امجد نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )
تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ
پانچواں درشن
کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ہوتے ہیں، اور 1848 میں کئے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ہے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ہوتے ہیں، اور 1848 میں کئے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ہے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ہے۔
زیر ِنظر تحریر اِسی نوعیت کی ایک کوشش ہے۔ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کر ڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست ترین مقام دلوایا جا سکے۔ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہی رہی۔
راقم الحروف نے زیر نظر تحریر جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریباً پونے دو سو سال پہلے کے ملتان کو تحریری پردہ سیمیں پر دِکھایا جا سکے۔
اس پورے منظر میں مولراج کی جو بھی حیثیت بنتی ہے اور ملتان کے مقامی باشندوں، مزاحمت کاروں، کی جو بھی تصویر ابھرتی ہے اُس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ البتہ ایک بات واضح رہے کہ ابھی تاج برطانیہ نے براہ راست برصغیر پاک وہند کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تھی اور ملتان پر چڑھائی کرنے والے کچھ فوجی افسران کمپنی کے ملازم تھے اور زیادہ تر اُجرت پر بھرتی کئے گئے مقامی دستے تھے۔ تاہم خالصہ سپاہیوں کو اس فریب کی بنیاد پر ساتھ شامل کیا گیا تھا کہ پنجاب فتح کرنے کے بعد کمپنی بہادر پنجاب کی باگ ڈور ان کے حوالے کر دے گی۔
***
جنرل وہش اور اُس کی بٹالین موت وحیات کی کشمکش میں گھرے ہوئی تھی۔ گذشتہ تین مہینوں سے کمک کی امید میں وہ ملتانی عسکری قوت کا براہ راست سامنا کرنے سے کبھی ایک اور کبھی دوسرے طریقے سے گریزاں رہے تھے۔ صاف ظاہر ہے تازہ دم دستے اور مزید اسلحہ اُن کی قوت اور حوصلوں میں بے پناہ اضافہ کر سکتے تھے جبکہ انتظار کا دورانیہ اُنہیں نِت نئے خطرات سے دوچار کر رہا تھا۔
بمبئی سے ملتان کا فاصلہ بھی کوئی معمولی نہیں تھا اور جنرل وہش کی فوج وقت کیساتھ ساتھ اپنی قوت اور آس دونوں کھو رہے تھے۔ جنرل نے آرمی کو مصروف رکھنے کیلئے محاصرے کی فرضی مشقیں شروع کرا دیں۔ حربی اُچھل کُود کیساتھ ساتھ وہ کبھی کبھار اُنہیں ہنسی مذاق اور کھیل کود کیلئے بھی اُکساتا تھا تاکہ وہ بے معنی یکسانیت کا شکار نہ ہوں اور انہیں وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہو۔
لیکن کسی بھی کیفیت میں وہ نظم وضبط کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا تاکہ وہ اپنے حدف یعنی قلعہ ملتان پر حتمی دھاوا بولنے کو نہ بھول سکیں۔ لہذا اس کی بٹالین جنرل وہش کی ہدایات کے مطابق کبھی خندقیں کھودتی اور کبھی بند کرتی، کبھی بندوقوں اور آدمیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی اور کبھی مصنوعی بارودی سُرنگیں بناتی، بگاڑتی اور کبھی یہ یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ دشمن پر چڑھ دوڑنے کیلئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، اپنے سامنے والے جھاڑ جھنکاڑ اور جنگل بیلوں کو صاف کرنے کی ایکٹنگ کرتے اور اپنے کیمپوں مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا کام تو وہ اکثر کرتے ہی رہتے تھے۔
اُدھر ملتانی سپاہ بھی اُن کی حرکات وسکنات پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھی تاکہ نئی کمک موصول ہونے سے پہلے ہی ان کا صفایا کر دیا جائے۔ بالخر یکم نومبر 1848 کو انہوں نے کچھ اسلحہ اور جوان منظم کرکے اپنے آپ کو اِس قابل سمجھا کہ وہ دُشمن کا ستیاناس کر سکیں۔
رات کی تاریکی میں اُنہوں نے کم وبیش چھ بڑی بندوقیں پُل موج دریا سے گزرنے والی نہر کے مشرقی کنارے پر نصب کرکے مُنہ اندھیرے اِتحادیوں کے کیمپوں پر گولیوں کی برسات کر دی۔ کھیل کُود اور فرضی مشقوں والی ذہنی کیفیت میں سوئی ہوئی برطانوی بٹالین ہڑبڑا اٹھی۔
میجر ایڈورڈز کا کیمپ نہر کے بائیں کنارے پر ہی تھا مگر وہ نہایت چالاکی اور سُرعت سے اپنی جان بچاتے ہوئے دوسری کنارے کی طرف سِرک گیا۔ سرد موسم کی وجہ سے یہ چھ ماہی ندی اب خشک تھی اور دفاعی نقطہ نظر سے اتنی موثر نہیں رہی تھی، جتنی سرتاسر بہنے والے موسم ِگرما میں۔
مسلح سپاہی، اتحادی پڑائو کے شمال میں قلعے کے مخالف رخ مگر انگریزی کیمپوں کی سیدھ میں اِس مہارت سے صَف آرا ہوئے کہ اُن کے میدانِ مَسکنت کا شاید ہی کوئی کونا اُن کے حدف سے مخفی رہا ہوگا۔ تاہم اُن کا اپنا مقام، جہاں وہ مضبوطی اور سمجھداری سے اِیستادہ تھے، دُشمن پر زیادہ واضح نہیں تھا۔ نہایت محدود اسلحہ اور کم تعداد کے باوجود بھی تقریباً پورا ہفتہ وہ لگاتار اِتحادی ٹھکانوں پر فائرنگ کرتے رہے۔ دُشمن بھی ٹیلوں اور خندقوں کی اوٹ مِیں گِرتے پڑتے جوابی فائر کرتے رہے۔ مگر ناپید اور نامکمل خندقوں اور قلیل بندات کے باعث ملتانیوں کا برائے نام جبکہ اِتحادیوں کا خطیر جانی نقصان ہوا اور بیسیوں لڑاکے بے طرح زخمی بھی ہوگئے۔ نقصان اس قدر ذیادہ تھا کہ وہ محسوس کرنے لگے کہ ‘اب گئے اور اب گئے’۔
ملتان کی مُستعد سپاہ کی مسلسل اور مؤثر فائرنگ کے جواب میں گھبرائی ہوئی اِتحادی فوج جوابی حملے کی تیاری میں اِدھر سے اُدھر بھاگنے لگی اور پھر اپنی بندوقیں ٹھکانوں پر نصب کرکے فائر پھینکنے لگی۔ وہ ندی کے مغرب میں 6 اور مشرق میں 4 بڑی بندوقیں نصب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اسی طرح شمال مغرب کی سَمت میں کوئی 1800 میٹر کے فاصلے پر انہوں نے 4 اور بندوقیں بھی نصب کر دیں۔ مگر مُلتانی لشکری اور دفاع کار ندی کے مغربی بند سے کچھ فطری طور پر اس قدر محفوظ ہو گئے تھے کہ اتِحادی افواج کی چند روز تک شب وروز فائرنگ کے باوجود وہ ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔ نہ بندوقیں اپنی جگہ سے ہٹیں، نہ اُن کے مورچوں کو کوئی نقصان پہنچا اور نہ ہی کسی کی جان گئی۔ تھوڑی ہی سہی مگر اُن کی بندوقیں مغربی کِنارے تلے اِس قدر دانشمندی سے لگائی گئیں تھیں کہ دُشمن کے تمام فائر یا تو بند میں ہی دب جاتے تھے یا پھر بغیر نقصان پہنچائے اُوپر سے ہی گزر جاتے۔ برطانوی اِتحادی افواج کی یہ پسپائی دیکھ کر سپاہیوں نے کچھ اور زور لگایا۔
کوئی 600 میٹر کے فاصلے پر کچھ اور بندوقیں نصب کیں اور اپنے پیدل دستوں کو پہلے سے بنائے گئے اَگلے مورچوں میں سِرکا دیا۔ یہاں سے اُنہوں نے اپنی فائرنگ کی شِدت اور رفتار دُگنی کر دی۔ اب دشمنوں کے خیمے براہ راست اُن کی زد پر تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ محفوظ فاصلے سے آگے بڑھ کر اُن کے چھکے چھڑانے لگی۔ ناشتہ بنانے اور لگانے میں مصروف درجنوں جارح مارے گئے۔ کئی ایک کو بھاگنے میں ہی آفیت سوجھی اور کچھ اپنی بندوقوں پر لپکنے ہی والے تھے کہ مُزاحمت کاروں کی سنسناتی ہوئی گولیاں ان کے بدنوں کو چیرتی ہوئی نکل گئیں۔
تقریباً سات دن کی ہلاکت خیزی برداشت کرنے کے بعد دشمن نے 7 نومبر 1848 کو بدلہ چکانے کے لئے نئی حکمت عملی تیار کی جس کے مطابق برطانوی فوج موقع پاتے ہی ندی پھلانگ کر دوسرے کنارے پہنچے گی اور مشرق میں لائن اَپ ہوگی اور اپنی دائیں جانب طویل راستے سے گھوم کر اپنے منتخبہ فوجیوں کو منظم کرکے تین بندوقیں دائیں اور تین بائیں سمت میں نصب کرنے کا حکم دے گی جبکہ ایک چاک وچوبند گُھڑ سوار دستہ اُن کی حفاظت اور ملتانی جوانوں پر جوابی حملہ کرنے کیلئے ہمہ تن ہوشیار رہے گا۔
پیشگی تیاری کے طور پر 6 نومبر کی شام کو ہی لیفٹیننٹ پولاک کو مرکزی کمان کی طرف سے حکم دیا گیا کہ وہ برطانوی مورچہ سنبھالے جہاں سے بڑی بندوقیں نکالی جا رہی تھیں۔ پلان کچھ اس طرح تھا کہ اِسی دوران میجر ایڈورڈز اپنا دستہ تیار رکھے گا اور جیسے ہی برطانوی فوج اور اس کے اتحادی ایک جانب حملہ کریں گے وہ آگے بڑھ کر دوسری جانب حملہ کر دے گا لیکن اس بات کا خیال رکھے گا کہ اُس کا دستہ ندی کراس نہ کرے۔
ملتانی سپاہ کی حکمت عملی، مُسلسل دباؤ اور لگاتار فائرنگ سے اتحادیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اُن سے کچھ بن نہیں پا رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اُن کا جانی نقصان بڑھ رہا تھا اور وہ بار بار اِس ہدف ٹھکانے سے نکل کر کسی طرح جوابی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ مگر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً رات کے سات بجے پولاک اور لیفٹیننٹ لیک اپنے ٹروُپس کو منظم کرنے کیلئے میدان کی طرف نکلے۔ اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی ٹروُپس کے کچھ سپاہی اپنے طور پر ندی کے خشک سینے میں اُتر گئے تاکہ بہت تھوڑے وقت میں ندی کی دوسری جانب پہلے سے موجود اپنے فوجیوں سے مِل کر ملتانی سپوتوں کا آمنے سامنے مقابلہ کر سکیں۔
اونچائی پر موجود پوسٹ پر مسٹر جیمز یہ سمجھا کہ مُزاحمت کار عساکر ندی پار کرکے براہ ِراست اُن پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فائر کھول دیا۔ جیمز کی فائرنگ کا اِشارہ سمجھتے ہوئے اوپر موجود جوانوں نے بھی اپنے ہی فوجیوں پر دستی گنَوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ آن کی آن میں دشمن کے دس بارہ فوجی اپنی ہی حماقت سے ہلاک ہوگئے اور کُچھ زخمی بھی۔
ایڈورڈز جو کہ اپنے ٹینٹ میں مزے سے بیٹھا شاید کُچھ لکھ رہا تھا، صورت حال کی بے یقینی سے گھبرا کر خندق کی طرف دوڑا۔ جب لیفٹیننٹ لیک کو پتا چلا تو اس نے بھی خوف اور پریشانی میں ایڈورڈز کی راہ لی۔ پچھتاوے اور بے خوابی کی رات میں وہ سرد مٹی گود میں کمبل لئے ٹھٹھرتے اور بُڑبڑُاتے جیمز کی کم عقلی کو کوستے رہے ۔ مگر اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ ایک کے بعد ایک نقصان سے دوچار ہو رہے تھے۔ ملتانی عسکریوں کا خوف اور توپوں کی گھن گھرج اُن کے حواس خطا کئے جا رہی تھی۔ جن کی لگاتار فائرنگ ندی کے مغربی کنارے کو آہستہ آہستہ مخدوش کر رہی تھی اور اِسی کِنارے کی طرف ہی کیمپوں اور خندقوں میں سوئے ہوئے دشمنوں کے سَر تھے۔ جن کو لمحہ بھر بھی سکون میّسر نہیں تھا اور وہ مزید مایوسی کی دلدل میں دھنس گئے۔
جنرل کارٹلینڈ اور جوزف کُولے کیمپ میں ابھی اپنی سراسیمگی اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے ساتھیوں کے مارے جانے کا غم غلط کرنے کی کوشش میں اعلی کوالٹی سگار کا دھواں مُنتشر کر ہی رہے تھے کہ ایک اور خبر نے اُن کے ہوش وحواس خطا کرکے رکھ دیے۔
ایک سپاہی اندر آیا اور چھُوٹتے ہی بولا کہ وہ دستہ جو لیفٹیننٹ پولاک کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترا تھا باغی ہو کر مزاحمت کار ملتانی دستوں سے جا ملا ہے جَس سے اُن کی قوت اور طاقت میں کئی گُنا اِضافہ ہو گیا ہے۔ فائرنگ کا سلسلہ بڑھ گیا ہے اور ہمارا مزید سے مزید نقصان ہو رہا ہے۔
خبر سنتے ہی کُولے اور کارٹلینڈ کے ہاتھوں سے سگار گِر گیا اور سب کچھ بھلا کر اب ان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ لیکن اُن کو ایک مقامی کمانڈر نے تسلی دی کہ پوری بٹالین تو نہیں تاہم کچھ سپاہی ضرور اپنے ہم وطنوں سے جا ملِے ہیں۔
دونوں نے ایک لمحے کیلئے مقامی کمانڈر کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا مگر ان کے پاس شاید اب کسی بھی کیفیت کو بھانپنے کے لئے کوئی وقت باقی نہیں تھا کیونکہ اُنہیں یہ جگہ فوراً چھوڑنی تھی۔
دھماکے اب اُن کے آس پاس ہونے لگے تھے اور جس معمولی بند کی اوٹ میں وہ بیٹھے تھے کوئی دم جاتا ہے کہ وہ ملتانی گولا بارود سے ڈھیر ہونے والا تھا۔ کارٹلینڈ، لیک اور ایڈورڈز دوڑے اور ہدف سے دوُر جا کر نئی سازش تیار کرنے لگے۔ مگر سب سے پہلے اُنہوں نے پولاک کی امداد کیلئے کچھ سپاہیوں کو تیار کیا کیونکہ وہ اب بھی دیوانوں کی طرح جوابی کارروائی میں مصروف تھا اور صرف ایک آفیسر ہی اُس کا ساتھ دے رہا تھا۔
وہ سوچنے لگے کہ اس سے پہلے اس قدر قریب جا کر مزاحمت کرنے سے اُن کے پر خچے اڑ جائیں اُنہیں کسی طرح کی امداد بھیجی جائے کیو نکہ اب اُن کے پاس صرف دو بندوقیں ہی باقی تھیں۔ جب تک برطانوی اتحادی افواج مخمصے اور تائسف سے باہر آتی، کچھ نڈر ملتانی جوانوں نے خندقوں اور حفاظتی بندات سے باہر آکر زیادہ ایڈوانس مُقامات پر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔
کچھ دائیں، کچھ بائیں اور کچھ نہر کے دامن میں مغربی کنارے کے عین نیچے اندھیرے کی اوٹ لے کر ریت اور مٹی میں چُھپ گئے۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے دستے بنا کر ہر ایک کی قیادت ایک جری جوان کو سونپ دی۔ میجر ایڈورڈز اپنے ایک نئے لیفٹیننٹ کی مدد کو دوڑا جبکہ کارٹلینڈ اور لیک کو موجودہ صورتِ حال میں یہی مناسب لگا کہ جہاں جہاں اُن کے باقی ماندہ سپاہی موجود تھے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اگلا قدم اٹھانے کی تاکید کی جائے۔
اُنہوں نے کچھ اور سپاہیوں کو خندقوں میں اُتارا تاکہ جس قدر ممکن ہو اپنا دفاع کیا جا سکے۔ مگر یہ ساری صورت حال اب بھی اُن کے لئے اِطیمنان بخش نہیں تھی۔ شک وشبے کی لہر درونِ خلفشار رواں تھی۔ کسی کو کسی پر اعتماد باقی نہیں رہا تھا۔ دوست دشمن کا فرق مٹنے لگا تھا۔ بالخصوص کمپنی افسران مقامی پٹھانوں، سکھوں اور اردگرد سے اکھٹے کئے گئے اُجرتی سپاہیوں کو شَک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔
یَخ بستہ اندھیری رات ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے صبح 8 بجے حملہ کرنے کا سوچ رکھا تھا۔ مگر صُبح کے سمے جَب ٹِھٹھرتا ہوا سورج دھیرے دھیرے لباسِ اُفق سے باہر نکلنے لگا تو ساتھ ہی مُلتانی فوج نے اپنی نئی پوزیشن سے یلغار کر دی اور اِتحادی افواج کے پٹھان سپاہیوں میں سے کُچھ کو ہلاک اور کچھ کو بری طرح زخمی کر دیا اور باقی کو اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
اِس کے بعد اُنہوں نے چیتوں کی طرح اپنے مورچوں سےنکل کر گوروں کے کیمپوں پر ہلہ بول دیا اور اُن کے دائیں بازو پر موجُود دستے کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔ بوکھلائے ہوئے دُشمن نے آرٹلری کے آدمیوں کو جوابی فائر کھولنے کیلئے کہا۔ گھات لگائے ہوئی ملتانی سپاہ نے ندی کے خشک پاٹ میں آگے اور آگے بڑھنا جاری رکھا اور مناسب ترین مقام پر پہنچ کر پہلے سے دُگنی قوت کیساتھ دُشمن پر دوبارا حملہ آور ہو گئی۔
میجر ایڈورڈز نے کچھ مزید زر خرید دستے اپنی مدد کیلئے بلوائے اور گذشتہ رات اپنے بدترین تجربے کے خوف سے اب کی بار میجر کارٹلینڈ کو پیشگی اطلاع بھیجی کہ اُس کے کیمپ پر شدّت سے حملہ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ جوابی کارروائی کیلئے اپنے ٹروپس کو ندی میں اُتارنا ازحد ضروری ہے۔
دراصل اُس کو خطرہ تھا کہ کہیں پہلے کی طرح اُوپر ٹھہرے ہوئے فوجی دوبارہ اپنے ہی فوجیوں کا شکار کرنا نہ شروع کر دیں۔
ملتانی دستوں نے بغیر کسی توقف کے لگاتار یلغار جاری رکھی ہر چند کہ دُشمن کے ٹروُپس کو سنبھلنے میں مشکل ہو رہی تھی پھر بھی کارٹلینڈ نے اپنی بٹالین کو پیش رَفت جاری رکھنے کا حُکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ اِس طرح آگے بڑھنے کیلئے کہا کہ کِسی کو اُن پر اچانک وفاداری تبدیل کر لینے کا شُبہ باقی نہ رہے۔
اپنی مایوسیوں کو اُمید کا سہارا دیتے ہوئے اُس نے تسلی رکھی کہ کمپنی کے افسران کی سرکردگی میں وہ قدرے ہمت اور جُرأت کا مظاہرہ کریں گے جوکہ پہلے سے ہی ایک خطرناک چوکی پر موجود تھے۔
کُوئن نے خشک ندی کے پاٹ میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ دفاع کاروں کی بندوق سے نکلا ہوا ایک خالی راونڈ شاٹ اُس کی چھاتی میں آلگا۔ قریب تھا کہ مر جاتا مگر بعد کی اطلاعات سے پتا یہی چلا کہ معتدل زخمی ہونے کی وجہ سے ناصرف وہ بچ نِکلا بلکہ ضرورت مُطابق آرام کرنے کے بعد وہ اگلے مورچوں پر آگے بڑھ بڑھ کر اپنی پوزیشن کا دفاع بھی کرتا رہا۔
اِس جواب الجواب کارروائی میں بالخر وہ مقام آگیا جہاں ملتانی دستوں نے قدم بقدم حرکت جاری رکھتے ہوئے دُشمن کو ندی کے دوُسرے کِنارے جا لیا۔ جہاں پر گُتھم گُھتا فائرنگ، سنگین بازی، خَدنگ و خِشت باری حتیٰ کہ ہاتھا پائی مار کٹائی بھی ہوئی۔
عین اُس وقت جب توقع تھی کہ دشمن نیست ونابود ہو جائے گا، لیفٹیننٹ کارٹلینڈ کا اضافی دستہ اپنے شکست خوردہ دستوں سے آن ملا اور جنگ کا توازن بگڑنے لگا۔
اب تک نامساعد حالات کے باوجود ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرنے والے یکے بعد دیگرے جانی ومالی نقصان اُٹھانے لگے۔ اِس سے پہلے کہ اُن کا نُقصان ایک خاص حد سے بڑھتا، اُنہوں نے پیچھے ہٹنے میں ہی عافیت جانی اور گھنٹہ بھر گَھمسان کی لڑائی کے بعد وہ پیچھے ہٹنے لگے مگر کُچھ وقت لے کر مزید قوت جمع کرنے کے خیال سے دشمن بھی اَپنے سابقہ مورچوں سے ہٹنے لگے اور ملتان کی افواج بھی واپسں اپنے محاذ پر آکر نئی حکمت عملی پر غور کرنے لگی۔
دو چار گھنٹوں کے بعد جب میدانِ جنگ سے خَاک اور دھوئیں کے بادل چھٹنے لگے تو اِتحادی افواج کو برگیڈئیر مرکھم کی کمان میں ایک اور کرائے کا دستہ مدد کو آتا دکھائی دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ ندی کراس کرنے کے بعد مشرقی کنارے ذرا طویل راستہ اختیار کرکے کُھلے میدان میں کسی بھی خطرے سے آزاد محسوس کر کے روّاں دوّاں تھے ہی کہ ایک گُھڑ سوار جنرل نے دوڑ کر انہیں منظم ہونے کو کہا۔ وہ ہرگز یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ مُلتانی سپاہ مسلسل اُن کی حرکات وسکنات پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
جنرل مَرکھم کے دستوں کا ہدف پر آنا ہی تھا کہ بغیر کوئی تاخیر کئے اُنہوں نے دَھنا دھن گولے داغنا شروع کر دیے۔ ذہنی طور پر نسبتاً ریلیکس برطانوی اور اتحادی دستے اپنی پناہ گاہوں کی طرف لپکے اور جوابی کارروائی کے لئے اپنی گَنیں سیدھی کیں۔
اونچی جگہ پر ٹھہرے ہونے کی وجہ سے اب وہ جوابی کارروائی کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں تھے۔ بہت جلد ناصرف وہ واپسی فائر کرنے لگے بلکہ ملتانی مزاحمت کاروں کی محدود تعداد اور محدود اسلحے کی صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے سنگینیں تان کر آگے بھے بڑھنے لگے اور جلد ہی ملتان کے محدود دستے اپنی جگہ چھوڑ کر منُتشر ہونے لگے بلکہ اُن کی پانچ میں سے چار توپیں بھی دُشمن کے ہاتھ لگ گئیں۔
لیکن جاتے جاتے ایک جواں سال سپاہی نے تاک کر مرکھم کے جسم کا ایسا نِشانہ باندھا کہ وہ گھوڑے سمیت پٹخنیاں کھاتے ہوئے کئی فٹ دوُر جا گرا۔ خیال تھا کہ دونوں ملک عدم کو سدھار گئے ہیں۔ مگر سخت جان گورا کسی طرح قلا بازی کھا کر گھوڑے کی پُشت پر آگیا تھا جس سے وہ قدرے زخمی ضرور ہوا تھا مگر اُس کی جان بچ گئی تھی لیکن ہدف پر ہونے کی وجہ سے درجنوں گولیاں اپنے دَبیز پیٹ پر برداشت کرنے کے بعد خون میں لت پت گھوڑے کی آنکھیں جلد ہی پتھرا گئیں۔
یہ محض اتفاق تھا یا نشانچی کی حکمت عملی کہ ملتانی سپاہیوں کی واپسں فائرنگ سے جنرل ویہلر اور اس کا گھوڑا بھی شدید زخمی ہوگئے تھے۔ بعینہ اُس کا گھوڑا بھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا لیکن مرکھم کے برعکس ویہلر کو جاں بر ہونے میں کئی دن لگے۔
مجموعی طور پر اِس محاظ پر جنگ کا توازن کم وبیش برابر ہی رہا تھا۔ دونوں افواج کا اچھا خاصہ نقصان ہوا اور اگر تعداد اور اسلحے کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ملتانی سپاہ نے اپنی کم تعداد اور محدود اسلحے کے باوجود وہ کر دِکھایا جو بڑی بڑی افواج نہیں کر سکتیں۔
البتہ کمپنی بہادر کے تنخواہ دار جنرل، میجر اور برگیڈئیر خوش اور مطمئن تھے کہ رفتہ رفتہ ہی سہی وہ کامیابی سے کنارہ کش ہو رہے تھے۔ آج کے روز برطانوی اتحادیوں کے 3 جبکہ ملتانی افواج کے تقریباً 15 افراد جان سے گئے تھے اور 6 میں سے ان کی 5 توپوں کو بھی ہتھیا لیا گیا تھا۔
البتہ گذشتہ پورے ہفتے کا اگر جائزہ لیا جائے تو کمپنی کے برطانوی فوجیوں اور اجرتی دستوں کا بھی بھاری بھرکم نقصان ہوا تھا۔ جس میں تقریباً 76 فوجی مارے گئے اور 316 بری طرح سے زخمی ہو گئے تھے۔
پھر بھی وہ سات دن کی مسلسل قتل وغارت کے بعد تسلی میں تھے کہ کم از کم تاحال خطرہ ٹل گیا تھا۔ ملتان کی فوج بھی کوئی منظم اور مرکزی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا چکی تھی۔ مولراج کی حیثیت، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، واجبی اور علامتی تھی، اس لئے اُنہیں افسوس تھا کہ سات دن کی اس شاندار کارکردگی کے باوجود نتیجہ کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں نکلا تھا۔ 5 توپوں اور کُچھ بندوقوں کے دشمن کے ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے اُن کے پہلے سے ہی کم اسلحے میں مزید تخفیف ہو گئی تھی۔
اُدھر برطانوی فوجی افسر اور جوان اپنے جانی نقصان سے بے نیاز (شاید اس لئے بھی کہ وہ زور یا لالچ دے کر مقامی طور پر ہی بھرتی کئے گئے تھے) ایک دوسرے کو مبارکباد دئیے جا رہے تھے۔ البتہ انہیں مرکھم کے گھوڑے کے مارے جانے اور ویہلر کے گھوڑے کے زخمی ہونے کا بہت رنج تھا۔ بشمول اس کے کہ ویہلر بھی زخموں سے ہائے وائے کر رہا تھا۔
بہرحال اِسی صورتِ حال میں سورج کُنڈ کی لڑائی اختتام پذیر ہوئی۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کن لڑائی نہیں تھی۔ ابھی ہر دو جانب ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش اور خواہش باقی تھی اور یہ محض ماندگی کا وقفہ تھا۔
ملتان کی تھکی ماندی افواج قلعے کی طرف لوٹ گئی۔ مگر اُنہوں نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا اور شہر کے گردونواح سے مزید رضاکار اور مزید سپاہی ڈھونڈنے میں جُت گئے۔
انہوں نے کُچھ بند بنانے اور کچھ خندقیں کھودنے اور قلعے کے کمزور حصوں کی مرمت بھی جاری رکھی۔ مُولراج نے اب ایک طرح سے اپنے آپ کو قلعے میں محصور کر لیا تھا۔ لیکن اُس نے قلعے کے اردگرد اور نواحی آبادی میں اپنے محافظ اور جاسوس اس طرح مقرر کئے کہ انگریزی افواج اور اس کے بھیجے ہوئے ٹوہ باز، قلعے یا اُس کے ذاتی ٹھکانوں کے بارے میں ذیادہ معلومات نہ حاصل کر سکیں۔ جو کوئی ایسا کرتا موت اس کا مقدر ٹھہرتی۔
دوسری طرف اپنے اپنے پڑاؤ پر اب دونوں افواج نئی محاظ آرائی کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ قلعے میں لہو گرم رکھنے کے بہانے سپاہیوں نے گھڑ دوڑ، رسہ کشی، تیر اندازی، نشانہ بازی اور کلہاڑا اندازی جاری رکھی۔
انہیں معلوم تھا کہ خالصہ اتحادیوں اور گوروں کا اگلا حدف قلعہ کُہنہ ملتان تھا کیونکہ صدیوں سے ایستادہ یہ کوہ صفت قلعہ دشمنوں کو اپنی استقامت اور مقاومت کے سامنے ڈھیر کرتا رہا تھا۔
شاید اِسی احساس کی بُنیاد پر اِتحادی افواج کے انجینئر قلعے کے کمزور ترین مقامات کا اپنے تئیں جائزہ لے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ قلعے پر چڑھائی کرنے کے لئے گردونواح میں چھوٹے بڑے مورچے اور مِٹی کی ڈھالیں کھڑی کر رہے تھے۔
موسم اب بھی سرد تھا لیکن دن کو سورج کی تمازت بہت تقویت دینے لگی تھی۔ جو گوری چمڑی والوں کے لئے خاص طور پر موافق تھی۔ وہ اب بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے روانہ کردہ بمبئی ٹُروُپس کے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے اور پھر 15 دسمبر 1848 کو وہ بدقسمت دن بھی آن پہنچا جب بمبئی سے روانہ نئے اسلحے سے لیس اور مکمل تربیت یافتہ ایک اور فوجی دستے نے اُنہیں جوائن کر لیا۔ اب صرف اور صرف قلعہ ہی ان کا حدف تھا جس کا ملتانی سپاہیوں اور وطن خواہوں کو بخوبی اندازہ تھا۔
***
اے وی پڑھو:
تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر
چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر
گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر
گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر
سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر