دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

27 اکتوبر۔ یوم سیاہ کشمیر۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 اکتوبر کو پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی مسلمان یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کہ اس دن کشمیر کے سکھ حکمران نے کشمیر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے اُن کی منشاء کے بغیر کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کر دیا جس کے خلاف مزاحمت آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں ڈوگرہ سکھ حکمران گزشتہ 75 سالوں سے حریت پسند مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے آرہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق شہید ہونیوالے مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ تقسیم ہندوستان کے طے شدہ فارمولے کے تحت ریاستوں کو اپنی مذہبی، جغرافیائی اور عوامی خواہشات کے مطابق ہندوستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا لیکن مسلم دشمن سکھ حکمران نے خطے کی مذہبی، جغرافیائی اور عوامی خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کیا جس کے خلاف فوری رد عمل آیا حالانکہ سکھ حکمران کے فیصلے سے قبل 19 جولائی 1947ء کو کشمیریوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس قرارداد کے ذریعے فیصلہ دے چکی تھی کہ کشمیر مسلمانوں کا ہے اور ہمارا الحاق پاکستان سے ہو گا مگر ان تمام حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظلم کیا گیا۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ بھارت روز بروز کشمیریوں پر مظالم بڑھانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے گھنائونے حربے استعمال کر رہا ہے جس طرح فلسطین میں صیہونی بستیاں بسائی جا رہی ہیں اسی طرح کشمیر میں ہندوئوں کی آبادیاں بڑھائی جا رہی ہیں۔ اسی بناء پر ہر سال ستائیس اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے کہ بھارت کا مکروہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے آسکے، کشمیر کے مسلمان بھارت کی انتہائی پسندی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مودی کے آنے کے بعد مظالم میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کے خلاف اقوام متحدہ اپنی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق استصواب کا اہتمام کرے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے کشمیر کے حوالے سے فیصلے کے تحت پیدا ہونیوالی صورتحال نے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے ۔مودی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو ایک صدارتی حکم نامے میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور A-35کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اقدام کیا جس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو ہندوستانی ریاستوں کے دیگر باشندوں کے مقابلے میں الگ الگ قوانین کے تحت شہریت، جائیداد کی ملکیت اور بنیادی حقوق کے تحت خصوصی حیثیت دی تھی ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے اور جموں و لداخ کے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا بھارتی اقدام متنازعہ علاقوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘ نسل کشی کی بجائے کشمیریوں کو ان کا وطن ملنا چاہئے ، ہندوستان کے حکمران دن رات کشمیر کے مسئلے کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ، دوسری طرف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ، احتجاجیوں پر ظلم اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو قتل بھی کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر کشمیری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا ؟ ۔کشمیریوں کی تین نسلیں اسی آس میں ختم ہو گئیں کہ کشمیر آزاد ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے آزادی کی نعمت کو دیکھیں مگر کشمیرکا مسئلہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ خدانخواستہ کشمیر کے مسئلے پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کیلئے مہلک ہوگی ۔ پاکستان کے اہل دانش امریکا سمیت پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق بارے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہیں تو امریکا اس کا نوٹس لیتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور مسلسل کرفیو کے عمل کے باعث یہاں انسانی صورتحال گھمبیر ہے ، اس کیفیت میں بھارت سرکار کی سرکوبی اور اس پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عمل خود امریکی کردار کے آگے بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔ بھارت کشمیر پر غاضبانہ قبضہ قائم کر کے کشمیریوں کی آواز کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے اور کشمیر بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے ، کشمیر کے سکھ حکمران کے غلط فیصلے کا عذاب کشمیری مسلمان جھیل رہے ہیں تو مسلمان ایک سراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا جبکہ سکھوں نے تو مسلمانوں کو 1818ء اور تقسیم کے وقت 1947ء میں مشرقی پنجاب اور تیسرا بدلہ مسلمانوں کی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کی صورت میں کیا ، اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی غلط مشورہ دینے والوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر پر رنجیت سنگھ نے غاصبانہ قبضہ کیا اور سکھ زبردستی کشمیر کے حکمران بن بیٹھے ، حالانکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اس کے باوجود کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ناجائز طور پر بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا ۔ اس دن سے لیکر آج تک کشمیری مسلمان سراپا احتجاج ہیں ، جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ، ایک سکھ مہاراجے کے بد نیتی اور مسلم دشمنی پر مبنی فیصلے نے پورے کشمیر کو مقتل گاہ بنایا ہوا ہے ۔ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہئے ، کشمیری مسلمان قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور مودی کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، مودی کے انسانیت سوز مظالم نے عالم امن کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے ، پاکستان بجا طور پر مظلوموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کئے ہوئے ہے ، کتنا بڑا ظلم ہے کہ قریباً 3سالوں سے بھارت نے کشمیر میں کرفیو لگایا ہوا ہے اور کشمیری مسلمان یرغمال بنے ہوئے ہیں اور ان کے تمام انسانی حقوق سلب کر دیئے گئے ہیں ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والا بھارت کشمیر میں مظالم کی نئی تاریخ رقم کرتا آ رہا ہے ۔ کشمیریوں کی اپنی تاریخ ، اپنی ثقافت اور اپنی دھرتی ہے ، ان کو اپنا وطن اور اپنا اختیار ملنا چاہئے اور عالم اسلام کو کھسیانی بلی کا نہیںبلکہ انصاف پسند مسلمانوں کا کردار ادا کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author