دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

 صفائی نصف ایمان ہے ۔۔۔۔ || ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیث نبوی ہے “صفائی نصف ایمان ہے “ یہ بظاہر تو چار لفظوں کا ایک جملہ ہے مگر اس میں ایک نصاب پوشیدہ ہے مگر ہم نے خزانے کی صفائی کو نصف ایمان سمجھ رکھا ہے آج ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق کرپشن میں پولیس حسب روایت پہلے نمبر پر ، دوسرے نمبر پر ٹینڈرنگ اور ٹھیکداری جبکہ تیسرے نمبر پر عدلیہ براجمان ہے  جس نے پورے ملک کو انصاف مہیا کرناہوتا ہے ، میں سمجھتا ہوں کسی بھی ملک میں ترقی کی پوَ کرپشن ، بدعنوانی ، بد امنی ،لاقانونیت ، سازش اور منافقت کی تاریکی میں نہیں پھوٹا کرتی اور ماشااللّہ مملکت خداداد پاکستان پر ان تمام رزائل کے اندھیرے بہت گہرے ہیں بدعنوانی کیلۓ عام طور پر ہمارا میڈیا لفظ (کرپشن )استعمال کرتا ہے دراصل ہمسب جانتے ہیں کہ یہ لفظ انگریزی کا ہے اور ہماری قوم کے خواتین و حضرات کی انگریز دانی میں تو کلام نہیں حقیقت میں کرپشن کی اصطلاح بار بار رپیڈ کرنے کا مقصد تالے آزماؤں کی طرف سے قوم کو ایک ایسا نعرہ دینا ہے جس کی بنا پر قوم کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ہوجاۓ تاکہ جسے وہ کرپٹ کرار دیں اسے سنگسار کیا جا سکے
انگریزی لغت میں تو کرپشن کے وسیع معنی ہیں اس کے معنی کمپیوٹر کے استعمال کرنے والے بخوبی جانتے ہونگے کہ جب کمپیوٹر کی ونڈو کرپٹ ہوجاۓ تو پورا سسٹم کام چھوڑ جاتا ہے لہٰزا کرپشن کے معنی ناجائز دولت کمانا نہیں اگر سسٹم بحال رکھنا ہے تو سسٹم میں کرپشن کی درست نشان دہی مقصود ہوگی میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن کی بجاۓ اگر لفظ بدعنوانی استعمال کیا جاۓ تو بہتر ہوگا کیونکہ یہی لفظ اس گھٹیا اور گھناؤنے عمل کا احاطہ کرتا ہے اور پھر اسی بدعنوانی کا سدباب کرکے ہم اپنے دھان اور گہیوں کی فصل کو ہرا بھرا لہلہاتا دیکھ سکتے ہیں
میرے ملک کا ہر انصاف پسند فرد یہ چاہتا ہے کہ کرپشن یعنی بدعنوانی ختم ہونی چاہیے تمام اداروں اور نظام مملکت میں شفافیت ہونی چاہیے
جنھیں اختیارات کے مسند پر براجمان کیا جاتاہے انہیں قوم کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے کیونکہ جوابدہ حکومتیں شفاف ہوتی ہیں لیکن اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ یہاں تو باالواسطہ یا بلاواسطہ آمریت مسلط رہی ہے جو نہ شفاف ہوتی ہے اور نہ جوابدہ
جہاں ہر پانچ یا دس سال بعد ایک فوجی ناقوس بجاتا ہوا آن وارد ہو اور عوام ڈھول کی تھاپ پر شہنائیاں بجاتے ہوۓ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے اور مٹھائیاں بانٹتے ہوۓ ان کا استقبال کریں ، دانشور اور شاعر ان کی قیصدہ گوئی کریں عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت ان کے غیر آئینی عمل کو درست اور جائز قرار دیں سیاستدان ان کی کاسہ لیسی کریں پھر شفافیت کیسے آ سکتی ہے
میری راۓ سے شائد بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ شفافیت ایک مسلسل عمل سے ممکن ہے کیونکہ یہ کوئی بجلی کا بٹن نہیں کہ آن کرنے سے آن کی آن برقی قمقمے جل اٹھیں
شفافیت جوابدہ حکومت یعنی صرف جمہوریت ، قانون کی بالادستی اور جدید تصورات سے ممکن ہے شفافیت کے طلب گاروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ آدمیت کے کسی کونے اور خطے میں جمہوریت سے زیادہ شفاف اور جوابدہ نظام کبھی دریافت نہیں کیا جا سکا یہ تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ نظام حکومت تو ہم قرون وسطی والا نافذ کریں اور شفافیت کے تقاضے مغرب کے معیار کے مطابق کریں
دیکھیں بھائی اگر مغرب والی شفافیت درکار ہے تو حضور یہ سمجھنا ہوگا کہ ان شفاف معاشروں کی بنت کیا ہے ؟
مغرب میں لوگ اپنی شفافیت سے کمائی گئی دولت سے پوری ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں یہاں لوگ اپنی جائز ، ناجائز کمائی ہوئی دولت سے اپنی آخرت سنوارنے کیلۓ حج ، عمرے ، زیارات ، قربانی اور دیگر مذہبی امور تو بجا لاتے ہیں مگر ملک کی بہتری کیلۓ حکومت کو  ٹیکس دینے کیلۓ ان پر نزع کا عالم طاری ہوجاتا ہے اُن کے ہاں دولت مندوں یعنی امیروں سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے اور غریبوں سے کم یہاں امیروں کو ٹیکس سے اوّل تو استثنی حاصل ہے اگر دینا بھی پڑ جاۓ تو بہت کم دیتے ہیں جبکہ غریبوں سے ان کی حیثیت سے زیادہ ٹیکس اینٹھا  جاتا ہے
ان کے ہاں دودھ انڈے اور بوتلیں دروزوں کے باہر پڑی رہتی ہیں ہمارے ہاں عبادت گاہوں کے باہر لگے پانی کے کولر کے ساتھ بے جان گلاس بیچارہ زنجیروں کے ساتھ جکڑا ہوتا ہے وہاں عبادت گاہیں چوبیس گھنٹے کھلی ہوتی ہیں کچھ نہیں ہوتا یہاں عبادتیں بھی بندوقوں اور سنگینوں کے ساۓ میں ادا کی جاتی ہیں اور اگر غلطی سے کوئی نئی جوتی پہن کر آ جاۓ تو واپسی پرانے جوتے یا بغیر جوتے کے ہوتی ہے آن کی معیشت کی بنیاد صنعت ہے ہماری معیشت کی بنیاد زراعت لہٰزا وہ دن بھر کام کرنے کے بعد تفریح پر نکلتے ہیں ہمارے ابلاغ میں نمازاستسقا کی اپلیں شائع ہوتی ہیں وہ وقت پر دفتر آتے جاتے ہیں اور پوری دیانت سے اپنے اپنے کام سر انجام دیتے ہیں جبکہ ہم دیر سے دفتر جاتے ہیں ناجائز دیہاڑی لگاتے ہیں اور پھر اِذن صلوات کے بہانے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ واپس دفتر آنے کا راستہ بھول جاتے ہیں آن کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم جبکہ ہمارے ہاں یہ اُلٹ چل رہا ہے آن کے تعلیمی ادارے یونیورسٹیاں اور ریسرچ سنٹر دنیا کے نمبر ون ادارے ہیں جبکہ ہماری یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ تین سو یونیورسٹیوں میں شامل نہیں لہذا وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے مشینیں ایجاد کرتے ہیں تجربات کرتے اور بیماریوں پر ریسرچ کرکے ان کے علاج دریافت کرتے ہیں فکروفلسفہ میں نئی نئی راہیں تراشتے ہیں جبکہ ہمارے اداروں میں دی جانے والی روایتی تعلیم تنگ نظر دولے شاہ کے چوہے پیدا کر رہی ہے ہم دنیا کی امامت کرنے کے دعویدار ہیں مگر اپنی صفیں سیدھی نہیں کر پار ہے وہاں ہر شعبے میں نوبل انعام یافتہ بیٹھے ہیں مگر ہمیں ایک مرتبہ بھی یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا مختصر یہ کہ اگر ملک کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک صاف دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر شفاف نظام کے تمام تر تقاضے پورے کرنے ہونگے جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا تالے آزماؤں کا راستہ بھٹو اور ان کی بیٹی کے نقش قدم پر چل کر روکنا ہوگا مرد حر آصف علی زرداری کی طرح اٹھارویں ترمیم پر پہرہ دینا ہوگا اور اور انتقال اقتدار بھی انہیں کی طرح آنے والی جمہوری حکومتوں کو باعزت اور جمہوری روایات کے مطابق سپرد کرنا ہوگا
جمہوریت اور جمہوری روایات پر مبنی تمام پالیسیاں اپنانی ہوں گی تب جاکر کرپشن بدعنوانی اور رشوت ستانی سے عوام کی جان چھوٹے گی اور عوام کو خوشحالی  نصیب ہوگی ۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author