محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز دیکھنے کا موقعہ ملا تو بعض پروگراموں میں واضح طور سے محسوس ہوتا ہے کہ بعض شرکا کوصرف اپنی بدزبانی اور تندوتیز جملے بازی کی وجہ سے موقعہ ملا ہے، ورنہ ان کا پولیٹیکل پروفائل زیادہ نہیں ۔ پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا نے نئے ٹرینڈز قائم کئے اور فیس بک، ٹوئٹر کے پلیٹ فارم پر مخالفین کے پرخچے اڑانے والے ”کی بورڈ وارئیرز“ اہم ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ٹاک شوز میں بدتمیزی، اونچا بولنے اور مخالف سیاسی قائدین اور جماعتوں کا تمسخر اڑانے، ان پر عامیانہ ذاتی حملے کرنے والے بھی اہم گردانے جاتے ہیں۔ لیڈر صاحبان ایسے ساتھیوں کومحبت کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنے قریب کر لیتے ہیں، ان میں سے بعض وزارتوں سے نوازے جاتے ہیں۔
ایک زمانہ میں یہ کام شاعر صاحبان کیا کرتے تھے، وہ مخالفین کے خلاف مخصوص انداز کی طنزیہ شاعری کرتے ، اس صنف کو” ہجو “کہا جاتاہے۔ ہَجو(Hajv)۔اردو میں میر سودا کی ہجویہ شاعری مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا ایک ملازم غنچہ نام کا تھا۔ جب بھی سودا ناراض ہوتے ، آواز لگاتے، غنچہ، لانا تو میرا قلم دان۔ قلم دان آتے ہی حضرت ہجویہ اشعار کی بھرمار کر دیتے ۔ ہجو کہنے والے اور بھی بہت سے شاعر تھا۔ انشااللہ خان بڑے زود گو تھے، دربار میں بیٹھے بیٹھے معاصر شاعروں کے خلاف ہجویہ اشعار کہہ ڈالتے۔ دلی اور لکھنو ہندوستان کے دوبڑے ادبی مراکز تھے، وہاں بے شمار نت نئے تخلیق کار رہتے۔ ہجویہ شاعری کا مقابلہ بھی ہوتا۔ ایک بڑے شاعر یا اس کے حلقے کی جانب سے ہجو کہی جاتی، جواب میں مخالف گروہ ہجو کہتا۔ ادبی محفلوں میں یہ ہجویہ شاعری زیربحث لائی جاتی۔
ہجویہ شاعری کی ابتدا عربی شاعری سے ہوئی۔ آج کل پھر سے کتابوں کی طرف توجہ مبذول کی ہے تو عربی شاعری میں ہجویہ اشعار پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ عربی نہ جاننے کے باعث میرا انحصار اردو تراجم پر یا اس حوالے سے لکھی اردو کی کتابوں پر رہتا ہے۔ محمد کاظم مرحوم کی شاندار کتاب” عربی ادب کی تاریخ“ میرے جیسوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چند سو صفحات میں کاظم صاحب نے جاہلی عربی شاعری اور سبع معلقات سے لے کر اسلام کے ابتدائی دور، بنوامیہ، بنو عباس اور اس کے بعد کے ادوار میں ہونے والی عربی شاعری اور کسی حدتک نثر نگاروں کے حوالے سے اتنی عمدہ اور جامع معلومات اس ایک کتاب میں جمع کر دی ہیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔
مصر کے مشہور ادیب استاذ احمد حسن زیات کی کتاب” تاریخ ادبِ عربی “بھی بہت عمدہ ہے۔ایک اور بڑی شاندار کتاب جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے لکھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جاہلی عربی شاعری پر مشہور ادبی جریدے سویرا میں سلسلہ وار مضامین لکھتے رہے ہیں۔ یہ مضامین اکھٹے ہو کر کتابی صورت میں” عربی ادب قبل از اسلام “ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، اس کی پہلی جلد میرے پاس ہے، دوسری جلد کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی، اسے ابھی نہیں پڑھ سکا۔ برادرم سعود عثمانی نے اپنے اشاعتی ادارے مکتبہ اسلامیات سے اسے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی کتاب کے بارے میں کاظم صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے تو عام لوگوں کے لئے کتاب لکھی، مگر رضوی صاحب کی کتاب نہایت عالمانہ ہے اور اس کی حقیقی قدر عربی ادب میں دلچسپی رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں کہ کتنا بڑا کام انہوں نے کر ڈالا ہے۔
خیر ان بڑے لوگوں کی وجہ سے ہم جیسوں کو بھی عربی ادب کے اس خاص ذائقے کا تھوڑا بہت اندازہ تو ہوا۔ عربی ادب میں ہجو نگاری کے حوالے سے کاظم صاحب نے لکھا کہ جاہلی عرب معاشرے میں افراد اور قبائل کے باہمی مقابلے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے، دوسرے کو نیچا کرگزرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ہجویہ شاعری کا رجحان بنا ۔ اس حوالے سے تین شاعر بڑے مشہور ہوئے، اخطل، فرزدق اور جریر ۔
اخطل کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مسیحی تھا،اموی خلفا عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک کے زمانے میں اسے عروج رہا، دربار میں اسے بلند درجہ ملا کیونکہ خلیفہ بہت آزاد خیال تھا۔ بعد میں ہجو کے حوالے سے فرزدق اور جریر میں بڑا مقابلہ رہا۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف ہجویہ شاعری کرتے۔ رفتہ رفتہ اس میں عامیانہ پن بھی آیا اور خاص کر جریر نے فرزدق کے خلاف گھٹیا ذاتی حملے کئے، اس کی اہلیہ کے خلاف فضول شعر کہے۔
فرزدق وہی مشہور شاعر ہے ، روایت کے مطابق جو جناب امام حسین ؓ کوکوفہ جاتے ہوئے راستے میں ملا اور اس نے اپنا مشہور فقرہ کہا کہ کوفیوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلوار یں ابن زیاد کے ساتھ۔ فرزدق کا تعلق بڑے خاندان سے تھا، اس کے اجداد میں ایک بڑے مشہور سردارصعصہ تھے جن کو امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے کئی سو بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا۔ انہیں پتہ چلتا کہ فلاں قبیلے میں فلاں شخص کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے اور وہ اسے زندہ دفنانا چاہتا ہے تو وہ اس کے پاس جاتے اورنوزائیدہ بچی کے باپ کو بہت سے اونٹ اور مال دے کر بچی کی جان بچا لیتے، اسے اپنے گھر لے آتے اور پرورش کر کے کسی مناسب جگہ شادی کر دیتے۔ فرزدق نے اپنی شاعری میں بھی اپنے اس نسب کو فخریہ انداز میں بیان کیا۔
جریر اس کے برعکس ایک معمولی گھرانے کا تھا۔ اس کا باپ بھی معمولی اوصاف کا مالک تھا، جریر نے مگر اپنی محنت اور ذہانت سے شاعری میں نئی راہیں نکالیں۔ اس کے بہت سے شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ ابتدا میں حجاج بن یوسف سے وابستہ تھا، حجاج نے اسے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے پاس دربار بھیجا۔ عبدالملک جریر سے ناراض تھا۔ جریر دربار میں گیا ، اس نے خلیفہ عبدالملک کے لئے لکھا گیا قصیدہ سنانے کی اجازت مانگی۔ خلیفہ نے ہاں تو کر دی، مگر دل میں طے کیا کہ میں نے انعام بالکل نہیں دینا۔جریر شعر سناتا رہا، خلیفہ خاموش رہا، حتیٰ کہ جریر نے ایک ایسا مدحیہ شعر سنایا کہ عبدالملک بن مروان پھڑک اٹھا، بے اختیار وہ مسکرایا اور کہا کہ ہم و اقعی ایسے ہی فیاض اور کشادہ دل ہیں۔ اس نے جریر کو سو سرخ اونٹ دے کر رخصت کر دیا۔کہاجاتا ہے کہ وہ شعر یہ تھا© ©:
کیا آپ ان سب لو گوں سے بہتر نہیں ہوجو کبھی سواریوں پر بیٹھے
اورآپ کی ہتھیلیاں کل عالم سے بڑھ کر سخی نہیں ہیں
فرزدق اور جریر کے مقام کے حوالے سے اس زمانے میں بہت مباحث چلتے تھے ، ایک حلقہ جریر کو افضل مانتا جبکہ دوسرا فرزدق کی فضیلت کا قائل تھا۔ دونوں اپنے اپنے دلائل دیتے۔ دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف لکھے ہجویہ اشعار مشہور ہوئے اور بطور مثال سنائے جاتے۔ فرزدق نے جریر کے خلاف ایک ہجویہ نظم میں کہا:
”اے جریر جب تم بلند مقام تک پہنچنے کی کوشش کرو گے تو تمہیں
اس میں بڑی دشواری ہوگی اور تکلیف اٹھانا پڑے گی
جو ستاروں سے بھی پرے ہیں، تم ان تک ایک رسی اور گدھے کو لے
کر پہنچناچاہتے ہو، جس کی پیٹھ پر زخم ہیں
برے اور ذلیل اہل قبیلہ جریر کے باپ بنے اور گھٹیا درجے
کی عزت ان کی رہی، جس کے پیچھے ذلت ورسوائی ہے “
فرزدق کے مقابلے میں جریر کے پاس گِنوانے کو اپنا نسب تھا نہ مال دولت، لے دے کر صرف اس کی تیز کاٹ دار زبان تھی، جس کا اس نے بھرپور استعمال کیا ۔ فرزدق پر اپنے ایک ہجویہ حملے میں وہ کہتا ہے :
” فرزدق کی ماں نے ایک مخلوط النسل کو جنم دیا ہے، چھوٹے بازوں والے، گناہ کی پوٹ کو
اگر فرزدق کو اپنے ہاں سے نکال دو گے تو یہ مسجد اور قلعہ راقم کے درمیان تمام علاقے کے لئے باعث پاکیزگی ہوگا
جب ایام جنگ کا ذکر ہوگا تو تم (اپنے قبیلے)بنو دارم کے لئے باعث شرم ہوگے،
اے غلام زادے تمہیں دارم کے ایام بدنام کر دیں گے “
جریر کا ایک اور کمال کا طنزیہ شعر ہے© © :
”فرزدق کا خیال ہے کہ وہ” مربع“کو قتل کر دے گا، لو اے مربع اب تم لمبی عمر کی خوشی مناﺅ۔“
فرزدق اور جریر کے مداحین آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے کہ ہمارا ممدوح عظیم شاعر ہے۔ کہتے ہیں کہ خارجیوں کے خلاف جنگ میں مصروف نامور اموی سردار مہلب بن ابی صفرہ کے لشکر میں اس پر لڑائی ہوگئی، جوانوں نے اسے منصب بنانا چاہا ،مگر سردار مہلب کو ان دونوں ہجو نگار شاعروں سے خوف تھا کہ جسے کمتر کہا، اس نے ہجو کہہ دینی ہے۔ مہلب نے کہا کہ اس کا فیصلہ ایک کمال کا سخن فہم عبید بن بلال کر سکتا ہے۔ اتفاق سے وہ خارجی لشکر کی جانب سے لڑ رہا تھا۔ اگلی صبح مہلب کے لشکر کے سپاہیوں نے اسے آوازیں دیں، وہ سمجھا کہ مجھے مقابلہ کے لئے بلایا گیا، وہ نیزہ تانے لڑنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ بتاﺅ جریر بڑا شاعر ہے یا فرزدق ۔ عبید بن بلال بڑا بھنایا۔ اس نے کہا تم پر بھی اور ان دونوں پر بھی خدا کی لعنت ہو۔ اصرار جاری رہا تو اس نے کہا وہ شاعر بڑا ہے، جس نے یہ شعر کہا، ترجمہ : ”اس نے گھوڑوں کے پیٹ رسی سے اس طرح باندھے جیسے تاجر حضرموت میں چادروں کو لپیٹتے ہیں“اسے کہا گیا کہ یہ شعر تو جریر کا ہے، اس نے جواب دیا، ہاں وہی ان دونوں میں سے بڑا شاعر ہے۔ (جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر