نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں کلا ای کافی آں ۔۔۔||ملک سراج احمد

ملک سراج احمد ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مختلف اشاعتی اداروں میں مقامی ،قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے جمع کرائے گئے استعفوں میں سے کافی سوچ بچار کے بعد 8 حلقوں کا انتخاب کیا اور ان کے ممبران اسمبلی کے استعفوں کو منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا۔الیکشن کمیشن نے ان حلقوں پر ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کردیا۔16 اکتوبر کو ان 8 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوا جس میں سے 6 حلقوں میں تحریک اںصاف کے چیئرمین عمران خان جبکہ دو نشستوں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے علی موسیٰ گیلانی اور عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوگئے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ برسراقتدار ن لیگ ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست نا جیت سکی اور ساتھ ساتھ اے این پی اور جے یو آئی کے امیدوار ہار گئے ۔ن لیگ کے لیئے فیصل آباد میں عابد شیر علی کی نشست ہارنا بلاشبہ ایک دھچکا ہوگا کہ وہاں پر رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کا گٹھ جوڑ بھی ان کو کامیاب نا کراسکا۔

یہ ضمنی انتخابات بہت سے سوال پیدا کرگیا ہے ۔ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے ۔خاص طورپر ان سیاسی جماعتوں کے لیئے جنہوں ان انتخابات میں حصہ لیا۔ہر جماعت کو ایک بار بیٹھ کر ان انتخابی نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرکے ان کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نا کیا گیا تو عام انتخابات بھی قریب ہیں اور نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں ۔ ان انتخابات کے حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ حکومت نے جن حلقوں کو محفوظ تصور کرتے ہوئے ان کے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیئے وہاں پر نتائج مختلف کیسے آگئے ۔کیا امیدواروں کا انتخاب ٹھیک نہیں تھا اگر یہ بات ہے تو لگے ہاتھوں اس کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ عابد شیر علی ، غلام احمد بلور ، ایمل یار ولی اور مولانا قاسم کمزور نہیں بلکہ بہت اچھے اور مضبوط امیدوار تھے تو طے ہوگیا کہ امیدواروں کا انتخاب تو ٹھیک تھا پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کیسے جیت گئے ۔جبکہ حلقوں کےووٹرز کو بھی علم تھا کہ عمران خان اسمبلی میں نہیں جائیں گے اور یہ نشستیں دوبارہ خالی ہوجائیں گی ۔

کیا ان انتخابی نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت عوام میں عمران خان کا بیانیہ سرایت کرچکا ہے اور عوام کپتان کے بیانیے سے متفق ہے تو حالیہ انتخابی نتائج سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ایسا ہی ہے کہ عمران خان کا بیانیہ مقبول ہوچکا ہے ۔اور عمران خان نے سوائے پاکستان پیپلزپارٹی کے ن لیگ ،ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کو دھوبی پٹکا مار کے یہ دنگل جیت لیا۔ملتان میں گوکہ عمران خان خود امیدوار نہیں تھے اگر وہ خود ہوتے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نتیجہ کیا ہوتا جبکہ ملیر کی نشست پیپلزپارٹی کے ورکر سے ہارنا بلاشبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو کمزور سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی ۔سندھ میں پیپلزپارٹی کو چیلنج کرنے کے لیئے ابھی کتپان کو مزید بہت سا وقت درکار ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی سندھ میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ اچھا پرفارم کرئے گی۔

کے پی کے میں کپتان نے اپنی سیاسی اجارہ داری کو قائم رکھا ہے اور مردان ، چارسدہ اور پشاور سے قد آور شخصیات کو شکست دے کر ثابت کردیا کہ آئندہ عام انتخابات میں کے پی کے تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ ہوگا اور یہاں پر دیگر سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیتے کے لیئے مزید محنت کرنی ہوگی وگرنہ کامیابی ملنا مشکل ہوگا جبکہ پنجاب میں فیصل آباد اور ننکانہ صاحب والی نشستیں ہارنے کے بعد ن لیگ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔کیا یہ شکست اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ ن لیگ سینٹرل پنجاب میں اپنی گرفت کمزور کررہی ہے یا پھر پارٹی کے اندرکی گروپنگ اس کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔جو بھی ہے ن لیگ کو بہرحال سیاسی نقصان ہوا ہے اور شائد ان نتائج کے اثرات آئندہ عام انتخابات میں بھی نظر آئیں

حالیہ ضمنی انتخابات میں 8 سے 7 نشستوں پر امیدوار عمران خان تھے تو سوال یہ ہے کہ کیا اگر کپتان کے علاوہ کوئی اور امیدوار ہوتا تو کیا پھر بھی یہی نتائج ہوتے تو اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ نہیں پھر نتائج ایسے نا ہوتے اس میں تحریک انصاف کم سے کم چارسدہ ، مردان ، پشاور اور فیصل آباد کی نشتیں ضرور ہار جاتی یا پھر بہت ہی معمولی فرق سے جیت پاتی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اس کے پارٹی ورکرز کے نزدیک بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی امیدوار ہوتا تو شائد دلچسپی اور کمٹمنٹ کا لیول کچھ اور ہوتا۔

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ کہ ضمنی انتخابات کا حکومت نے غلط فیصلہ کیا۔کسی حد تک یہ بات فائدہ دے سکتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں تا ہم ان انتخابات کا سیاسی فائدہ بلاشبہ عمران خان کو ہوا ہے ۔دوسری بات یہ کہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کو اب انتخابی اتحاد پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اگر یہ جماعتیں متفقہ امیدوار میدان میں لائیں گی تو کامیابی ہوسکتی ہے وگرنہ کپتان کی مقبولیت کے سامنے کمزور امیدوار پٹ جائے گا لہذا پی ڈی ایم کو آئندہ امیدواروں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کرکرنا ہوگا۔سب سے اہم یہ کہ آئندہ عام انتخابات میں سیاست کا دنگل پنجاب میں ہوگا اورن لیگ کو مزید بہترتیاری کرنی ہوگی فی الوقت ن لیگ کا پنجاب کا کلیم بری طرح متاثر ہوا ہے ۔آخری بات کہ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ اگر پھر ضمنی الیکشن ہوئے تو امیدوار عمران خان ہی ہوگا کیونکہ کپتان کا اعلان ہے کہ میں کلا ای کافی آں اور حالیہ انتخابی نتائج سے یہ بات درست ثابت ہوئی ہے ۔کہ فی الوقت کپتان کا بیانیہ مقبول ہے۔لہذا حکومت کو معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے وگرنہ آئندہ کے نتائج نوشتہ دیوار ہیں

۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author