محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقام شکر ہے کہ کئی ہفتوں کے سیاسی پیچ وخم اور ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد ملک ایک بڑے مرحلے سے بخوبی گزر گیا اور کسی تنازع کے بغیر اہم ترین تقرریاں ہوگئیں۔ امید کرنی چاہیے کہ اب ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام بھی پیدا ہوگا۔ سیاست کی اس کِھچ کِھچ سے آپ کو باہر لانے کیلئے عرب دانش اور عرب سماج کے حوالے سے بہترین معلومات کے ذخیر ہ’’ بلوغ الارب ‘‘کی طرف چلتے ہیں۔ چار جلدوں پر محیط یہ نہایت دلچسپ کتاب اردو سائنس بورڈنے اردو میں شائع کی ہے۔ پچھلے کسی کالم میں عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کا تذکرہ کیا ۔بلو غ الارب کی پہلی جلد میں عرب کے تین غیر معمولی سخی اور فیاض لوگوں کا دلچسپ تذکرہ ہے۔مصنف محمود شکری آلوسی لکھتے ہیں:’’ ایک ہی زمانے میں حجازمیں تین سخی عبیداللہ بن عباس ، عبداللہ بن جعفر اور سعید بن العاص موجود تھے ۔ عبیداللہ بن عباسؓ کی سخاوت یہ ہے کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے ہمسایوں کو ناشتہ کرایا، پہلا شخص ہے جس نے سڑکوں پر دسترخوان لگا دئیے اور دسترخوان لٹا دئیے ۔ اس کے متعلق مدینہ کے ایک شاعر نے کہا : جس سال بارش نہ ہو تو آپ لوگوں کودودھ موٹا گوشت اور اس کے پارچے کھلاتے ہیں آپ کے والد ابوالفضل تو تمام مخلوق کے لئے رحمت، بارش اورنور کی مانند تھے عبیداللہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب چچا حضرت عباس ؓ کے بیٹے تھے ۔ ان کی سخاوت کا ایک واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے تھے، ایک شخص آیا اور بولا، حضرت عباس کے بیٹے، آپ پر میرا ایک احسان ہے اور اب مجھے آپ کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ حضرت عبیداللہ نے اس کی طرف دیکھا مگر پہچان نہ پائے ، انہوں نے پوچھا ، تمہارا کون سا احسان ہے۔ وہ شخص بولا، ایک بار آپ زمزم پر کھڑے تھے، آپ کا غلام آ پ کے لئے پانی نکال رہا تھا،آپ پر دھوپ پڑ رہی تھی، میں نے اپنی چادر کے کنارے سے آپ پر سایہ کر دیا، حتیٰ کہ آپ نے پانی پی لیا۔ حضرت عبیداللہ بن عباس نے (ازراہ مروت ) کہا ،ہاں مجھے یاد ہے اور اس بات کی یاد میرے ذہن میں موجود ہے۔ پھر اپنے مختار کار سے پوچھا ، تمہارے پاس کیا ہے؟ اس نے جواب دیا جناب دو سو دینار اور دس ہزار درہم۔ جناب عبیداللہ بن عباس نے کہا ، یہ سب رقم اسے دے دو ، اگرچہ اس رقم سے اس کا احسان کا حق تو ادا نہیں ہوتا۔ وہ شخص ممنون ہو کر بولا، خدا کی قسم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف آپ ہی ہوتے تو ان کے لئے کافی تھا، مگر ان کے کیا کہنے کہ نسل میں رحمت العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے ، مستزاد یہ کہ آپ کے والد اور آپ بھی ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار اہل بیت کے ایک نامی بزرگ کا وظیفہ بند ہوگیا، جناب عبیداللہ بن عباس کو علم ہوا تو وہ بڑے دکھی ہوئے، آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اپنے مختار کو بلایا اور کہا کہ چاندی، سونا، کپڑا، جانور غرض جو کچھ بھی میری ملکیت میں ہے، اس کا نصف میرے بھائی کے پاس لے جائو اور انہیں بتاو کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے ، اس کا نصف انہیں دے دیا، وہ اگر اس پر راضی ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ آ کر باقی آدھا حصہ بھی لے جائو۔ مختار نے جواب دیا، آپ کی اپنی ذمہ داریاں (اہل وعیال)ہیں، انہیں کس طرح پورا کریں گے؟جناب عبیداللہؓ نے مسکرا کر جواب دیا جس کا مطلب تھا کہ کسی طرح ہوجائے گا۔ ان کے پاس ایک سائل آیا، وہ انہیں ذاتی طور پر نہیں پہچانتا تھا۔ کہنے لگا، خیرات کرو، کیونکہ مجھے بتلایا گیا ہے کہ عبیداللہ بن عباسؓ نے ایک سائل کو ایک ہزار درہم دئیے تھے اور اس پر بھی عذر پیش کیا ۔ اس پر عبیداللہ بن عباسؓ نے اسے کہا، میں عبیداللہؓ کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟سائل نے کہا، آپ حسب کے اعتبار سے بات کر رہے ہیں یا مال کی کثرت کے اعتبار سے ؟ عبیداللہ نے کہا، دونوں سے۔ سائل جو کہ ایک فصیح عرب تھا، بولا،’’ انسان کا حسب اس کی مروت اور اس کا فعل ہوتا ہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور جب کر لیا تو حسب والا ہوگیا۔‘‘اس پر عبیداللہ بن عباس ؓنے اسے دو ہزار درہم دئیے اور اپنی تنگ دستی کا عذر بھی پیش کیا۔ یہ دیکھ کر سائل نے کہا، اگر تو عبیداللہ بن عباس نہیں تو یقیناًاس سے بہتر انسان ہے اور اگر وہی ہے تو کل کے مقابلے میں آج برتر ہے۔ اس پر عبیداللہ بن عباس ؓ نے اسے ایک ہزار درہم مزید دئیے ۔ اس پر سائل بولا ، یہ انداز توبلاشک ایک سخی اور حسب والے انسان کا ہے۔ اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار انصار میں سے کوئی شخص آپ کے پاس آیا اور بولا اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی، آج رات میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں نے تبرک کی نیت سے اس کا نام آپ کے نام پر رکھا ہے۔ ساتھ ہی دکھی ہوکر بولا ، اس کی ماں فوت ہوگئی ہے۔ یہ سن کر عبیداللہ بن عباس نے کہا، اللہ اس عطیہ میں برکت دے اوربیوی کی موت کی مصیبت پر تجھے اجر کثیر دے ۔ اس کے بعد اپنے مختار کو بلایا اور کہا کہ ابھی جا کر اس بچے کی پرورش کے لئے ایک لونڈی خرید لائو اور اس شخص کو بچے کی تربیت کے لئے دو سو دینار دے دو۔ پھر اس شخص سے کہا ، چند دنوں کے بعد پھر آنا، کیونکہ تم ایسے وقت میں آیا ہے جب ہماری روزی خشک اور مال کم ہے۔ یہ سن کر وہ انصاری بولے، اگر آپ حاتم سے صرف ایک دن پہلے ہوتے تو عرب حاتم کا ذکر کبھی نہ کرتے لیکن چونکہ وہ آپ سے پہلے گزر گیا ہے اس لئے آپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا بغیر سوال کے کسی کو دینا، اس مال سے کہیں زیادہ ہے جسے حاتم نے کوشش سے کسی کو دیا ہو۔، آپ کی سخاوت کے چھینٹے ، حاتم کی زوردار بارش سے زیادہ ہیں۔ عربوں میں اپنی برداشت اور حِلم اور دانائی و فراست کی وجہ سے بھی کئی لوگ نامور تھے ۔قیس بن عاصم المنقری بھی ایسے ہی ایک بڑے حلیم اور بردبار شخص تھے، یہ بعد میں صحابی رسول ﷺ بنے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار جناب قیس ؓاپنی محفل میں مخصوص انداز سے کپڑے کو پنڈلیوں اور کمر کے گرد باندھے مصروف گفتگو تھے ۔ کچھ لوگ ان کے مقتول بیٹے کی لاش اور اس کے چچا زاد بھائی کو رسیوں میں باندھے ہوئے لے آئے، لوگوں نے کہا کہ اس نے آپ کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔ جناب قیس بن عاصم نے اپنی بات جاری رکھی اور اپنے مخصوص انداز نشست کو قائم رکھا۔جب بات مکمل کی تو اس جانب متوجہ ہوئے اور کہا کہ میرا فلاں بیٹا کہاں ہے؟ وہ آیا تو اسے قیس ؓ نے حکم دیا کہ بیٹا اپنے اس چچا زاد کو آزاد کر دو۔ اپنے مقتول بھائی کو دفن کردو اور اس کی ماں کے پاس جائو اور اسے ایک سو اونٹنی دے دو ، اس لئے کہ وہ یہاں پردیسی ہے ، اس کا غم غلط ہوجائے۔ ‘‘اس کے بعد بائیں پہلو پر ٹیک لگا کر یہ اشعار کہے: میں وہ شخص ہوں، جس کے اخلا ق کو نہ میل کچیل لاحق ہوتا اور نہ ضعف عقل کہ مجھے اس باعث کوئی بے وقوف کہہ سکے احنف بن قیس التمیمیؒ مشہور تابعی بزرگ ہیں، ان کے حلم اور برداشت کے بھی بہت سے قصے مشہور ہیں۔ وہ کہا کرتے ، میں بہت سے غصے کے گھونٹ اس لئے پی گیا ہوں، اس ڈر سے کہ کہیں اس سے بھی زیادہ سخت کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائوں۔ ان کا ایک اور مشہور قول ہے: انسان جس چیز کو کثرت سے کرتا ہے، اسی نسبت سے مشہور ہوجاتا ہے۔ کریمانہ اخلاق اور حسن عمل کا نام سرداری ہے ۔ کہتے ہیں ایک شخص نے انہیں کہا، اے ابو بحر(ان کی کنیت )، مجھے کوئی ایسی قابل تعریف بات بتائیں جس میں عیب نہ پایا جاتا ہو۔ انہوں نے جواب دیا: نرم خوئی اختیار کرنا اور بری بات سے دور رہنا اور جان لے کہ بدترین بیماری فحش گوزبان اور برے اخلاق ہیں۔ وہ مصعب بن زبیرؓ کی محفل میں تھے، مصعب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے بھائی اور ان کے گورنروں میں سے ایک تھے۔ ایک شخص نے مصعب سے کسی دوسرے کے بارے میں کوئی بات کہی۔ جب اس دوسرے کو پتہ چلا تو وہ معذرت کرنے آیا۔ دوران گفتگو جناب مصعب ؓ نے اسے کہا ، یہ بات مجھے ایک معتبر آدمی نے بتائی ہے۔ حضرت احنف بن قیسؒ سے رہا نہ گیا ، بولے: اے امیر رہنے دیں، معتبر شخص کسی دوسرے کی چغلی نہیں کھاتا۔ انہی احنف کو عربوں کے فصیح ترین خطبا میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے خطبے کمال کے ہیں۔عربوں کی خطابت اور فصاحت کے کیا کہنے۔ عربی جاننے والے ہی ان کا حقیقی لطف اٹھا سکتے ہیں، ہم جیسے اردو ترجمہ پڑھنے والے بھی مبہوت رہ جاتے ہیں۔ اگلی کسی نشست میں جاہلی عرب خطبا کے مشہور خطبوں اور تقاریر کا تذکرہ بھی کریں گے، ان شااللہ۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر