دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قدیم اور جدید صحافت میں فرق۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے وقتوں میں اخبار یا رسالے مختصر چھپتے تھے، آج کی ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل نہ تھیں ، ان دنوں ہاتھ کی کتابت کیلئے مسطر ہو تے تھے، پیلے رنگ کی سیاہی سے خطاط ہاتھ سے کتابت کرتے، لیتھ مشین پر چھپائی ہوتی، سیاہی بننے میں کوئی کمی رہ جاتی یا پھر پلیٹ میکر پلیٹ میکنگ میں کوئی غلطی کر دیتا تو پھر کتابت بھی ضائع ، پلیٹ بھی ضائع، پھر نئے سرے سے کتابت اور نئے سرے سے پلیٹ میکنگ ہوتی، بہت مشکل دور تھا، پھر ٹریڈل مشینوں پر نسخ رسم الخط میں کمپوزنگ کا دور آیا، کتابیں وغیرہ اس میں شائع ہونے لگیں ، کچھ اخبار اور رسالے بھی شائع ہوئے ، رومن کیلئے تو یہ سسٹم ٹھیک تھا مگر نستعلیق اردو قاری کی نظروں میں اس کی جگہ نہ بن سکی، اس کے بعد آفسٹ مشینوں کا دور آیا۔ بڑے اخباروں میں خطاط شفٹوں میں کام کرتے تھے، پھر دور تبدیل ہوا ، پاکستانی اخباری صنعت میں کمپیوٹر پروگرام ان پیج میں نوری نستعلیق فونٹ متعارف کرایا، پھر نت نئی ٹیکنالوجی، سبک رفتار 4 کلر مشینیں ، کلر پرنٹر اور کلر سکینرز ،غرض آج پاکستانی صحافت ترقی یافتہ ممالک کے ہمقدم ہے لیکن اخبارات کا بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین ہو جانا جدیدیت نہیں ، اصل جدیدت رحجانات کا نام ہے ،آج جہاں صحافیوں کو کام کرنے کی سہولتیں ہیں ، آنے والے کل میں وہ مشینیں بھی آر ہی ہیں جو محض کمپیوٹر کے آرڈر پر طباعت کے تمام مرحلے خود کار سسٹم کے تحت طے کردیں گی۔ اس سلسلے میں اہم فریضہ صحافیوں کا ہے کہ صحافت کا لفظ صحیفے سے ماخوذہے ، آج ضرورت خود داری ، خود انحصاری اور قومی وقار کے تحفظ کی ہے ، جان کے تحفظ کے ساتھ آن کا تحفظ بھی اس سے زیادہ اہم ہے۔ آج صحافی برادری صرف نئی مشینوں اور ٹیکنالوجی کو جدیدیت یا جدید صحافت کا نام نہ دے بلکہ رپورٹنگ اور خبرکی دنیا میں انقلاب لائے ۔ میڈیا کسی کا آلہ کار بنے نہ ٹشو پیپر ،بلکہ اس کی حیثیت روشنی اور رہنما کی ہونی چاہئے ، صحافی کو صرف سیاستدان یا رہنما نہیں بلکہ مدبر ہونا چاہئے ، اس کی نظرشش جہات ہونی ہوتی ہے وہ کسی سیاستدان کے بیان کی لائنوں کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی معنویت کو بھی جانتا ہے، آج کا صحافی روایت شکن بھی ہے اور روایت ساز بھی ۔ سانپ کے ڈسنے سے آدمی مر گیا یا باؤلے کتے کے کاٹنے سے فلاں جانبر نہ ہو سکا، یہ پرانی اور روایتی خبریں ہیں ، آج خبر یہ ہے کہ سانپ کے کاٹنے سے آدمی نہیں سانپ مر جائے ۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور آزادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ’’فارسی اخبار ‘‘ بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841 ء میں شروع ہوا تھا اور اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا حسین احمد آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 ء میں جاری ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 ء میں جاری ہونے والا ’’ سید الاخبار ‘‘ بھی شامل تھا۔ 1857 ء میں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958 ء میں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں کیاگیا جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا، صحافیوں پر تشدد ہوااور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہو گئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوںکو ڈیلی ویجز مزدورسمجھاجانے لگا۔ صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا ، ان کے دباؤ پر 1964 ء میں ایک خودمختار ادارہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ قائم کیا گیا ، اس میں ملازمتوں کے رولز تو طے ہوئے ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی۔ ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں، یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997 ء میں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹائز کر دیا لیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہو گئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور ملازمین بھی رُل گئے البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین گولڈن ہینڈ شیک کر دیا گیا مگر وسیب سے امتیازی سلوک ہوا اور امروز ملتان کے ملازمین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری ، بڑھاپے اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے ۔ پہلے وقتوں کے صحافی بہت اچھے ادیب بھی ہوتے تھے ،شعرو شاعری سے بھی ان کو بہت شغف اور دلچسپی ہوتی تھی، آج ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں آتی ، اس کے باوجود جب تک پرائیوٹ ٹی وی چینل نہیں آئے تھے ، صورتحال ٹھیک تھی ، آج ٹی وی اینکرز ہر جگہ میڈیا ٹرائل کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سوشل میڈیا آج سب سے آگے ہے ، اس کی ریٹنگ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سوشل میڈیا صحافت کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟ اس پر پھر کبھی تفصیلی بات ہو گی۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author