کیا عمران خان صاحب کسی ایسے نتیجے پر پہنچ چُکے ہیں جس میں حکومت کا خاتمہ کوئی معنی نہیں رکھتا؟ کیا لانگ مارچ کا رُخ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب کر کے سرپرائز دے سکتے ہیں؟
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ سیاست کے انداز یکسر بدل چُکے ہیں، طاقت کا مرکز اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے تاہم اس آخری معرکے کے آخری مرحلے میں اعصاب شکن جنگ اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔
گھڑی کی ٹک ٹک محور سے وقت کے تعین کا اعلان کرنے کے لیے بے تاب۔۔۔ وقت کس کا ہے، اس کا فیصلہ اگلے چار ہفتوں میں ہو جائے گا۔
کبھی وطن عزیز میں آرمی چیف کی تعیناتی کا اتنا چرچا نہ سُنا جو گزشتہ تین برس میں زبان زد عام ہوا۔
پہلے پارلیمنٹ نے آرمی چیف لگایا اور اب آرمی چیف کی تعیناتی ایک اشتہاری مہم کی شکل اختیار کر چُکی ہے اور عمران خان صاحب گلے میں ’میں تاں آرمی چیف ہی لاساں‘ کا بڑا بورڈ آویزاں کیے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور کیوں نہ پیٹیں اُن کی آرمی چیف لگانے کی خواہش کا گلا گھونٹ کر اُنھیں چلتا کیا گیا اور اب وہ کسی اور کو چلتا کرنے کے درپے ہیں۔
چار برس کے بسے خوابوں کو عین تکمیل کے وقت تعبیر سے دور کر دیا گیا اور اب وہ شہباز شریف کے خواب چکنا چُور کرنا چاہتے ہیں۔
خواہش یہاں تک لے آئی ہے کہ یہ بیان بھی داغ دیا کہ نہ آپ کا چیف نہ میرا چیف۔۔۔ بس کہیں درمیان کا چیف۔ بالکل اُسی طرح جیسے قالین بیچنے والا غیر حقیقی دام مانگنے پر تکرار کے بعد قالین نصف سے کم قیمت پر بیچ دیتا ہے۔۔۔ خان صاحب کسی درمیان کے چیف پر رضامند ہو گئے ہیں اور ’صاحب‘ کو ڈرل ماسٹر کے پاس بھیج دیا ہے۔
پیغام یہ بھی ہے کہ آئیے کسی اور پر ہی بات کر لیں اور کچھ لو اور دو کی بُنیاد پر معاملہ طے کر لیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر