وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہوں کی دنیا ہم ایسے درویشوں کی جہان فانی میں آمد و رفت سے مختلف ہے۔ مجید امجد نے کہا تھا۔ ’میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے / میں کل ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا‘۔ بادشاہ لوگوں کا جلوس شاہی مبارک سلامت کی ہما ہمی میں برآمد ہوتا ہے۔ کچھ برس بعد سفر آخرت کا لمحہ آن پہنچتا ہے۔ پھر ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے۔ پرانے زمانے کے قصے کہانیاں برآمد ہوتے ہیں۔ عہد گزشتہ کے قصیدہ خواں حسن طلب میں تان پر تان لگاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نئے بادشاہ کے حواری بہت پہلے چن لیے جاتے ہیں۔ سلطانی جمہور کے جویا تو محض تماشائی ہیں۔ شاہ نوآمدہ کی صفات پڑھتے ہیں۔ شاہ رفتہ کے قصے سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے پوست و استخواں پر یہ سب گزرا اور ہمیں خبر تک نہیں ہوئی۔ ہمیں تو خیر عادت ہو چکی مگر تاریخ ظلم سہتے ہوئے حبشی کے سینے پر رقم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شاہ گزشتہ کی وردی پر شکن تک نمودار نہیں ہوئی اور شاہ نودمیدہ نے ابھی ٹھیک سے شاہ نشینی کی نشست کے آداب سے آگہی بھی نہیں سیکھی مگر عہد رفتہ کے قصے ہیں کہ کوچہ و بازار میں بے بھاﺅ بک رہے ہیں۔ شاہ ڈنکن کی ذریات کے سینے میں ابھی ٹھیک سے سانس بھی نہیں سمائی کہ حرم سرا پارینہ سے حکایات کی لین ڈوری بندھ گئی ہے۔ عمران خان اپنے حواریوں کا خیال خام تھپکتے 26 نومبر کو پنڈی پہنچے تو انہیں ٹھیک سے معلوم تھا کہ تخت سلطانی کی تبدیلی نوشتہ دیوار ہو چکی ہے۔ شاہ میعاد اول در میعاد دوم کے دن گنے جا چکے۔ ملکہ عالیہ کی آنکھ کا تارا مرور زمانہ کی جبین گردش آلود پر خاک نصیب ہو چکا ہے۔ باغیان سلطنت کے حافظ قرآن امیدوار کا سریر آرائے سلطنت ہونا طے پا چکا ہے۔ عمران خان مگر ہٹ کے پکے ہیں۔ جادوئے سامری پر پختہ ایمان ہے چنانچہ مثل تیمور لنگ کے پائے زخم موہوم پر کھڑاﺅں پہنے پنڈی پہنچے۔ اسلام آباد پہنچنے کی ہمت بہرحال نہیں کی۔ اپنے زیر نگیں صوبوں اور رجواڑوں کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا اور بیس کوس پرے فتح پور سیکری المعروف بنی گالہ کا ارادہ نہیں کیا، واپس برلب نہر قلعہ زمان پارک لاہور کی طرف لوٹ گئے۔
امریکی سازش (درپردہ سائفر خودنوشت) سے رجوع فرما چکے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ موسوم بہ ہیئت مقتدرہ کو نردوش ٹھہرا چکے تھے۔ نئے انتخاب کی تاریخ تقویم معلومہ میں نامعلوم ہو چکی تھی۔ نئے بادشاہ کی تقرری میں دخل اندازی کا راستہ نہیں مل سکا۔ خطہ لاہور میں پہنچ کر وفادار صوبے داروں سے مشاورت کا فرمان جاری کیا۔ اٹک کے پار محمود خان صوبیدار تو صاف انکاری ہو گئے کہ دیوان صوبائی تحلیل کرنے سے خلعت یافتگان موجودہ کے معدوم ہونے کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ لاہور کے صوبیدار نے البتہ پیچ دار راستہ اختیار کیا۔ آغاز مشاورت میں مہلت طلب کی۔ پھر دسمبر کی 20 تاریخ کا آنکڑہ ملایا۔ بالآخر آئندہ برس مارچ کی خبر سنائی۔ اس دوران صوبیدار کے صاحبزادے نے صاف بتا دیا کہ انہوں نے شاہ زماں (حال گمنام) کے فرمان پر عمران خان سے بیعت کی تھی۔ گویا اصل وفاداری پنڈی کی تلوار سے قرار پائی۔ شاہ خود بیں و خود آرا عمران خان کے دست راست اعجاز چودھری نے صاف کہہ دیا کہ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کا موقف پی ٹی آئی سے متخالف ہے۔ پرویز الٰہی نے خود ایک انٹرویو میں سلطنت پوٹھوہار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ تک کہہ دیا کہ پی ڈی ایم کے بہلاوے میں گمراہی کے راستے پر گامزن تھے کہ اللہ نے درست راستے کی نشان دہی کر دی۔ بے شک اللہ اپنے چنیدہ بندوں تک رہنمائی کے راستے نکالنا جانتا ہے۔ اس طور صوبے دار موصوف نے گویا عمران خان سے وفاداری کی حقیقت کھول دی۔ تس پر فرزند لائل پور رانا ثنا اللہ نمک پاشی کرتے ہیں کہ اگر ہمت تھی تو شاہ گزراں قمر باجوہ کے عہد زریں میں پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے نے یہ سب قصے بیان کیے ہوتے۔ پرچہ نویسان سند یافتہ نے الگ قیامت اٹھا رکھی ہے۔ ایک خبر حامد میر دیتے ہیں۔ ایک حکایت عمر چیمہ بیان کرتے ہیں۔ سات سمندر پار بیٹھے احمد نورانی نے راز ہائے درون حرم سرا کے اعداد و شمار بیان کر دیے ہیں۔ خاصہ داران دربار نے اعداد و شمار کی تردید نہیں کی البتہ بیان کنندہ کی نیت پر انگلی اٹھائی ہے۔
ایک خبر یہ ہے کہ معزول شاہ عزت مآب میاں نواز شریف نے وطن واپسی پر کمر باندھ لی ہے۔ شاہ مرداں آصف علی زرداری، کہ ارض سندھ کے بے تاج بادشاہ ہیں، وقفے وقفے سے مہتابیاں چھوڑتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، ان کے ولی عہد نے سیلاب کی آفت میں طلاقت لسانی کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ میاں شہباز شریف بے اختیار ان کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ ملال کا مقام البتہ یہ ہے کہ اس رام کہانی میں ان تین کروڑ پاکستانیوں کا کوئی ذکر نہیں جو طوفان باد و باراں میں سر پر چھت سے محروم ہو گئے۔ جن کے کھیتوں میں فصل آئندہ کے لیے بیج موجود نہیں۔ کاشت کی نوبت آئے گی تو کھاد کا سوال بھی اٹھے گا۔ ہمیں تو یہ خوش خبری کافی ہے کہ قرض مزید (مع سود غیر شرعی) موصول ہو گیا۔ کوئی آٹھ ارب ڈالر کی مزید ادائی کا سوال ابھی باقی ہے۔ فقیر کی صورت سوالی ہے۔ الحاج اسحاق ڈار حریف خفتہ مفتاح اسماعیل سے پنجہ آزمائی کی مشق کر لیں تو اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ تخت شاہی کے لالے پڑے ہیں۔ بازار نخاس میں باد زمہریر کا راج ہے۔ کارخانوں کی چمنیاں دود حرارت افزا سے از کار رفتہ توپ کے دہانے کی طرح بانجھ ہیں۔ قلمروئے روس سے سستے تیل اور گیس کی آمد کی خبر ہے مگر لمحہ موجود میں چولہے پر رکھی دیگچی میں بیوہ ماں سادہ پانی میں پتھر ہلا رہی ہے۔ بھوکے بچوں کی آنکھوں میں اشک خشک ہو چکے، ان کا باپ دو وقت کی روٹی کے بندوبست سے معذور ہے۔ شہر پناہ کے رخنوں میں طالبان کی آمد کے اشتہار چسپاں ہیں۔ دارالخلافے کی گلیوں میں راج نیتی کا میلہ سجا ہے۔ ایک بادشاہ چلا گیا، دوسرے نے گدی سنبھال لی۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر