شرافت رانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ۔ نہ چاہتے ہوئے ایک عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ کبھی پی پی پی سے کسی بھی عہدے کی نہ ڈیمانڈ کی نہ خواہش ۔ مقصد یہ نہیں کہ میں غنی ہوں ۔ انسان سے بڑی کوئی مخلوق ہوں ۔ مگر سوشل میڈیا پر آمد ایک حادثہ تھی ۔ فارغ وقت ملا ۔ میڈیا ۔ قانون اور جمہوریت میری دلچسپی کے موضوعات تھے ۔ سوچا کہ جس طرح عمران خان نواز شریف آب پارہ کی نرسری میں تیار کئے گئے ۔ اسی طرح دیگر شعبہ ہائے حیات پر بھی آبپارہ کی نظر کرم ہمیشہ سے رہی ہے۔ لیکن دیگر شعبہ ہائے عوام کے سامنے ایکسپوز نہیں ہوئے ہیں ۔ میڈیا کے بنائے اور پھیلائے تصورات کے متصادم حقائق پر روشنی ڈالنا شروع کی تو ایک قافلہ سا بن گیا۔
سچ ، حقیقت اور اصلی جمہوری تصورات لکھے اور بیان کئے۔ میرے لیے یہ ایک بےروزگاری کے دنوں میں وقت گزاری کا مشغلہ تھا ۔
پیپلزپارٹی 1969 سے میڈیا کے محاذ پر کمزور ترین ہے ۔
اور بری طرح مار کھا رہی ہے ۔ میڈیا کے موضوع پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے پیپلز پارٹی کی جس کی معروف شخصیت سے ملاقات ہوئی اسے ہمیشہ مغرور پایا کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قریب تھے ۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قریب تھے یا اب بلاول بھٹو زرداری کے قریب ہیں ۔ کسی کو اس امر پر شرمندہ نہیں پایا کہ جب وہ شہید بھٹو کے قریب تھے ۔ تو اس وقت میڈیا کے محاذ پر پیپلزپارٹی نے بدترین شکست کھائی ۔ 90 کی دہائی میں حسین حقانی نامی 21 سالہ لونڈے نے پی پی پی کو میڈیا میں رگید دیا ۔ 2008 سے آج تک میڈیا میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین صفات میڈیا پر کوڑا کرکٹ بن جاتی ہیں۔
یہ امر تسلیم کہ ہمارے مقابلہ میں آبپارہ کی سرپرستی ہے ۔ بے پناہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے ۔ وسائل ہیں ۔ لیکن پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل سے متعلق لوگوں کی ذہنی قابلیت بھی کبھی بھی قابل تعریف نہیں رہی ہے ۔ وہ ہمیشہ مجھے سیاسی کارکن کے بجائے سرکاری ملازم دکھائی دیئے ۔ لکیر کے فقیر ۔ اور خود اخبارات کے طے شدہ ٹرینڈ کے پیروکار ۔
پی پی پی لیڈر شپ کے ساتھ چالیس یا پچاس سال کی پیشہ ورانہ زندگی کے بعد بھی پیپلزپارٹی کے سینئر ترین میڈیا پرسانل کو کبھی بلاول بھٹو زرداری ۔ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی طرح کی گفتگو کرتے نہ دیکھا نہ پایا ۔ انہیں ہمیشہ رائیٹ ونگ کی وکٹ پر کھیلتے ہوئے جمہوریت سے متصادم تصورات کا اسیر پایا ۔
گزشتہ روز جب اتفاقا سوشل میڈیا کانفرنس میں بیٹھا گفتگو سن رہا تھا۔ تو اچانک ذہن میں خیال آیا۔ کہ پہلے اعتزاز احسن اور مصطفی نواز کھوکھر جیسے لوگوں کے بیانیہ کی صفائی دیتے وقت گزرتا ہے ۔ پنجاب میں میڈیا سیل نہیں تھا ۔ تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اب ایک سوشل میڈیا سیل کو دو ایسے لوگ چلائیں گے جو پیپلزپارٹی کے فلسفہ پر دو سطور نہیں لکھ سکتے۔ تین گھنٹے کی تقریب میں یہ سوچتے سوچتے اچانک دماغ پھٹ پڑا ۔ اور اسٹیج پر جاکر منتظمین سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اختلاف کو کھلے عام بیان کیا ۔
میری نظر میں پیپلزپارٹی کا میڈیا سیل وہ نہیں ہونا چاہیے جو ارکان پارلیمنٹ اور ضلعی تنظیمیں تجویز کریں۔
میری رائے کے مطابق سوشل میڈیا پر جو لوگ گزشتہ آٹھ دس سال سے پیپلز پارٹی کے لیے رضاکارانہ طور پر جنگ کر رہے ہیں۔ content لکھ رہے ہیں۔ بیانیہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو اسی طرح انگیج کر لیا جائے۔ ممکن ہے کہ ایک ضلع سے 15 لوگ ہوں اور ممکن ہے کسی ایک ضلع میں ایک بھی نہ ہو ۔ تخلیق کسی تنظیم کی راہنمائی کی محتاج نہیں۔ اگر ایک ضلع میں creative writing کرنے والے زیادہ لوگ ہیں تو ان کا کیا قصور ہے۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ ان سب کو انگیج کرکے ایک تنظیم کی شکل دے دی جائے جس سے براہ راست چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تک رسائی دستیاب ہو۔
بہت بچپن میں ذمہ داریاں اور عہدے دیکھے۔ سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا ۔ ضلع کونسل کا رکن منتخب ہوا ۔ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ کم عمری میں پیش کیا گیا ۔ این جی او سیکٹر میں بڑا نام کمایا ۔ الیکٹیبل بھی ہوں ۔ جب چاہوں پارلیمان میں جانے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ 20 سال جج ۔ میجسٹریٹ کا عہدہ انجوائے کر چکا ۔
اس وقت میری کوشش میری خواہش محض یہی ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے پیغام اور پرفارمنس کو اس قدر طاقت سے پھیلایا جائے کہ پرنٹ اور ٹیلی میڈیا کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے۔
جن دوستوں نے میرے لئے مختلف عہدوں کی تجاویز پیش کیں۔ نام تجویز کیا۔ محبت کا اظہار کیا۔ انکا از حد ممنون ہوں ۔ سچ یہ ہے کہ ہم سب ایک خاندان کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اور بلاشبہ میں خوش نصیب ہوں کہ باقی دوست مجھ سے زیادہ پیار اور محبت کرتے ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں باقی دوستوں سے زیادہ ذہین ہوں ۔ قابل ہوں یا ان سے اچھا لکھتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر کم از کم 10 یا اس سے زیادہ لوگوں کو اپنے سے بہتر پاتا ہوں۔ پوسٹ طویل ہو رہی ہے ۔ نام لے کر بعد میں لکھوں گا ۔
میرے فرق صرف یہ ہے کہ مجھے قانونی انداز میں دلیل دینے میں سہولت ہے۔ مجھے مخالف کی کمزوری کو دیکھ کر اسے چاروں شانے چت کر نے میں مزہ آتا ہے۔ قانون پر گرفت باقی دوستوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہے کیونکہ یہ میرا پیشہ ہے ۔
پہلے بھی عرض کیا کہ کسی عہدہ کی تمنا نہیں ہے ۔ مگر کسی نااہل کے کسی ذمہ دار عہدہ پر بیٹھنے پر تکلیف ہوتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ہر لیول پر خدمت کرنے اور پاکستان میں جمہوریت کی لڑائی لڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں ۔
ایک بار پھر سب دوستوں کی محبت کا بے حد شکریہ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ