میں اپنےبھائی ارشدشریف کےبہیمانہ قتل سےشدیدصدمےاورشکستہ دل ہوں، بھائی ارشدشریف کےقتل سےشکستہ دل کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
ان خیالات کا اظہار اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے اپنے ایک جاری بیان میں کیا ہے ۔ سلمان اقبال نے کہا کہ ارشدکی وفات پورےپاکستان اور عالمی سطح پرصحافت کیلئےبہت بڑانقصان ہے،ارشدشریف کےاہلخانہ اورتمام سوگواران کیساتھ ہوں ۔اپنےکیریئرکےآغازسےابتک ہمیشہ اپنےلوگوں کاخیال رکھاجس کےوہ گواہ ہیں،
سی ای واےآروائی نیٹ ورک سلمان اقبال نے کہا پاکستان میں صحافی بنناآسان نہیں،میری پوری نیوزٹیم کواکثرمختلف خطرات کاسامنارہتاہےجسےکم کرنامیراکام ہے،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم نےکئی ساتھیوں کوکھویا،میں نےآج تک ان ساتھیوں کےخاندانوں کی کفالت جاری رکھی ہوئی ہے،جانتاتھاارشدشریف کوجن خطرات کاسامناتھاوہ حقائق پرمبنی تھے۔
انہوں نے کہا ارشدنےحکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سےحفاظت کی اپیل کی،حکومت نےتحفظ دینےکےبجائےارشدکیخلاف بغاوت کےمقدمات کاانبارلگادیا،ارشدکیخلاف متعددایف آئی آرزکاٹی گئیں،گرفتاری کےوارنٹ جاری کیےگئے۔حکومت کی انتقامی کارروائیوں نےارشدشریف کوپاکستان چھوڑنےپرمجبورکیا۔
سلمان اقبال نے کہا بحیثیت دوست اورساتھی ارشدشریف کےپاکستان چھوڑنےکےفیصلےکاساتھ دیا۔دفترمعمول کےمطابق ہمارےدفترنےارشدشریف کیلئےسفری انتظامات کیے، دوست ساتھی کی مدد کرنا کب سے جرم ہے؟
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کےآنےکےبعدسےمیرےخلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،حکومت نےمجھےکبھی سونےکااسمگلریااسلحےکاسوداگرسمیت دیگرالزامات لگائے،میرےخلاف مہم کاآغازمریم نوازنےکیا،وزرانےابھی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔
سلمان اقبال نے الزام عائد کیا کہ حکومت نےایف بی آر،ایف آئی اے،پیمرا،ایس ای سی پی کومیرےخلاف ہتھیاربنایا،مجھ پرمتعددایف آئی آرز،وارنٹ گرفتاری اورغداری کےمقدمےبنائےگئے،حکومت کی جانب سےصحافیوں پرمقدمات اورظلم وستم نےتشویش میں ڈال دیا۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے6ماہ سےپاکستان نہیں آسکا،
صدر،سی ای اواےآروائی نیٹ ورک نے کہا وزیرداخلہ کےارشدشریف کےقتل سےمتعلق مجھ پرالزامات بےبنیادہیں،وزیرداخلہ مجھ پرلگائےگئےبےالزامات میرےخلاف منظم مہم کاتسلسل ہیں،واضح کہتاہوں میرےبھائی ارشدکیخلاف بہیمانہ فعل میں میراکوئی دخل نہیں،مجھےدکھ اورصدمہ ہےکہ ارشدشریف کےقتل پرابھی تک کوئی کمیشن نہیں بنایاگیا۔
سلمان اقبال نے کہا تحقیقات کےبجائےحکومت پریس کانفرنسزکرکےمجھےسازش کاحصہ بنارہی ہے،ارشدشریف کی موت پرحکومت جوسیاست کررہی ہےوہ ایک مکروہ فعل ہے،کہا گیاہےکہ مجھےارشدشریف کےقتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے،ن لیگ حکومت میں تحقیقات کی آزادی پریقین نہیں لیکن ہرسوال کاجواب دونگا،اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کےدفترکےزیرنگرانی آزادانہ تحقیقات کامطالبہ کرتاہوں۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کی کینیا میں سر پر گولی لگنے سے پراسرار موت ہوئی تھی ،ارشد شریف کی اہلیہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں قتل کیا گیاہے۔ کینیا پولیس کے مطابق ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کیا گیا،،،کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف کینیا کی پولیس کی گولی سر پر لگنے سے جاں بحق ہوئے ،پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں ارشد شریف اور ان کی گاڑی کے ڈرائیور نے پولیس کے کہنے پر گاڑی نہیں روکی تھی انہیں شناخت میں غلطی پر سینئیر افسر کی جانب سے گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آرآئی یوجے نے سینیئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کے مبینہ قتل کی خبروں پر شدید رنج و غم اور حملہ آوروں اور انکے پیچھے نادیدہ قوتوں کی اس مذموم ترین حرکت پر شدید مذمت کے ساتھ ساتھ اس المناک سانحے پر پاکستان میں جوڈیشل کمیشن اورحقائق سامنے لانے کےلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کمیشن بنانے کا مطالبہ کیاہے،
این پی سی ، پی ایف یو جے اور آر آئی یوجے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ ارشد شریف پاکستان کے مایہ ناز صحافی تھے ،وہ ڈان نیوز، دنیا نیوز اور اے آروائی نیوز سمیت کئی صحافی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے لئے کام کرتے رہے۔ انہیں 23 مارچ 2019 میں صحافت میں ان کی خدمات کی بنا پر صدر پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیا گیاہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف دبئی میں مقیم تھے مبینہ طور پر انہیں وہاں سے انھیں نکالا گیا اور وہ کینیا چلے گئے جہاں انھیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ عدالت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیں اور وزارت داخلہ اور خارجہ کے نامزد افسر کو ارشد شریف کی فیملی سے فوری ملاقات کی ہدایت کے ساتھ ساتھ کل تک رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں پر حملے اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں جو ناقابل برداشت ہے۔ اب تک سو سے زائد صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو چکے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ آج کے دور میں صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ارشد شریف کا قتل نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے ۔ارشد شریف اپنے نظریات اور خیالات کے حوالے سے ایک واضح سوچ رکھتے تھے اور ان کی سوچ سے اختلاف رکھنے والے اس حملے کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ماضی میں سلیم شہزاد اغوا و قتل کمیشن یا حامد میر ، ابصار عالم ، مطیع اللہ جان سمیت دیگر صحافیوں پر حملوں کی تحقیقاتی رپورٹس سامنے لے آئی جاتیں تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ نیشنل پریس کلب اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے ارشد شریف کے مبینہ قتل کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے نہ صرف حملہ آوروں بلکہ واقعہ کے اصل ذمہ داروں کو فوری طور پر سامنے لانا چاہیے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آرآئی یوجے نےعالمی صحافتی اداروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینیئر اینکر پرسن اور صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جاہیے۔ ماضی میں کئی صحافیوں کے قتل کی طرح یہ کیس نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔‘
ارشد شریف کے بیہمانہ قتل پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آرآئی یوجے نے تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیاہے اور تین دن کے لئے نیشنل پریس کلب کا پرچم سرنگوں رہےگا۔ مشترکہ طور پر یہ مطالبہ بھی کیا گیاہے کہ حکومت ارشد شریف کے جسد خاکی کو پاکستان واپس لانے اور انکے اہل خاندان کوانصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہرممکن مدد فراہم کرے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر