ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمی کی شدت کم ہو چکی، جاڑا دبے پاؤں آن پہنچا، رت بدلنے لگی اور 2022 ء ماضی بننے کے لیے سامان باندھ رہا ہے۔
زندگی بھی شاید یونہی تمام ہوتی ہے، بیٹھ کر سکون کا سانس بھی نہیں لینے پاتے کہ گھنٹی بج جاتی ہے۔ زندگی کی شام اس طرح سب منظر دھندلا دیتی ہے کہ کوئی جان ہی نہیں پاتا کہ کب اور کیسے سفر تمام ہو گیا؟
اس سفر میں، زندگی کے الجھاؤ میں بہت سی ان چاہی باتیں بھی شریک سفر ٹھہرتی ہے۔ زندگی کا حق یہ ہے کہ ہر انہونی سے دوبدو ہو کر لڑا جائے، چاہے جیت ہو یا ہار۔ ایسی ہی ایک صورتحال کینسر یا سرطان سے مقابلہ کرنے کی ہے۔
اکتوبر دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں معلومات پھیلانے کا مہینہ ہے اور گلابی ربن کی علامت بریسٹ کینسر کی آگہی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
چھاتی کے سرطان کی شرح عورتوں میں پائے جانے والے تمام سرطانوں میں سب سے بلند ہے اور اس کا تناسب 25 فیصد تک پایا گیا ہے۔ یہاں ایک اور بات سمجھ لیجیے کہ چھاتی کا سرطان مردوں میں بھی پایا جاسکتا ہے اگرچہ اس کی شرح تناسب عورتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
سرطان آخر ہے کیا؟
سادہ زبان میں اگر جسم کا کوئی بھی حصہ اپنی بڑھوتری میں بے قابو ہو جائے اور وہاں کے سیلز یا خلیے اپنی مرضی سے بڑھنا شروع کر دیں تو پھر وہ رکتے نہیں۔ آزاد باغی سیل پورے جسم کو تباہ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
عورتوں کی چھاتی ایک ایسا عضو ہے جو ساری عمر بہت سی تبدیلیوں کا شکار رہتا ہے۔ بچپن سے جوانی اور چھاتی کا بڑھاؤ، حمل، بچوں کو دودھ پلانا، درمیانی عمر کی ہارمونل تبدیلیاں، ایک تغیر ہے جو اس عضو میں اتھل پتھل کیے رکھتا ہے۔ پھر کسی بھی مقام پر سیلز اپنا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں اور عورت سرطان کا شکار بن جاتی ہے۔
چھاتی کا سرطان اگر ابتدائی مرحلوں میں تشخیص ہو جائے تو قابل علاج ہے لیکن اگر تیسری یا چوتھی اسٹیج تک پہنچ جائے تو موت دستک دینے لگتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال 17 ہزار عورتیں اس کینسر کا شکار ہوتی ہیں لیکن کچھ این جی او کے مطابق یہ شرح 40 ہزار تک ہے۔ ان میں سے بے تحاشا عورتیں بروقت تشخیص نہ ہونے کے سبب موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ 21 ویں صدی کے معاشرے میں آخر ایسا کیوں؟
ہمارے معاشرے میں اس بیماری کی ابتدائی مرحلوں میں تشخیص میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ سماجی گھٹن ہے جس کا شکار عورت بچپن سے ٹھہرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ممنوعہ مزاج رکھتا ہے لیکن عورت کے بارے میں تو یہ امتناعات پاگل پن کو چھوتے ہیں۔
عورت کو شرم و حیا کی پتلی بنا کر ایک ایسے پیڈسٹل پر کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں جذبات، احساسات اور خواہشات کی کہانی تو ناممکنات میں سے ہے، اس کی بیماری اور جسمانی تکالیف بھی کسی زمرے میں نہیں آتیں۔
چھاتی کو ایک ایسا عضو سمجھا جاتا ہے جس کا ذکر انتہائی مخرب اخلاق سمجھا جاتا ہے۔ بچی جونہی جوانی کی حد پر پہنچتی ہے اور جسم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے، گھر میں موجود سب بڑی بوڑھیوں کی طرف سے ایک تہذیب نسواں کا درس شروع ہوجاتا ہے۔
جسم خالق کائنات کی تخلیق، چھاتی مخلوق انسانی کی غذا کا منبع، ماہواری نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ! پھر سوال یہ ہے کہ ان اعضا کو عورت کے لیے کسی جرم جیسی شرم کا باعث کیوں سمجھا گیا؟ ان اعضا کو مرد کے جنسی جذبات ابھارنے کا مرکز سمجھنے پر اصرار کیوں؟
وہ عضو جو بچے کی خوراک کے لیے مالک کائنات نے تخلیق کیا ہے، اسے دیکھ کے اگر مرد کی آنکھ کج روی کا شکار اور دماغی رو بہکتی ہے تو اس کی ذمہ داری عورت پر کیوں؟
اگر مرد جذبات، احساسات اور خواہش میں اتنا ہی کمزور اور بے لگام ہے کہ نہ آنکھ پر قابو ہے اور نہ نفس پر، تو اس کی ذمہ داری اس کو خود اٹھانا ہے۔ آنکھ جو بہکتی ہے اور ڈھکے ہوئے جسموں کو بھی ٹٹولتی ہے اس پر پہرا بٹھانے کی ذمہ داری آنکھ والے کی ہے، سامنے والے کی نہیں۔
نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
چھاتی عورت کی اپنی شرم و جھجک کی شکار ہوجاتی ہے۔ اپنا ہی عضو جسم ایک نو گو ایریا ٹھہرتا ہے۔ اب اس عضو میں بھلے کچھ بھی تکلیف ٹھہرے، عورت کی بچپن سے کی جانے والی تربیت اس کا ذکر کرنے میں آڑے آتی ہے۔
ایسی بہت سی خواتین کو دیکھنے کا موقع ملا جنہیں اپنی چھاتی میں تکلیف کا احساس ہو چکا تھا لیکن اسی شرم و حیا کے مصنوعی ماڈل کے تحت وہ شوہر تک کو بتانے سے گھبراتی تھیں۔ طبی مدد کے لیے تب پہنچیں جب شوہر نے ازخود جان لیا کہ کچھ غلط ہے اور تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایک اور ردعمل جو عورت کو خوفزدہ کرتے ہوئے اسے مجبور بناتا ہے کہ وہ اپنی تکلیف کا اظہار سرعام نہ کرے، وہ اس کی بیماری یا تکلیف کو اس کے کردہ ناکردہ گناہوں سے جوڑنا ہے۔
’ثریا نے ضرور کوئی گناہ کیا ہو گا جبھی اللہ نے یہ آزمائش ڈالی ہے۔ ‘
’اجی غرور بہت تھا اپنے آپ پر، دیکھا اللہ نے کیسا پٹخا۔‘
’یہیں سزا مل گئی اس کو تو، روز قیامت تک کا تو انتظار ہی نہیں کرنا پڑا۔‘
یہ زبان کے تیر ہیں جو دوسرے کے ان دیکھے گناہوں پر اچھالے جاتے ہیں، جو بیمار بدقسمت کو زخمی تو کرتے ہی ہیں بہت سوں کو اپنی بیماری چھپانے اور خاموشی سے موت کو گلے لگانے پر مجبور بھی کر دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی حد کا تعین کرنا نہیں آتا۔ کس کی کیا حدود ہیں، کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم، نہ کوئی جانتا ہے اور نہ کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی چوپال میں بیٹھا، ہر کسی کے بارے میں بلاتکلف رائے کا اظہار، ذاتی معاملات میں تجسس اور پھر اپنی ٹانگ اڑانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔
عورت کی بیماری اور اس بارے میں مفت مشورے بھی ہر کسی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ خواتین کو اس مہینے کی مناسبت سے ہم سمجھانا چاہتے ہیں کہ چھاتی کا معائنہ باقاعدگی سے اپنے ہاتھوں سے کیا کریں۔ اگر کبھی بھی کوئی گلٹی محسوس ہو، چھاتی کی جلد لال پڑ جائے یا پانی نکلتا محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر کو دکھائیے۔
میمو گرام کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ 50 کے بعد تو مذہبی فریضہ سمجھ کر کروانا چاہیے۔ لیکن امریکن گائیڈ لائن کے مطابق 40 سال سے کروانا شروع کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ملنے والوں میں 2 ایسے لوگوں کو ہم جانتے ہیں جنہوں نے ہمارے کہنے پہ میمو گرام کروایا اور کینسر کی پہلی اسٹیج پکڑی گئی۔
وہ خواتین جن کے خاندان میں پہلے سے کسی کو چھاتی کا کینسر ہے انہیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ خاندانوں میں جینیاتی طور پر چھاتی کے کینسر والی جینز BRACA پائی جاتی ہیں۔ ایسے خاندان کی ہر عورت کو اپنا جینیاتی تجزیہ کروانا چاہیے۔ ہمارے قریبی عزیزوں میں ایک ایسا خاندان موجود ہے جہاں ماں، خالہ اور 2 بیٹیوں کو اس موذی مرض نے آن دبوچا ہے۔
معاشرے کے تمام مردوں سے ہماری درخواست ہے کہ اپنے گھر کی عورت کو آگہی، عزت و اعتماد اور کینسر کے بچاؤ کے طریقوں کی تعلیم دیجیے۔ چاہے وہ آپ کی ماں ہو، آپ کے بچوں کی ماں ہو یا آپ کی آغوش کا پھول۔
آئیے مل کے اس موذی مرض کے خلاف جنگ کریں!
بشکریہ ڈان
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر