دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

واہ ری جمہوریت!۔۔۔!||عاصمہ شیرازی

طاقت اور اختیار کے اس آخری مرحلے میں مقاصد اور اہداف سامنے رکھے گئے ہیں۔ آئین، قانون اور اصول کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کا لائحہ عمل اور طریقہ کار کون اور کہاں طے کر رہا ہے یہی اصل سوال ہے۔ طاقت کے کئی ایک مراکز موجود ہوں تو نتائج عوام کی تقسیم اور تفریق کی صورت ہی ہو سکتے ہیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختیار کی لڑائی میں مال غنیمت کی صورت عوام کس کے ہاتھ آئیں گے، طاقت کے حصول کی جنگ میں کس کا ہتھیار بنیں گے اور کس کا ایندھن۔۔۔ اس سے کسی کو کچھ مطلب نہیں۔

مسندِ اختیار میں کون بادشاہ گر ہو گا غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کا مسئلہ یہ نہیں بلکہ نارسائی کا دکھ ہے جس کا مداوا طاقتوروں کے پاس نہیں۔

بھوک افلاس اور ننگ کے مارے عوام پر حکمرانی کا خواب سب کا ہے مگر عوام کا ترجمان کون؟ اقتدار اور اختیار کی کہانی کے سب سے اہم کردار وہ ہیں جنھیں بھوک مٹانے سے فرصت نہیں۔

جن کے نام پر سیاست چمکائی جاتی ہے اور اختیار کی بساط بچھائی جاتی ہے وہی دراصل اس کھیل میں شامل نہیں۔ جن کی ہاتھوں کی لکیروں سے اقتدار چُرایا جاتا ہے وہی اختیار کے ہاتھوں بے بس تقدیر کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔

سیاسی میدان کے گھوڑوں میں کون آگے ہے اور کون پیچھے، عوام کے پاس سوچنے کو اب اتنا وقت کہاں۔ اختیار، اقتدار اور طاقت کے اس کھیل میں سب ہارنے والے عوام صرف اور صرف زندہ باد، مردہ باد کے نعروں لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد کے گرم آتش دانوں والے بڑے ڈرائنگ رومز میں عوام کی تکلیف میں غم غلط کرنے والی اشرافیہ شاید اس بات سے بے خبر ہے کہ وطن عزیز کی بڑی آبادی زندگی کی سانسوں کو رواں رکھنے کے لیے کس کرب سے گُزر رہی ہے۔

معاشی اعشاریوں میں آگے پیچھے لگنے والے صفر کی داستان میں منفی ہو جانے والے عوام، مثبت اعشاریوں کی آس میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تنگ داماں، تنگ دست اور کشادہ دامن تہی دست ہو رہے ہیں مگر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔

شہباز شریف

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

یوں تو گذشتہ پچہتر برس سے عوام کی تقدیر کندھے پر سجے ستاروں کے ہاتھ میں ہی رہی ہے مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کوئی مقدر کا سکندر ہے، جس کی تلاش جاری ہے۔

وزیراعظم کی مشکل دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ایک دن کے لیے مسند اقتدار پر بیٹھنے والے شہباز پرواز کے پَر اُتار بیٹھے ہیں۔ شُتر مرغ کی مانند ریت میں سر دبائے سیاسی قیادت سورج سے آنکھیں چار کرنے سے کترا رہی ہے اور وزیراعظم یوں خاموش ہیں جیسے کسی قیامت کا انتظار ہے، گزرے گی تو حساب کتاب کا وقت آئے گا۔

سویلین بالادستی اور ’ووٹ کو عزت‘ دلوانے کا خواب دکھانے والی سینیئر قیادت اپنے حقوق بچانے کی کوشش میں ہے۔

آرمی چیف کی تقرری کے لیے جن مسائل کا سامنا ہے اُس کا احاطہ صرف یوں کیا جا سکتا ہے کہ تاحال جی ایچ کیو سے آرمی چیف کی تعیناتی کی ایک سمری تک منگوائی نہیں جا سکی۔ جس ملک میں وزیراعظم کا اختیار سمری منگوانے تک بھی نہ ہو اُس ملک میں سویلین بالادستی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتی ہے۔

گذشتہ برس اکتوبر میں عمران خان نے بطور وزیراعظم ناں ناں کرتے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی مگر اپنی پسند اور اپنے وقت پر، یہاں تک کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو استعفے کی دھمکی دینا پڑی مگر چونکہ عمران خان کی پشت مضبوط تھی لہذا انھوں نے پورا اختیار استعمال کیا مگر یہ اختیار شہباز شریف استعمال کیسے کریں اس کے لیے پشت اور حوصلہ دونوں درکار ہیں، جو فی الحال دستیاب نہیں۔

طاقت اور اختیار کے اس آخری مرحلے میں مقاصد اور اہداف سامنے رکھے گئے ہیں۔ آئین، قانون اور اصول کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کا لائحہ عمل اور طریقہ کار کون اور کہاں طے کر رہا ہے یہی اصل سوال ہے۔ طاقت کے کئی ایک مراکز موجود ہوں تو نتائج عوام کی تقسیم اور تفریق کی صورت ہی ہو سکتے ہیں۔

طاقت کے جو اصول گذشتہ چند برسوں میں متعارف ہوئے ہیں اُن پر عملدرآمد کرنا اور تخلیق کردہ ’ہائبرڈ رجیم‘ کو چیلنج کرنا کم از کم روایتی سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں۔

عمران، باجوہ

،تصویر کا ذریعہTWITTER/PTI

تعیناتی اور اُس کے گرد گھومتی سیاست جی ٹی روڈ کے سفر پر ہو یا ایوان اقتدار میں براجمان، اصل اختیار کہیں اور ہے۔ عمران خان اُس اختیار کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن عوام کو طاقت دینے کے لیے نہیں بلکہ طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئے جبکہ اتحادی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کو مائل کرنے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہیں۔

واہ ری جمہوریت، اس سے بہتر ہے کہ پارلیمان کو تالا لگا کر عوام کے سامنے آئین کی سربلندی کے نعرے نا لگائے جائیں۔

پہلی، دوسری بلکہ تیسری دُنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں آرمی چیف کی تعیناتی دنوں نہیں مہینوں زیر بحث رہتی ہو، جہاں کاروبار مملکت روک دیا جاتا ہو اور صرف ’جادوئی تاریخوں‘ کا انتظار کیا جائے۔ جہاں معیشت، سیاست، سماج سب ایک طرف اور کون بنے گا آرمی چیف کا راگ دوسری طرف صبح شام الاپا جا رہا ہو۔

کہنے کو ہم عوامی جمہوریہ میں بستے ہیں تاہم عوام جمہوریہ سے کوسوں دور۔۔۔ کہنے کو جمہوریت بھی ہے مگر جمہور کی حکمرانی صرف آئین کی کتاب میں مقید اور کہنے کو ملک میں نظام پارلیمانی ہے مگر حکمرانی کسی اور کی۔

کچھ عرصہ قبل کالم میں لکھا تھا کہ وطن عزیز میں آرمی چیف منتخب کرنے کے لیے وزیراعظم تعینات کیے جاتے ہیں اور اب اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا اور نہ ہی مستقبل میں سیکھنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔

 

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author