ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ امریکی کانگریس کے اراکین ان کی ملاقات کے لئے آئے۔ نواب صاحب کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کے مسائل بذات خود کچہری لگا کر سنا کرتے تھے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ امریکی وفد کی موجودگی میں بھی یہ کچہری جاری رہی اور وہ بغور یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ نواب صاحب ہمیشہ انشاء اللہ کی جگہ خالص میانوالی کے لہجے میں ”اللہ کریسی“ یعنی اللہ کرے گا کہا کرتے تھے چنانچہ وہ کسی سائل کی بپتا سنتے تو ازالے کے لئے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ کی تسلی کے لئے ’اللہ کریسی‘ کہتے جاتے۔
کچہری ختم ہوئی تو ایک امریکی رکن کانگریس نے پوچھا: بیوروکریسی، ٹیکنو کریسی وغیرہ تو سنا تھا لیکن یہ ”اللہ کریسی“ کون سا سا سسٹم ہے؟
نواب صاحب نے مسکرا کر جواب دیا: اللہ کریسی وہ نظام ہے جس پر پاکستان چل رہا ہے۔
اب اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مملکت خداداد کا نظام واقعی ہی اللہ کریسی کے تحت چل رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق آپ خود بھی اپنے گردوپیش کا جائزہ لے کر کر سکتے ہیں آپ کو اللہ کریسی کا نظام ہر جگہ نظر آئے گا۔ ادارے، افسران اور ان افسران کے نیچے کام کرتے ہوئے بابو سب علامتی اور محض رسمی کارروائیاں کرتے نظر آئیں گے تاکہ مملکت کا نظم و نسق چلتا ہوا نظر آئے۔
ٹریفک کو دیکھ لیں۔ دنیا میں ہر جگہ ٹریفک قوانین لاگو ہیں جبکہ یہاں پر جو بھی بخیریت گھر پہنچا اللہ کے فضل وکرم سے ہی پہنچا ہے۔ امن وامان کے قیام کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کرتے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کو پکڑتے ہیں تاکہ معاشرہ میں امن ہو اور لوگ سکون کی زندگی بسر کرسکیں۔ جبکہ ہمارے ہاں اگر کہیں پر ڈکیتی ہو جائے تو شریف آدمی تھانے جانے سے کتراتا ہے اور جس کا مال اسباب محفوظ رہتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کریسی کی بدولت محفوظ ہوتا ہے۔ وگرنہ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ اس عہد ناگوار میں ہر غریب کی جمع پونجی لٹ رہی ہے مگر ہمارے سلطان ہیں کہ اپنی بھول کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
صحت کی سہولیات کو دیکھ لیں کہ دیہاتوں میں اتائی اب مسیحا بنے ہوئے ہیں اور بیمار ان سے علاج کے بعد شفا یاب بھی ہو رہے ہیں اور یہ سب اللہ کریسی کی ہی بدولت ہے۔ تعلیم کے شعبہ کی تو حالت ہی ابتر ہے جان بوجھ کر یہاں حالات ٹھیک نہیں ہونے دیے گئے کہ اگر تعلیم کا معیار ہر خاص و عام کے لیے بہتر کر دیا تو کل یہ نوکری مانگیں گے قانون کی بالادستی کی بات کریں گے۔ لہذا اتنی حوصلہ شکنی کرو کہ پرائمری سے ہی لوگ مایوس ہو کر بھاگ جائیں اور جو کسی نا کسی طرح پڑھ لکھ گئے تو اس کا کریڈٹ اللہ کریسی کے علاوہ کس کو دے سکتے ہیں۔
70 سال سے زیادہ ہو گئے ملک کو بنے ہوئے نا تو جمہوریت راس آئی اور نا ہی آمریت کو اپنا سکے۔ گویا اپنا حال بھی اس نامراد عاشق سا ہے جو محبوب پاس ہوتو بھی بے چین اور محبوب دور ہوتو پھر بھی اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ آمریت میں جمہوریت کی یاد ستاتی ہے اور جمہوریت میں ہم سڑکوں اور چوراہوں پر جانے کی باتیں جانے دو کے پوسٹر لگاتے پھرتے ہیں۔
معاشی حالت یہ ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں کبھی نہیں پھیلائے۔ مغلیہ دور چلا گیا مگر سر سے شاہی عادات نہیں نکل سکیں بوئے سلطانی ہے کہ ختم نہیں ہو رہی شاہی عادات ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ملک کا سال کا اخراجات کا گوشوارہ بناتے ہیں جس میں آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ خسارے کے بجٹ پر جب ذہین فطین ماہر معاشیات سے پوچھا جاتا ہے کہ خسارہ کیسے پورا ہو گا تو جواب جو بھی ملے اس کا بہرحال مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ کریسی کچھ نا کچھ انتظام ہو ویسی۔
قرض کی مے پیتے ہیں سیاست سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور حوصلہ یہ کہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔ کرہ ارض پر موجود ہر پنگے میں ہاتھ ڈالنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ گویا اپنے عہد کے بنی اسرائیل بنے ہوئے ہیں لاڈ کیے جا رہے ہیں اور قرض کا من و سلویٰ ہے کہ اترتا جا رہا ہے مگر بھوک ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
معاشی حالات سے سے بے خبر ہم لوگ لانگ مارچ نکالنے اور اس لانگ مارچ کو روکنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کے ایک طبقے کے مطابق کل کے چور آج سازش کر کے تخت نشین ہو گئے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ آج کا چور سازش کر کے گزشتہ کل اقتدار میں آیا تھا۔ چور چور کا کھیل جاری ہے۔ بالفرض دونوں کا موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر ان چوروں کو پکڑنے والے کہاں ہیں قانون کہاں ہے؟
زندگی اس سے زیادہ سہل کیا ہوگی کہ کروڑوں لوگ سیلاب کی وجہ سے اذیت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ہم جمہوریت کو بچا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ نے کبھی سوچا ہے کہ جاڑے کے دنوں میں بنا گھر کے کون سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ مگر قدرتی آفات سے کون لڑ سکتا ہے یہ تو تقدیر کا لکھا ہے۔ کتنا آسان ہے اپنی نالائقیوں اور نا اہلی کو تقدیر کا نام دے کر جان خلاصی کرلینا سو تقدیر میں لکھا تھا تو ایسے ہو گیا پہلے بھی تو قدرتی آفات آتی رہی ہیں پہلے بھی اللہ کریسی نے مدد کی اور اب بھی اللہ کریسی کا نظام دکھوں کا مداوا کرے گا۔ کیوں کہ کامل ایمان ہے کہ ہم کچھ کریں یا نا کریں اللہ ضرور کریسی۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ