سب سے زیادہ بدنام تو وہ ہمارے مقتدر اور محبوب ادارے کو کر گیا حالانکہ چند ماہ پہلے تک وہ اسی ادارے کا سب سے زیادہ محبوب صحافی تھا۔
اس کے چاہنے والوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایس پی آر ارشد شریف کا ’دوسرا گھر‘ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ارشد شریف کے گھر والے دوسرے گھر والوں کے ساتھ مل کر ارشد شریف کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالتے لیکن یہاں تو دوسرے گھر والے اپنی عزت بچاتے پھر رہے ہیں۔
جب بھی پاکستان میں کوئی ایسا خوفناک واقعہ ہوتا ہے جس کے مجرم نہیں ڈھونڈے جاتے ہیں یا ہم ڈھونڈنا نہیں چاہتے تو کوئی نہ کوئی ادارہ اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ یہ سب ہمیں بدنام کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم ان اداروں اور لوگوں کا تذکرہ کریں جن کو جاتے جاتے ارشد شریف بدنام کر گیا، شہر کراچی کی صحافت کا ایک سچا واقعہ سنتے چلیں۔
کراچی میں الطاف بھائی کا راج تھا۔ ان کی جماعت کی بہت دہشت تھی۔ اگر الطاف بھائی کہتے تھے کہ آج اخبار نہیں نکلے گا تو وہ نہیں نکلتا تھا۔
اخباروں کے سیٹھ مالکان بھی اگر ایم کیو ایم کے مرکز پر فریاد لے کر جاتے تھے تو الطاف حسین انھیں ساری رات بٹھا کر آزاد صحافت کا مطلب سمجھاتے تھے اور صبح چائے پلا کر وعدے لے کر واپس بھیج دیتے تھے۔
اس ماحول میں ہمارے ایک سینیئر صحافی کے گھر کا دروازہ توڑ کر کچھ لونڈے گھس آئے اور ان پر بُری طرح سے تشدد کیا گیا۔
کراچی کے کسی صحافی کو ذرا بھر بھی شک نہیں تھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔ بلکہ ایم کیو ایم کے کارکن کھلے عام بتاتے پھرتے تھے کہ ہمارے فلاں فلاں ساتھی نے اس صحافی کے گھر میں گھس کر اس کے ’کُھنے‘ کھول دیے۔
صحافی تنظیموں نے شور مچایا تو الطاف حسین نے آزادی صحافت پر ایک اور لیکچر دینے کے لیے پریس کانفرنس بلائی۔
ہمارے زخمی صحافی بھی سر پر پٹی باندھے پریس کانفرنس میں پہنچ گئے۔ الطاف حسین نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ صاحب آپ کی وجہ سے ہماری بہت رسوائی ہو رہی ہے۔ ہمارے زخمی صحافی نے اپنے سر پر بندھی پٹی کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ آپ کی تو صرف رسوائی ہوئی ہے، سر تو میرا پھٹا ہے۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد بھی مقتدر حلقوں کو بدنامی کا اتنا اندیشہ تھا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو براہ راست صحافیوں سے خطاب کرنا پڑا، جس میں دستاویزی ثبوت دے کر بتایا گیا کہ یہ کام ہم نے نہیں کیا ہے۔
بین السطور پیغام یہ تھا کہ اگر ہم چاہتے تو کیا وہ ملک سے جا سکتا تھا۔ مجھے تو یہی سمجھ آئی کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے (یا ڈرایا جا رہا ہے) کہ اگر ہم نے کرنا ہوتا تو ہمارے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔
ہمیں تو اتنا یقین ہے کہ ہمارا مقتدر ادارہ یہ کام کرتا ہی نہیں اور اگر کرتا ہے تو ہمیں اپنے طریقے کیوں بتائے گا اور ہمیں خود جان عزیز ہے، ہم یہ قومی راز آپ سے کیوں پوچھیں گے۔
تو اگر آئی ایس پی آر ارشد شریف کا دوسرا گھر تھا تو کیا اس گھر کو شامل تفتیش کرنے کی اجازت ملے گی یا اس سے بدنامی ہو گی۔
اس بدنامی سے بچنے کے لیے مقتدر ادارے نے ایک تیسرے گھر کی طرف اشارہ کر دیا ہے یعنی ارشد شریف کا ادارہ اے آر وائی اور اس کے مالک سلمان اقبال۔ کچھ مہینے پہلے تک سلمان اقبال کا میڈیا کی دنیا میں اتنا دبدبہ تھا کہ ہم تو انھیں کوئی چھوٹا موٹا جنرل ہی سمجھتے تھے اور اے آر وائی چینل کو آئی ایس پی آر کا پہلا گھر۔
اب بدنام آئی ایس پی آر والے ہوں یا سلمان اقبال صاحب، دونوں زندہ سلامت ہیں۔ جان سے کون گیا؟
،تصویر کا کیپشن سلمان اقبالاس بدنامی میں سویلین حکومت کا بھی حصہ بنتا ہے۔ ارشد شریف کے خلاف درجن بھر سے زیادہ کیس رجسٹر ہوئے۔ تھانے تو سویلین حکومت کے ہی ماتحت ہوتے ہیں۔
تو اگر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مرضی کے بغیر کوئی ارشد شریف کے خلاف مقدمے درج کروا رہا تھا تو کیا آپ کو صرف بیرون ملک جا کر قرضے مانگنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔
سب سے زیادہ رسوائی لیکن ہماری صحافی برادری کی ہوئی ہے۔ بندہ بھی ہمارا مارا گیا ہے اور ہم اس قابل بھی نہیں کہ کھرا اس کے قاتل کے گھروں تک پہنچا سکیں۔
کمیٹی پر کمیٹی بیٹھے گی اور ہم اس کی رپورٹیں چھاپیں گے، تجزیے کریں گے، ماتم کریں گے، کالی پٹیاں باندھیں گے، کبھی کبھی چھوٹا موٹا احتجاج بھی کریں گے۔ لیکن ہم میں سے کئی اندر ہی اندر یہ بھی سوچیں گے کہ دیکھیں نا، ارشد بھی تو صحافت چھوڑ کر جہاد پر نکل پڑا تھا۔ یا پھر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
تو باقی ادارے اپنی بدنامی کا بندوبست خود کریں، میرا خیال ہے میری صحافی برادری کی بدنامی اس وقت تک زوروشور سے جاری رہنی چاہیے جب تک ہم ریاست کو مجبور نہ کریں کہ ہمارا بندہ مارا گیا ہے، قاتل ڈھونڈ کر دو چاہے وہ دوسرے گھر میں ہوں یا دسویں گھر میں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر