ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان پر حملے کے خلاف پی ٹی آئی کی طرف سے تیسرے روز بھی ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا، کئی شہر میدان کارزار بنے رہے، کاروبار بند رہے، گزشتہ روز حامی وکلاء نے بھی ہڑتال کی، عمران خان نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ ٹھیک ہوتے ہی پھر سڑکوں پر نکلوں گا جبکہ عمران خان کے حلیف شیخ رشید نے خبر دی ہے کہ 10 سے 15 دن تک عمران خان راولپنڈی پہنچ کر براہ راست لانگ مارچ کریں گے۔ دوسری طرف ملکی حالات کو سدھارنے کی بجائے حکومت کے کچھ زعماء یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے ڈرامہ رچایا، حالانکہ اس بات پر کوئی بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ جو مبینہ ملزم گرفتار ہوا ہے اس کے بارے میں بھی آئے روز نئی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں، اب ملزم کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے اور اسے نشے کا عادی بتایا جا رہا ہے۔ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے معاملے پر آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے اپنا چارج چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی حکومت کو خط میں لکھا کہ وہ اپنا کام مزید جاری نہیں رکھ سکتے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا تھا کہ اگر آئی جی پنجاب ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں ۔ یہ بھی دیکھئے کہ وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو معطل کر دیا ہے، ان پر پی ٹی آئی کارکنوں کے گورنر ہائوس کے باہر جلائو گھیرائو ، گیٹ پر چڑھنے اور گورنر ہائوس کو تحفظ دینے میں غفلت برتنے کا الزام ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے وزیر آباد واقعہ اور عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کیلئے فل کورٹ کمیشن بنانے کی درخواست کرنے کا کہا ہے اس حوالے سے وہ چیف جسٹس کو باضابطہ خط تحریر کر کے درخواست کریں گے ۔ وزیر اعظم نے ابھی درخواست نہیں بھیجی ، درخواست بھیجیں گے ، یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ فل کورٹ کمیشن تشکیل دیتی ہے یا نہیں، تاہم یہ نوبت آنے تک پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ جائے گا۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اچھی بات ہے کہ عمران خان نے صورتحال پر غور کیلئے پارٹی کا مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ چار دن گزرنے کے باوجود مقدمے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مقدمے کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان نے جن تین عہدیداروں کے استعفے کا بڑا مطالبہ کیا وہ منظور نہیں ہوگا لیکن اس صورت میں وہ احتجاج جاری رکھیں گے ، وہ احتجاج جس کو لانگ مارچ کا نام دیا گیا تھا یقینی طور پر اس کے اختتام کی ایک مدت تھی اور وہ مزید ایک ہفتے تک شاید ختم کرنا پڑتا لیکن عمران خان نے محدود مدت تک رہنے والے لانگ مارچ کے احتجاج کو غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والے احتجاج میں بدل دیا ہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی ہے کہ جب ان کے نامزد کردہ تینوں بڑے عہدیدار استعفیٰ نہیں دیتے ان کی جماعت احتجاج جاری رکھے گی۔ اگر پس منظر میں جائیں تو سیاسی حوالے سے جتنے سیاسی لیڈر قتل ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کا نتیجہ سامنے نہ آیا بلکہ دہشت گردی کے واقعات پر بھی ابھی تک تہہ جمی ہوئی ہے۔ کار ساز کراچی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے قافلے پر خودکش حملے کے بعد دنیا دیکھنا چاہتی تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کس قسم کا رد عمل ظاہر کرنا چاہتی ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ دونوں لیڈروں کے تقابل کا موقع نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اس موقع پر اپنی پوری قیادت کیساتھ بیٹھ کر پوری دنیا کے میڈیا کواپنے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل سے آگاہ کیااور حملے کے ذمہ داروں کو یہ تاثر دیا کہ ان کی جماعت متحد ہے اور وہ مقابلہ کرے گی مگر بعد میں سب نے دیکھا کہ پارٹی میں بھی دراڑیں پڑیں ۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں ان تین ناموں کو دہرایا جو حملے کے بعد ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل بتا چکے تھے، باقی جو گفتگو عمران خان نے کی ان میں وہ تمام باتیں تقریباً ہر موقع پر اور ہر مقام پر کرتے رہتے ہیں، عمران خان نے تین افراد کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اب بات کو آگے بڑھنا چاہئے ،یہ سب کا مطالبہ ہے کہ انصاف ملنا چاہئے مگر آج تک انصاف کسی کو نہیں ملا۔ ایسا لگتا ہے کہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا، اسے کم کرنے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں، حکومت لانگ مارچ روکنا چاہتی تھی وہ رک گیا ہے، اب کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا چاہئے۔ گزشتہ حالات و واقعات کو سامنے رکھیں تو یہ بات عیاںہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے مزاج کے مطابق اس الزام کی صداقت پر ڈٹے رہیں گے اور مزاحمت کا عمل بھی جاری رکھیں گے ۔ حملے کے بعد عمران خان کے الزام سے جہاں انہیں حکومت کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا ہے ، وہاں انہیں پنجاب میں حلیف جماعت (ق) لیگ اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ براہ راست شروع ہونے والے اختلافات کا بھی سامنا ہے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایف آئی آر کی تاخیر پر تشویش ظاہر کی ہے اور حکومت پنجاب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے، تاہم عمران خان نے یہ کہہ کر تضادات کو کم کرنے یا پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سسٹم کی ناکامی ہے۔ وسیب کے حوالے سے ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ دن بزرگ سیاستدان اور سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ شیرمزاری 95 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کا تعلق مزاری قبیلے سے تھا ۔سردار ، میر بلخ شیر مزاری 8 جولائی 1928ء کو کوٹ کرم خان میں اکیسویں سردار اور مزاری قبیلے کے چھٹے میر مراد بخش خان مزاری کے ہاں پیدا ہوئے، انہیں 1933ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد مزاری قبیلے کا چیف بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر