دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچے کا دل کیا کہتا ہے؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اگر دل مسلسل ایک ہی رفتار پہ دھڑکتا رہے تو یہ اچھی علامت نہیں۔ مثال کے طور پہ پچھلے آدھے گھنٹے میں رفتار اگر ایک سو تیس چل رہی ہے تو کچھ گڑبڑ کا احتمال ہے۔ آئیڈیلی اسے پل پل بدلنا چاہیے، ایک سو تیس سے ایک سو پینتیس، ایک سو اٹھائیس، ایک سو بتیس، ایک سو چالیس۔ بدلتی کیفیت گارنٹی ہے کہ بچہ ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمرجنسی گھنٹی کا شور۔ ٹرن، ٹرن، ٹرن۔ بھاگو دوڑو۔ نو نمبر کی سی ٹی جی یک دم خراب ہو گئی۔ دیکھا تو بچے کے دل کی دھڑکن ایک سو چالیس سے گر کر ستر پہ آ چکی تھی۔ دو چار منٹ انتظار کیا، مریضہ کو آکسیجن لگائی، کروٹ بدلوائی لیکن دھڑکن ابھی بھی ستر۔ یہ اعلان تھا کہ بچہ موت کی سرحد پہ ہے، پندرہ منٹ کے اندر اندر اسے دنیا میں آنا چاہیے۔ معائنہ کیا تو رحم کا منہ صرف چھ سینٹی میٹر۔ سیزیرین کرو فورا۔ کریش سیزیرین۔ جس کے لیے انیستھیزیسٹ اور آپریشن تھیٹر کا سٹاف علیحدہ سے ہر وقت تیار۔ تام جھام میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کام گولی کی رفتار سے۔

لیجیے جناب سیزیرین سے دس منٹ کے بعد بچہ باہر۔ اور دل کی دھڑکن ڈوبنے کا سبب بھی نظر آ گیا۔ آنول اکھڑ چکی تھی اسی لیے بچے کو ماں کی طرف سے آتی آکسیجن منقطع ہو گئی تھی۔ دل ڈوبتا نہیں تو اور کیا کرتا؟ بچہ ناصر کاظمی تو تھا نہیں کہ کہتا وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا۔

لیکن بہت دیر تاسف سے ہم سوچتے رہے کہ اگر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بنے سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں کوئی زچہ درد سے تڑپتی ہو، آنول اکھڑ جائے تو کیا ہوتا ہو گا؟ نہ سی ٹی جی مشین ہو گی۔ اور اگر ہوئی بھی تو اس کو سمجھنا اور پھر دس منٹ میں آپریشن کرنا۔ کیسی باتیں کرتی ہو؟

سوچا تو کافی دن سے تھا کہ سی ٹی جی پہ لکھنا ہے۔ آپ بھی تو جانیں کہ موئے انگریزوں نے کیا کیا کھیل ایجاد کر رکھے ہیں، گناہ گار عورتوں کی داد رسی کے لیے۔

بھرے مجمعے میں سٹیج پہ چڑھ کر سوال پوچھنا بہت پسند ہے ہمیں۔ اب سے نہیں، بچپن سے۔ کیا کریں اگر ہر یاد کا ٹانکہ بچپن سے جڑتا ہو؟ ندا فاضلی نے شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا ؛

کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی

ایک بار ڈاکٹروں کو لیکچر دیتے ہوئے آغاز اس سوال سے کیا کہ بتائیے دنیا میں انیس سو انسٹھ میں کیا نیا ہوا؟ سب سوچ میں پڑ گئے۔ تجسس سے دیکھنے لگے ہمیں۔ ارے بھئی جس کو فلم دیکھنا پسند ہو، وہ جان لے کہ پلینٹ آف دی ایپس ریلیز ہوئی تھی اس برس اور سائنسی ذہن والے سمجھ لیں کہ دنیا کے سائنس بازار میں پہلی سی ٹی جی مشین لانچ کی گئی جو زچگی کے معاملات میں انقلاب لے آئی۔

کیا ہے یہ سی ٹی جی؟

آپ نے اکثر ڈاکٹروں کے منہ سے سنا ہو گا، ابھی درد اچھے نہیں۔ اچھے درد سے مراد طاقتور درد جن کی مدت پینتالیس سیکنڈ سے ایک منٹ تک ہو، پھر کچھ وقفہ آئے اور پھر اگلا درد شروع ہو۔ دس منٹ میں کل تین سے چار طاقتور درد ہونے چاہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو بچے کے دماغ اور دل کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

ہر درد کے دوران رحم سکڑتا اور بچے کو نیچے کی طرف دھکیلتا ہے۔ اس سکڑنے اور دھکیلنے کے عمل میں بچے کو آنول کے ذریعے ماں سے پہنچنے والی آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ وقفہ صرف ایک منٹ تک ہوتا ہے اس لئے جب درد ختم ہوتا ہے تب بچے کو دوبارہ آکسیجن پہنچنا شروع ہو جاتی ہے جب تک اگلا درد نہ آ جائے۔

بچے کو آکسیجن پہنچنے کے مراحل کا حساب بچے کے دل کی دھڑکن کے ریکارڈ سے رکھا جاتا ہے اور یہ ریکارڈ کارڈیو ٹوکو گرافی

‏ ( Cardio toco graphy) یا CTG کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا یہ مشین 1969 میں مارکیٹ میں آئی۔

‏CTG بچے کے دل کی دھڑکن ریکارڈ کر کے ایک گراف بناتی ہے، بالکل ای سی جی کی طرح جسے سب جانتے ہیں۔ سی ٹی جی مشین کا ایک پرزہ بیلٹ کے ذریعے زچہ کے پیٹ پہ باندھا جاتا ہے جو دل کی دھڑکن کے ساتھ درد کی شدت بھی ریکارڈ کرتا ہے۔ اس گراف کو دیکھ کے نتیجہ اخذ کرنے کی مہارت ہر سپیشلائزیشن کے امتحان کا لازمی جزو ہے۔ زچگی کے عمل کے دوران کبھی بھی اگر CTG کا گراف نارمل حد سے نکل کے بگڑ جائے تو لا محالہ پندرہ منٹ سے تیس منٹ کی مدت تک بچہ پیدا کروانا لازمی ہے۔ ورنہ بچے کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں دماغی طور پہ ابنارمل بچہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

رحم سے بچہ اس وقت تک باہر نکل نہیں سکتا جب تک رحم کا منہ دس سینٹی میٹر یعنی چار انچ تک نہ کھل جائے۔ درمیانے سائز کے بچے کے سر کا ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک کا سائز ساڑھے نو سینٹی میٹر ہوتا ہے۔

اب آپ بتائیے اگر CTG بگڑ جائے اور رحم کا منہ ابھی دس سینٹی میٹر سے کم کھلا ہو تو بچے کو کیسے باہر نکالیں؟ اوزار لگنے کا مرحلہ بھی تب آئے گا جب رحم کا منہ دس سینٹی میٹر کھل چکا ہو اور سر بھی ایک خاص پوائنٹ سے نیچے آ چکا ہو۔

سرکاری ہسپتالوں کی بدقسمتی کہ بارش کے قطروں کی طرح برستے مریضوں کے لیے چند مشینیں۔ ایک انار سو بیمار۔ ایک مریض کے ساتھ ایک مشین ہو، ایسی عیاشی کیسے ممکن؟ بعض مرتبہ نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ مشین میں ڈالا جانے والا گراف پیپر ہی نہیں ملتا۔ مشین بھلے چلتی رہے، گراف نکلے گا نہیں جیسے کوئی ای سی جی کی تاریں لگا دے مریض کو، مشین چلائے اور گراف پیپر غائب۔ تشخیص کیا خاک ہو گی؟

انیس سو چھیانوے میں نشتر ہسپتال کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔ مشین سے گراف پیپر تو برآمد نہ ہوتا، بس لب ڈب، لب ڈب آواز نکلتی رہتی اور ہم سب اندازہ لگاتے رہتے کہ آواز تیز ہو گئی تو شاید ٹھیک ہے، اب آہستہ ہے تو بچہ بری حالت میں جا رہا ہے۔ ایسے ہی گزر گئے چار برس۔ جب امتحان سر پہ آ پہنچا تو لالے پڑے کہ گراف پیپر دیکھا کبھی کبھار، پڑھنا آتا نہیں، امتحان میں کیا جواب دیں گے؟

خیر کتابوں سے گراف ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر مشق کی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی؟

خیر وہی ہوا، پون گھنٹے کے زبانی امتحان میں کئی مرحلے ایسے آئے کہ لگا اب ڈوبے کہ اب۔ لیکن نیا پار لگ ہی گئی۔ سی ٹی جی گراف ہاتھ میں تھاما تو لرزتے ہاتھوں کے ساتھ مگر میز پہ واپس رکھا تو ہاتھ مسکرا رہے تھے۔

سی ٹی جی کے گراف پیپر کی بھی ایک علیحدہ ہی مصیبت ہے۔ ہر بچہ پیٹ میں اتنا ہی مختلف ہوتا ہے جتنا باہر نکل کے۔ جیسے ہر کسی کے کان ناک آنکھ کی ساخت اپنی اپنی، کسی اور سے سو فیصد مشابہ نہیں ہو سکتی، اسی طرح اندرونی اعضا دل، جگر دماغ کی بنیادی ساخت ایک سی مگر پہچان اپنی اپنی۔

سی ٹی جی کا گراف اس قدر متنوع ہوتا ہے کہ اس کو جانچ کے بچے کی حالت کے بارے میں فیصلہ کرنا بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے۔ اس میں مہارت برسوں کی ریاضت کی متقاضی ہے۔

سی ٹی جی گراف میں چار نقاط دیکھے جاتے ہیں۔
دل کی دھڑکن کی رفتار ؛
ایک سو دس سے ایک سو ساٹھ کے بیچ ہونی چاہیے
دل کی دھڑکن کا پل پل بدلنا؛

اگر دل مسلسل ایک ہی رفتار پہ دھڑکتا رہے تو یہ اچھی علامت نہیں۔ مثال کے طور پہ پچھلے آدھے گھنٹے میں رفتار اگر ایک سو تیس چل رہی ہے تو کچھ گڑبڑ کا احتمال ہے۔ آئیڈیلی اسے پل پل بدلنا چاہیے، ایک سو تیس سے ایک سو پینتیس، ایک سو اٹھائیس، ایک سو بتیس، ایک سو چالیس۔ بدلتی کیفیت گارنٹی ہے کہ بچہ ٹھیک ہے۔

رفتار کا بہت زیادہ یا بہت کم ہو جانا؛

دو سے آٹھ تک رفتار بدلتی رہے تو خوش آئند لیکن اگر رفتار کی تبدیلی پہ دھڑکن یک لخت کم ہو کر ایک سو تیس سے ستر پہ آ جائے اور پانچ منٹ تک ستر ہی رہے تو یہ بہت ہی بری علامت ہے۔ معنی یہ کہ بچے کو آکسیجن کم ہو گئی، اب اسے جلد از جلد باہر نکالیں۔

تیس برس ہو گئے سی ٹی جی پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے لیکن یقین جانیے ابھی بھی جب کوئی ایسا گراف سامنے آ جائے جس سے معنی اخذ کرنے مشکل ہوں، تو سوچتے ہیں کیا عجب شے ہے انسان کا دل بھی۔

اب آپ یہ خود جانیے کہ کس ہسپتال میں مریضہ کو درد زہ میں گھنٹوں سی ٹی جی مشین چلنے کی عیاشی میسر ہے؟ کون سا ڈاکٹر سی ٹی جی پڑھنے کا اہل ہے؟ کہاں پہ گراف پیپر مشین کے ساتھ مہیا ہے؟ اور اگر ہے تو کتنا؟ یاد رکھیے دس منٹ کا ٹوٹا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اور یہ بھی سوچیے کہ چھوٹے شہروں اور قصبات میں کیا یہ مشین اور مشین کو استعمال کرنے والے موجود ہیں؟
پاکستان میں زچہ ماؤں اور بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے اسباب یہی سب تو ہیں۔
سی ٹی جی ہم نے کیسے سیکھی؟ اس کا احوال اگلے بلاگ میں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author