مسلم لیگ نون کی بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی دوسرے صوبوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی پنجاب کو دی ہے۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں نون لیگ کا ووٹر موجود ضرور ہے مگر وہ اپنے مرکزی قائدین کی راہ ہی تکتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں نون لیگ کو پنجاب سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی تھیں کہ انہیں حکومت بنانے کے لیے دوسرے صوبوں کی کم ہی ضرورت پڑتی تھی۔ لیکن اس دفعہ صورت حال مختلف ہے۔ اس دفعہ انتخاب کی جنگ کا اصل میدان ہی پنجاب ہو گا۔ اگر اس صوبے میں عمران خان کا جادو چل گیا تو نون لیگ کا سیاسی مستقبل بہت مخدوش ہے۔
یہ بات درست ہے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنانا غلطی تھی۔ اس سے ان لوگوں کو بات کرنے کا موقع ملا جو موروثی سیاست کے خلاف ہیں۔ لیکن حمزہ شہباز کے دور حکومت اتنا مختصر تھا کہ اب اس پر تنقید نہیں بنتی۔
اب جلد انتخابی میلہ سجنے والا ہے۔ لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز ملک سے باہر ہیں۔ ووٹ انہی کے نام کا ہے۔ شہباز شریف اگرچہ خدمت کو عزت دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کوشش دو ہزار اٹھارہ میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔ اس وقت بھی ہائی برڈ نظام کے سامنے خدمت کی عزت کی ذرا نہیں چلی تھی۔ لوگ نظریے کو ووٹ دیتے ہیں۔ جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ پاکستان میں ہوا ہے اس میں جمہوری نعرے اور طرز عمل کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ فی الوقت دیکھا جائے تو نون لیگ کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ حکومت میں آ کر نہ معیشت ٹھیک ہوئی نہ پارٹی کے معاملات درست چل رہے ہیں۔
ابھی الیکشن میں اگرچہ کچھ وقت باقی ہے تو نون لیگ کو اپنی تمام تر توانائیاں پنجاب میں صرف کرنا پڑیں گی۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ نواز شریف نے امیدواروں کی لسٹیں منگوا لی ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر پنجاب کو انتخابی طور پر فتح کرنا ہے تو پنجاب کے عوام کو کوئی سیاسی بیانیہ دینا ہو گا۔ مزاحمت کا نعرہ تخلیق کرنا ہو گا۔ مفاہمت سے جان چھڑانی ہو گی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا نون لیگ پنجاب میں ”لاہور دا پاوا“ جیسی ٹک ٹاک تو بنا سکتی ہے الیکشن نہیں جیت سکتی۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر