عبدالغفار قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جس چھوٹے سے سرکاری دفتر میں اپر ڈویژن کلرک کی حیثیت سے کام کرتا ہوں وہاں فائلوں کا کام ہوتا ہے۔ فائلوں کے کام کی بدولت یہاں کلرک سے لے کر بڑے افسر تک کی کار کردگی ماپنے کا پیمانہ بھی فائل ہی ہے۔ اگر دفتر کے کسی ملازم سے پوچھا جائے کہ آج اس نے کتنا کام کیا ہے۔ تو اس کا عمومی جواب یہی ہو تا ہے کہ آج اس نے اتنی فائلیں نکالی ہیں۔ کوئی سائل یہاں آ کر اپنے کام کے بارے میں استفسار کر لے تو اسے کام کے بارے میں بتانے کی بجائے یہی جواب دیا جا تا ہے کہ فائل چلی گئی ہے، فائل آ گئی ہے، فائل رک گئی ہے۔ وغیرہ۔ یہاں پر ہر کام فائل کے ذریعے ہی ہوتا ہے، حتی کہ دفتر کی کینٹین میں اگلے ہفتے کون سا کھانا بنے گا، یہ فیصلہ بھی فائل کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔
جس طرح ایک کوزہ گر مٹی سے کھیلتا ہے بالکل اسی طرح میں فائل سے کھیلتا ہوں۔ اور جس طرح کوزہ گر برتن بنانے کے لئے مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے، اسی طرح میں بھی کئی دفعہ فائلوں میں فائل بن جا تا ہوں۔ یقین کیجئے مجھے کئی دفعہ محسوس ہو تا ہے جیسے میں انسان نہیں ایک چلتی پھرتی فائل ہوں۔ اور مجھے اپنے دفتر کے تمام ملازم اور آفیسرز مختلف کوریڈورز میں چلتی پھرتی فائلیں محسوس ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا گھر میں کھانا اور پانی مانگتے ہوئے کہہ بیٹھا ہوں۔
”حمیدہ بیگم وہ ذرا کھانے والی فائل لانا“ ۔ جہاں چھوٹے دفتروں میں فائل سے کھیلنے کا کام ہم غریب کلرک کرتے ہیں تو کچھ بڑے دفتروں میں یہی کام درمیانے اور بڑے لیول کے افسران کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا ہر سرکاری افسر کے دفتر میں میز پر کچھ فائلیں ضرور دھری ہوتی ہیں جو صاحب کے مصروف نظر آنے میں کافی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
فائل کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ جیسے ٹرانسفر کی فائل، پوسٹنگ کی فائل، چھٹی کی فائل وغیرہ۔ ان میں سے کچھ فائلیں روٹین کی ہوتی ہیں اور کچھ ارجنٹ نوعیت کی۔ ارجنٹ فائل وہ ہوتی ہے جس کا فیصلہ چند ہفتوں سے لے کر چند مہینوں کے اندر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ روٹین کی فائل کی ڈسپوزل بعض اوقات سالوں پر محیط بھی ہو سکتی ہے۔
فائل کے اجزائے ترکیبی کی بات کی جائے تو یہ دراصل کسی مخصوص کام سے متعلق کاغذوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ تمام کاغذ اس لیے فائل میں رکھے جاتے ہیں تا کہ فیصلہ کرنے والے افسر کی راہنمائی ہو سکے کہ یہ کام کیسے نہیں ہو سکتا ہے۔ تمام ضروری کاغذات فائل میں رکھنے کے بعد اس پر نوٹ لکھا جا تا ہے۔ نوٹ اور فائل کا آپس میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ نوٹ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ فائل کے اوپر لکھا جا تا ہے۔ لیکن بعض اوقات کچھ درخواست گزار اور کچھ نا تجربہ کا ر ماتحتان ادنیٰ فائل کے اوپر لکھنے کی بجائے ”نوٹ“ فائل کے اندر رکھ دیتے ہیں۔
جو غلط بات ہے۔ مگر اس سے ایک فائدہ ضرور ہو تا ہے کہ فائل کی رفتار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ہم یہاں پر یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ فائل کی رفتار عام طور پر ”نوٹ“ کے سائز سے براہ راست متناسب ہوتی ہے۔ یعنی نوٹ جتنا بڑا ہو گا فائل کی رفتار اتنی زیادہ ہو گئی۔ نوٹ کو فائل کے اندر رکھنے کے عمل کو ”۔ ۔ کلرکانہ“ زبان میں فائل کا پیٹ بھرنا بھی کہا جا تا ہے۔
فائل کو ڈھانپنے کے لئے اسے کور کے اندر رکھا جا تا ہے جسے فائل کور کا نام دیا جا تا ہے۔ فائل کے اندر موجود مختلف کاغذات پر رنگ برنگی جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں جو فیصلہ نہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کئی دفعہ ایک کونے پر پیلے یا گلابی رنگ کی ایک چٹ بھی چسپاں کر دی جاتی ہے۔ یہ چٹ کئی دفعہ فائل کے اندر رکھے گئے ’‘ ۔ نوٹ ”۔ کے متبادل بھی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر دو کو فائل کا پہیہ سمجھا جا تا ہے۔ جو اس کی رفتار بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
فائل مکمل کرنے کے بعد اسے اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جا تا ہے۔ ابتدائی طور پر فائل کا رخ عام طور پر نیچے سے اوپر کی طرف ہوتا ہے۔ یعنی چھوٹے افسر سے بڑے افسر کی طرف۔ فائل کی رفتار کے بارے میں بھی آپ کی راہنمائی کرتے چلیں۔ اصول کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی بلڈنگ کی ایک ہی منزل پر فائل کو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانے کے لئے چار دن سے ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ اور فائل کو کسی بلڈنگ کی ایک منزل سے دوسری منزل پر جانا ہو تو اس کی رفتار فی منزل ایک ہفتہ تصور کی جاتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کر دیا گیا ہے کہ اگر نوٹ فائل کے اندر ہو تو رفتار قدرے بڑھ بھی سکتی ہے۔ آخری مقام تک پہنچ کر فائل کو چند دن آرام کا موقع دیا جاتا ہے۔ افسر بالا اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر نوٹ کر پڑھ کر یا ”دیکھ کر“ اس پر حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ حتمی فیصلہ کے بعد فائل جس راستے سے اوپر گئی ہوتی ہے۔ اسی راستے پر واپس روانہ کر دی جاتی ہے۔ واپسی کی رفتار اوپر جانے کی رفتار سے نسبتاً ًزیادہ ہوتی ہے۔ اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر اکثر فائلوں کو ”فائل“ ۔ کر دیا جا تا ہے۔ جس کے بعد یہ ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے۔
ایک زمانے تک فائل کا استعمال صرف سرکاری دفاتر تک محدود تھا۔ مگر پچھلی کچھ دہائیوں سے یہ پراپرٹی ڈیلرز کے دفاتر میں بھی استعمال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بھینسیں بھینس کی بہن ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ سرکاری دفتر کی فائل اور پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کی فائل کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر یہ آپس میں بہنیں نہیں تو کزن ضرور ہوں گی۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے جب بھی پراپرٹی والی فائل کسی سرکاری دفتر میں پہنچتی ہے تو سرکاری فائل میں حرکت شروع ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری دفتروں میں فائل کا کام کرنے والے ملازم کئی دفع ریٹائرمنٹ کے بعد فائلوں کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
یہ بلاگ ہم سب پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ