شیر علی خالطی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’خوف کی حکمرانی ہے۔ لوگوں نے غیر ضروری سفر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گھر سے باہر جانا پڑے تو شام ہونے سے پہلے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ لوگوں کو بھتے کی فون کالز آ رہی ہیں۔ پولیس تھانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور گشت کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوب میں دریائے سندھ کے کنارے آباد روجھان تحصیل میں حالیہ دنوں کی یہ منظر کشی ایک مقامی صحافی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کی۔
واضح رہے کہ اس علاقے میں جہاں دریائے سندھ پنجاب کے جنوب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے، دریا کے طول کی وجہ سے کچے کا وسیع علاقہ ہے۔ ہہاں کے ڈاکو مقامی باشندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے ہیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کے بعد مقامی سطح پر حالات مخدوش ہیں، پولیس چوکیاں خالی کر چکی ہے اور پولیو مہم کو سکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت کر لی گئی ہے۔
یہ واقعہ پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ایک مقابلے کا ہے جس میں پولیس کے مطابق چند اہم مطلوب مجرموں کو ہلاک کیا گیا تاہم اس کے بعد ڈاکوؤں کے لنڈ گینگ کی جانب سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات سامنے آنے پر یہ خدشہ جنم لینے لگا کہ کہیں ایک اور گھوٹکی جیسا واقعہ نہ ہو جائے۔
واضح رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں پانچ نومبر کو رونتی میں کچے کے علاقے میں ڈاکووں نے اچانک حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
حالات خراب کیسے ہوئے؟
بی بی سی نے مقامی لوگوں سے بات چیت کی تو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے لنڈ گینگ کے مقامی ڈاکو گورا عمرانی نے بھاگیا عمرانی کے بیٹے کو قتل کیا تھا جس پر مقتول کے رشتہ داروں نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ یہاں سے اس کہانی کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں آج حالات اس نہج تک پہنچ گئے۔
ترجمان راجن پور پولیس کے مطابق گورا عمرانی کے خلاف قتل، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت 13 ایف آئی آرز درج ہیں جن میں انھیں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔
مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ بھاگیا عمرانی کے قریبی رشتہ داروں نے موقع دیکھ کر ایک دن پولیس کو گورا عمرانی کے بارے میں مخبری کی۔
اس اطلاع پر روجھان پولیس نے بکتر بند گاڑی اور راکٹ لانچر سے لیس 23 نومبر کی صبح راجن پور میں کچے کے علاقے میں گورا عمرانی کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں مزاحمت کے نتیجے میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
اس دوران پولیس کی طرف سے داغے گئے ایک راکٹ سے گورا عمرانی کے بچے اور خواتین بھی زخمی ہوئے۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ابھی فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا کہ لنڈ گینگ کا سرغنہ خدا بخش اپنے ساتھی کی مدد کو پہنچ گیا۔
دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ تین گھنٹے تک جاری رہا لیکن اب پولیس نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
پولیس کے لیے مشکلات بڑھ رہی تھیں۔ تین اہلکار بکتر بند گاڑی میں پھنس گئے جن کو مشکل سے بچایا گیا۔ اس دوران پولیس کے تین اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
راجن پور پولیس نے پسپائی اختیار کی اور قریب ہی ایک چوکی کو محفوظ جان کر وہاں پہنچ گئے۔
تاہم مقامی افراد کے مطابق ڈاکوؤں نے پولیس کا پیچھا کیا اور چوکی پر راکٹ لانچر، مارٹر اور جدید اسلحے سے حملہ کر دیا۔
اب چوکی میں موجود پولیس نے مدد مانگی تو اضافی نفری پہنچنے پر پولیس کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ اس بار ڈاکوؤں کو پسپا ہونا پڑا۔
تاہم فائرنگ کے تبادلے میں خدا بخش لنڈ ہلاک جبکہ گورا عمرانی زخمی ہو گئے۔
بعد میں ضلعی پولیس آفیسر نے دعویٰ کیا کہ خدا بخش لنڈ اور گورام عمرانی سمیت تین ڈاکو ہلاک ہوئے جبکہ تین پولیس آفیسرز زخمی ہیں۔
خدا بخش لنڈ کون تھے؟
خدا بخش لنڈ یہاں کچے کے علاقے میں گینگز کے سربراہ کے طور پر جانے جاتے تھے اور انھیں یہاں کے باسی مقامی ڈاکوؤں کا ڈان قرار دیتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راجن پور پولیس کے ترجمان کے مطابق ضلع رحیم یار خان اور راجن پور میں خدا بخش لنڈ کے خلاف قتل، اغوا برائے تاوان، بھتہ اور دہشت گردی کی 63 ایف آئی آرز درج تھیں اور ان کے سر کی قیمت 18 لاکھ مقرر تھی۔
گذشتہ 22 سال میں خدا بخش لنڈ کے خلاف سنہ 2000 سے 2022 تک تمام پولیس آپریشن ناکام ہوئے تھے۔
اس بار خدا بخش کی ہلاکت پولیس کے لیے بظاہر ایک بڑی کامیابی تھی۔
تاہم خدا بخش کی ہلاکت کے بعد ان کے جنازے میں مقامی افراد کے مطابق تقریباً دو ہزار افراد شریک ہوئے جن میں مختلف گینگز کے سربراہان نے شرکت کی اور پولیس ذرائع کے مطابق خدا بخش کی موت کا بدلہ لینے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق قل خوانی والے دن یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’خدا بخش لنڈ کی موت کا بدلہ لیا جائے نہیں تو سارے الگ الگ مارے جائیں گے۔‘
خدا بخش کی جگہ شاہد لنڈ گینگ کے سربراہ بن گئے۔
پولیس کو حملے کا خدشہ
یہ اطلاع پولیس تک پہنچی تو پولیس نے تقریباً 10 چوکیوں سے اپنا سارا عملہ واپس بلا لیا اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے پولیس گشت ختم کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق روجھان میں تمام پولیس تھانوں کو ڈاکوؤں کے حملے کا خطرہ ہے اور اسی لیے تین پولیس چوکیاں عارضی طور پر ہٹا دی گئی ہیں جبکہ کچے کے علاقے میں موجود باقی سات پولیس چوکیوں میں تعینات پولیس عملے کو تھانہ سونمیانی، تھانہ بنگلہ اچھا اور تھانہ روجھان بھیج دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ان کو خدشہ ہے کہ ڈاکوؤں کے مختلف گروہ متحد ہو کر پولیس چوکیوں پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔
کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں اور بلوچستان لبریشن آرمی کے درمیان تعلقات بھی ایک متنازع معاملہ ہے۔
جب بی بی سی نے کچے کے علاقے میں موجود ذرائع سے بات کی تو بی بی سی کو بتایا گیا کہ مقامی گینگز کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں۔ مقامی ایم این اے سردار ریاض محمود مزاری اور آر پی او ڈیرہ غازی خان بھی کچے میں بی ایل اے کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔
پولیو مہم کو سکیورٹی دینے سے معذرت
مقامی سطح پر سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی تازہ ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب حال ہی میں امن و امان کے پیش نظر تحصیل روجھان میں پولیو مہم روک دی گئی۔
بی بی سی کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق چیف ایگزیکٹیو ہیلتھ آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی نے باضابطہ طور پر سیکریٹری صحت پرائمری اینڈ سکینڈری حکومت پنجاب کو خط لکھ کر اس فیصلے اور اس کی وجوہات کے بارے میں آگاہ کیا۔
اس سے قبل پوری تحصیل میں پولیس کی جانب سے پولیو ورکرز کو سکیورٹی دینے سے معذرت کی گئی تھی۔
ڈان اخبار میں آصف چوہدری کی خبر کے مطابق جنوبی پنجاب پولیس کی اعلی قیادت نے حکومت پنجاب سے جرائم پیشہ افراد کے مستقل خاتمے اور آپریشن کے لیے پانچ ارب آٹھ کروڑ مانگے ہیں جس سے بلٹ پروف گاڑیاں اور کشتیاں، تھرمل امیجنگ ڈرونز خریدے جائیں گے اور موجودہ پولیس ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے گی۔
پولیس نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ علاقے میں سماجی اور معاشی ترقی سے بھی جرائم کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
’پولیس کو ڈرنے کی ضرورت نہیں‘
ایم این اے سردار ریاض محمود مزاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکو تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔ پولیس کو ڈرنے کی ضرورت نہیں نا ہی ان کو پولیس چوکیاں بند کرنی چاہییں۔‘
’اس سے عوام اور ڈاکوؤں میں یہ تاثر جائے گا کہ پولیس ڈر گئی ہے۔ پولیس کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ دبک کے بیٹھنا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پانچ ارب بجٹ مانگنے کا مطلب ہے کہ وہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔‘
’آپریشن کے نام پر پولیس آفیسرز بجٹ کھا جاتے ہیں۔ پچھلے 20 سال سے یہی پریکٹس رہی ہے۔‘ ’اگر پہلی بار پولیس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہے تو ڈٹ کر مقابلہ کریں تاکہ عوام کو جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس راکٹ لانچرز بھی ہیں اور مارٹرز بھی، اس لیے ’گن کی بجائے گن چلانے والے کو مظبوط کیا جائے اور ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے لوکیشن ٹریس کریں تاکہ ڈرون کے ذریعے ڈاکووں کو ہلاک کیا جا سکے۔‘
انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ڈاکوؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جائیں۔ تاکہ وہ علاقے میں خوف نہ پیدا نہ کر سکیں۔
پولیس کا موقف
راجن پور پولیس نے 22 نومبر 2022 کو ایک سرکلر جاری کیا جس میں تاکید کی گئی کہ شام پانچ بجے کے بعد پولیس والے تھانوں میں رہیں گے اور کسی جگہ چھاپہ مارنے کے لیے ڈی پی او سے خصوصی اجازت درکار ہو گی۔
آر پی او ڈیرہ غازی خان سید خرم علی نے بی بی سی کو بتایا کہ کچے کا علاقہ خطرناک علاقہ ہے اور اسی وجہ سے ہدایات جاری ہوئی ہوں گی۔ تاہم ان کے مطابق وہ اس مخصوص سرکلر کے بارے میں نہیں جانتے۔
سید خرم علی، آر پی او ڈیرہ غازی خان، کا کہنا تھا کہ خدا بخش لنڈ کی ہلاکت پولیس کی بڑی کامیابی ہے جس کو متنازع نہیں بنانا چاہیے۔
ان کا مؤقف تھا کہ ڈاکووں کے خلاف آپریشن جاری رہے گا اور ریاست اپنی رٹ ضرور قائم کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ڈاکوؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرائے جائیں گے۔ ’بلکہ ہم تو سوچ رہے ہیں کہ کچے کے علاقے میں انٹرنیٹ ہی بند کروا دیا جائے۔‘
تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس نے چند چوکیوں کو عارضی طور پر ہٹا دیا ہے۔
ان کا موقف تھا کہ بہار ماچھی، پتن چانڈیا چوکی اور پتن سومرو چوکی کو ایک حکمت عملی کے طور پر ہٹایا گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تھانہ سونمیانی اور بنگلہ اچھا اس وقت ریڈ الرٹ پر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گنے کی فصل کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد فائدہ اٹھا کر پولیس کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں کیوںکہ تھانہ سونیمانی کے اردگرد دیوار موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ تھانے کے اردگرد فصل کی کٹائی کریں۔
آر پی او ڈیرہ غازی خان سید خرم علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جیسے ہی حالات نارمل ہوں گے، پولیو ورکرز کو سکیورٹی دی جائے گی۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ