عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو دیکھا خواب صبح ِتعبیر میں دم توڑ جائے تو شکوہ نیند سے رہتا ہے۔ کہانی حقیقت میں ڈھل رہی ہو اور سِرا چھوٹ جائے تو کرداروں سے شکوہ، مٹھی میں آتا وقت ہتھیلی سے ریت کی طرح پھسل جائے تو ہاتھ قصوروار۔۔۔
یہی کچھ گزشتہ نو ماہ کی سیاست میں ہوا ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی وہ خواہش تھی جو عمران خان کے سینے میں ہی رہی اور عین تعبیر کے وقت خواب چھین لیا گیا۔
سیاست ہر روز رنگ دکھا رہی ہے اور رنگ ڈالنے والے بھی کچھ انداز بدل رہے ہیں۔ طریقہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی تاہم کھیل کے سارے اصول وہیں سے طے ہوں گے جہاں سے ہمیشہ ہوتے آئے ہیں۔ شطرنج کے اس کھیل میں بادشاہ ہی چال چلے گا اور پیادے حکم مانیں گے۔
گزشتہ ایک سال سے وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ اور سیاست کا محور صرف اور صرف آرمی چیف کی تعیناتی اور اس کے گرد گھومتی خواہش رہی ہے۔
اس دوران کیا کیا نہیں ہوا؟ شام و سحر بدل گئے، کئی موسم گُزر گئے، حکومت اپوزیشن میں بیٹھ گئی، اپوزیشن حکومت کا حصہ بن گئی، پتے تبدیل، مہرے تبدیل، کھیل کے کھلاڑی تبدیل حتیٰ کہ میدان تبدیل۔۔۔ نہیں بدلا تو اہم تعیناتی کے گرد گھومتا پہیہ نہیں بدلا۔
سیاسی پروگراموں کا موضوع، جوتشیوں، پنڈتوں کی تپسیاؤں کا محور، چاند اور سورج گرھنوں کا پھیر، ستاروں کی چالوں کا چلن، تبصرہ نگاروں کا موضوعِ سُخن اور سیاستدانوں کی اُمیدوں کا گلشن ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ ہے نئے چیف کی تعیناتی۔
سیاست سے دور رہنے پر مجبور عسکری مقتدرہ بھی چپکے چپکے، چھپ چھپ کے روز خود کو ’غیر سیاسی‘ ہونے کا دلاسہ دیتی ہے۔ چند ایک اب بھی ’آ اب لوٹ چلیں‘ کی آس میں چاہتے نہ چاہتے، حالات ٹھیک کرنے کے پیش نظر، ’دروازے بند تو نہیں ہو سکتے‘ کے دلاسے دیتے کھڑکی کا ایک پٹ کھول لیتے ہیں۔
غیر سیاسی ہو کر سیاسی ہونے میں جو مزہ ہے وہ کسی اور میں کہاں؟ تاہم اب بھی دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی ’سیاست‘ کے رات دن۔۔۔ بہرحال ادارہ تا حال گزرے دنوں کی ’غلطیوں‘ کو ہی درست کرنے میں لگا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہونی اور انہونی کے درمیان پُل صراط پر چلتے سیاسی نظام کو اب سہارا ہے تو ’غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ‘ کا۔۔۔ یہ کردار البتہ جاتے جاتے جائے گا مگر خواہش اور خبر کے بیچ پھنسی اسٹیبلشمنٹ کردار نبھانے کی کوشش میں دو کشتیوں کی مسافر ہے۔
ایک طرف گلے پڑی محبت اور دوسری جانب محبت سے زیادہ ضرورت۔ ایک طرف پُرانا پیار اور دوسری طرف نئی دکان کا ادھار جسے چکانا ضروری ہے تاکہ آئندہ کے لیے کھاتہ بند نہ ہو۔
ایک طرف برسوں کی محنت سے تیار کردہ اثاثہ اور دوسری جانب نیا تیار کردہ بیانیہ کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی، اصلی اور وکھری ٹائپ کی ہے۔ بہرحال یہ کوشش تاحال جاری ہے، دیکھیے نظام سرخرو ہو پاتا ہے یا نہیں؟
یوں تو آرمی چیف تعینات کرنے کا اصل اختیار وزیراعظم کے پاس ہے مگر یہ بات الگ ہے کہ کئی ایک آرمی چیفس کو وزیراعظم متعین کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ اس شرف سے محروم رہ جانے والے وزرائے اعظم کو قطعی دُکھی اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس جس نے چیف لگایا، اُس اُس نے مزہ پایا۔
ذوالفقار علی بھٹو جیسے جہاں دیدہ اور دانشور، جنرل ضیا الحق کی معصومیت اور وفادار طبیعت سے دھوکا کھا گئے اور نواز شریف جیسے دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیراعظم بھی جنرل مشرف کی ’غیر سیاسی شخصیت‘ کا نشانہ بن گئے۔
جنرل راحیل اور جنرل قمر باجوہ بھی نواز شریف کا نظرِ انتخاب ٹھہرے مگر وقت نے ثابت کیا کہ چیف تو پھر چیف ہوتا ہے۔
اب کی بار آرمی چیف کی تعیناتی کا قرعہ شہباز شریف کے ہاتھ آیا ہے جبکہ اقتدار سے باہر عمران خان اس قلق میں ہیں کہ یہ قرعہ فال عین وقت پر اُن کے ہاتھ سے چھین لیا گیا۔
شہباز شریف اس اہم ذمہ داری کو کیسے نبھائیں گے یہ اُن کے لیے امتحان ہے لیکن یاد رہے کہ چھڑی جس کے ہاتھ آئے وہ اپنی مرضی سے ہی گھمائے، یعنی جس کے ہاتھ چھڑی۔۔ اُس کی طاقت بڑی۔
دیکھتے رہیے نومبر کے اختتام تک، گھڑی کی ٹک ٹک کس پر آ ٹھہرتی ہے؟ کپ اور ہونٹوں کے درمیان ابھی کچھ گھونٹ باقی ہیں۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر