نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جدید عورت کے مسائل اور ہمارے سماجی رویے||اسلم اعوان

مغرب کے مطلقاً آزادانہ ماحول میں نوجوان شادی اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے 'عارضی معاہدوں‘ کے تحت زندگی بسر کرنے لگے۔ اس رجحان نے شادی میں تاخیر اور طلاق کی شرح کو مہمیز دی؛

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے روئے زمین پہ شعوری زندگی کا ظہور ہواہے‘ تب سے مرد و زن کا تعلق انفرادی اور اجتماعی حیات کا مرکزی موضوع اور سماجی اصولوں کی تخلیق کا محرک بن چکا ہے؛ یعنی مرد و زن کا جو رشتہ پہلے خاندان اور پھر معاشرے کی تشکیل کی اساس بنا‘ وہی فلسفۂ زیست کا سرچشمہ ثابت ہوا۔ ازل سے اب تک دنیا کے تمام مذاہب، سارے فلسفے اور ہر علم اسی رشتے کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ معاشرتی تنظیم، سائنسی ایجادات اور صنعت و حرفت کا ہر ماڈل عورت اور مرد کے وجود سے تخلیق ہونے والے انسانی تمدن کے ارتقا کے لیے وقف ہو کر رہ گیا۔آسمانی صحائف اور سماوی تعلیمات کا موضوع بھی انسان بنا۔ مقدس کتب نے مرد و زن کے حقوق و فرائض کی تفہیم کے علاوہ فطرتِ انسانی کی تفہیم کو بنیاد بنایا۔ سقراط سے لے کر شوپنہار تک‘ ہر فلسفی افزائشِ نسل کے متنوع عمل، تنازع للبقا اور سوزِ زندگی سے لبریز انسانی نفسیات کی بوقلمونی میں فطرت کے مقاصد کو تلاش کرتا رہا، حتیٰ کہ عہدِ جدید کے عظیم سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کو یہ کہنا پڑا کہ ”میرے عمر بھرکے تجربات کا نچوڑ یہی ہے کہ اس کائنات کی سب سے پیچیدہ گتھی عورت ہے‘‘۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اِس پُرفتن عہد کا سب سے اہم ایشو مرد و زن کے تعلقات میں توازن پیدا کرنا بن گیا ہے۔ آج آزادیٔ نسواں کے علمبرداروں کے علاوہ عورت کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی و جسمانی تشدد سے جڑے عوامل کولے کر مغربی تہذیب کی نمائندگی کرنے والے کئی گروہوں سمیت غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی غیرسرکاری تنظیمیں مشرقی عورت کے انفرادی تشخص اور اجتماعی کردارکی وضاحت کے لیے مختلف مہمات اور سیمینارز کا انعقاد کرکے ہمارے سماجی رویوں کی از سر نو تدوین اورمشرق کے تمدنی رجحانات کو آزاد خیالی کی حامل مغربی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے میں مشغول دکھائی دیتی ہیں۔ فی الوقت آزادیٔ نسواں کے اکثر حامی خواتین پر تشدد کے قابلِ مذمت واقعات کو جواز بنا کر عورت کے لیے سماجی حدود و قیود سے نجات، خواتین کی تعلیم و تعلم اورمالیاتی خود مختاری کے حصول کی خاطر مضبوط خاندانی بندھنوں سے نجات اور گھریلو نظام سے وابستہ احساس کو مٹانا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یورپ و امریکہ میں عورت کی آزادی کے رجحان نے خاندانی نظام کی بیخ کنی کرکے معاشرتی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سماجی نظم و ضبط کی تحلیل کی بدولت مغربی اشرافیہ اس وقت منقارِزیر پر ہے۔ اہلِ یورپ ایک بار پھر مذہبی اصولوں کے نفاذ اور سماجی نظم کے قیام کی خاطر خاندانی نظام کی بحالی کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے پچاسویں سپیکر نیوٹ گنگرچ(Newton Leroy Gingrich) نے 1995ء میںمنصب سنبھالنے کے مرحلے پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”ہم اپنی معصوم بچیوں کی عصمت کا تحفظ اور اُس خاندانی نظام کا احیا چاہتے ہیں جو ہمیں مقدس رشتوں کے مربوط عمل میں محفوظ رکھ سکے‘‘۔افسوس کے ان جذباتی التجاؤں کے باوجود یورپ کی سماجی زندگی کا بہتا دھارا اب واپس نہیں پلٹ سکتا۔ اہلِ مغرب کی تمام تر مساعی کے باوجود خاندانی نظام کی بحالی کی آرزوئیں پوری نہیں ہو سکیں گی۔ علیٰ ہذا القیاس‘ مغرب کے ماہرِ سماجیات تسلیم کرتے ہیں کہ اخلاقی رویے رسومات و روایات کے تال میل سے پروان چڑھے اور وقت کی رفتار کے ساتھ بتدریج ارتقا پاتے رہے لیکن انیسویں صدی میں مغرب میں ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی کے باعث وہ رسومات اور سماجی ادارے‘ جو قبل از تاریخ سے کارفرما چلے آ رہے تھے‘ ایسے دم توڑنے لگے جیسے وہ کوئی ایسی سطحی عادتیں ہوں جنہیں لوگوں نے عارضی طور پر اپنا کر ترک کر دیا ہو۔
شوپنہار نے کہا ”شجاعت‘ جس میں عورتوں کے ساتھ نرمی برتی جاتی تھی‘ کم ہو گئی ہے‘‘، یہی پُرشکوہ اخلاقی اقدار جسمانی مضبوطی کے علاوہ انہیں ذہنی تہذیب بھی سکھاتی رہیں لیکن عورت کی آزادی کے ساتھ ہی خاندانی نجابت، حسب و نسب پہ محمول سنہری روایات کا وہ سماجی ڈھانچہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا جس نے اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط قائم رکھا ہوا تھا۔ انیسویں صدی میں مغربی عورت نے برابری کا عَلم اٹھایا تو مردوں نے مساوات کا چیلنج قبول کر لیا۔ اب مرد کے لیے ماضی کی طرح اُس عورت کا تقدس برقرار کرنا مشکل ہو گیا جو اس کی نقالی پر اتر آئی تھی۔ مغربی سماج میں حیا اور عزت‘ جو مرد کو اپنی جان قربان کرنے کی ترغیب دیتی تھی‘ غیر مقبول صفات میں شامل ہوتی گئیں۔ یورپ میں آزاد شہری زندگی نے کروڑوں مرد و زن کو متاثر کرکے اعصابی تحریک کا شکار بنا ڈالا۔ ڈرامہ، فلم اور تھیٹر جیسے انتہائی طاقتور ابلاغی وسائل جنسی طور پر بیباک کرداروں کی پروموشن کا وسیلہ بنے اور ادب بھی ہیجان انگیزی سے بھر گیا جس سے خاندانی نظام کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
مغرب کے مطلقاً آزادانہ ماحول میں نوجوان شادی اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے ‘عارضی معاہدوں‘ کے تحت زندگی بسر کرنے لگے۔ اس رجحان نے شادی میں تاخیر اور طلاق کی شرح کو مہمیز دی؛ چنانچہ خاندان‘ جو کبھی سماج کی بنیادی اکائی تھا‘ شہری اور صنعتی دور کی گہماگہمی میں گم ہو گیا۔ عفت و عصمت بے معنی اور اولاد کی عافیت کے لیے جانفشانی سے بنائے گئے گھر ویران ہوتے چلے گئے، صنعتی اقتصادیات کی قوت سے معاشرتی روایات بدلنے لگیں۔ سماج کو متحد رکھنے والے آزمودہ رسم و رواج ٹوٹنے لگ گئے۔ شخصی وقار اور انفرادی شناخت پُرہجوم تنہائی میں تحلیل ہوتی چلی گئی۔ اس بے شناخت ہجوم میں پروان چڑھنے والے نوجوان اُن گناہوں کی نمائش سے لطف اندوز ہونے لگے جن کی مذمت سے ان کے آبا ئو اجداد عزتِ نفس کا احساس اور ذہنی آسودگی پاتے تھے۔
اہلِ علم کہتے ہیں کہ اخلاق تاریخی اور لسانی اعتبار سے رسومات سے پیدا ہوا اور اخلاق کو ہمیشہ اُن رسومات سے مطابقت کا نام دیا گیا جو معاشرے کی صحت اور بقا کے لیے ناگزیر تھیں۔ بلاشبہ یہ نظام‘ اخلاق اور رسومات ہمہ وقت بدلتے رہتے ہیں۔ اس تغیر کے بہت سے اسباب ہوں گے لیکن وجوہات میں سب سے اہم اقتصادی حالات میں تبدیلیوں کو سمجھا گیا یعنی زندگی کی معاشی بنیادوں میں تغیر وتبدل نظامِ اخلاق میں تبدیلی کا سبب بنتا رہا۔ تاریخ میں پہلا دور شکاری معاشرت کا تھا جس میں انسان اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہمہ وقت محوِ سفر رہتا تھا۔ دوسرا زراعت سے وابستگی کا عہد تھا جس نے انسانوں کو مستقل قیام کے اسباب مہیا کرکے تہذیب و تمدن کو بنیادیں فراہم کیں۔ اسی طویل زرعی عہد میں رسومات و رواجوں اور اخلاقی اقدار نے سوسائٹی کی تشکیل کرکے انسان کے دل و دماغ کو اشرف المخلوقات ہونے کے احساس سے منور کیا اور اس کی کوکھ سے رشتوں کا احترام، شجاعت، سخاوت، ایثار اور عفو و درگزر جیسی ملکوتی صفات کو وجود ملا۔ تیسرا ٹیکنالوجی کی ترقی کا مرہونِ منت وہ تیز رفتار دور تھا جس نے صنعتی معاشروں کی تشکیل کرکے زرعی تمدن کی اُن مربوط اخلاقی اقدار کو پراگندہ کر دیا جنہیں معاشروں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا۔
لاریب ہمارے اخلاقی نظام کی نشو و نما زرعی سماج کے اُس دیہاتی ماحول میں ہوئی جہاںکھیت میں کام کرنے والا مرد بہت جلد ذہنی بلوغت اور اقتصادی خود مختاری پا لیتا تھا۔ وہ بیس برس کی عمر میں زندگی کے امور کو اس طرح سمجھتا تھا جیسے آج کل چالیس سال کا پختہ کار شخص جانتا ہے۔ اس معاشرتی نظام میں جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی شادی کا بندھن بندھ جاتا لیکن انیسویں صدی میں یکایک صنعتی انقلاب نمودار ہوا تو مردوں، عورتوں اور بچوں نے گھر، خاندان، اتفاق اور روایات کو چھوڑ کر انفرادی طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ بازار، مارکیٹیں اور شہر پھلنے پھولنے لگے، کھیتوں میں کاشتکاری کرنے والوں کی اکثریت کارخانوں میں کام کرنے لگی جہاں ہرسال نئی مشینوں کی ایجاد زندگی کو مزید الجھا دیتی۔ ذہنی بلوغت اب کہیں زیادہ تاخیر سے نمودار ہونے لگی۔ عنفوانِ شباب کا زمانہ طویل اور تعلیم کی تکمیل کا دورانیہ بڑھ گیا جس سے جلد شادی کی روایت دم توڑنے اور خاندان کی ذمہ داری نبھانے سے بیزاری بڑھنے لگی۔ (جاری)

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author