نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ستم ظریفی اور سندھ۔۔۔۔۔۔!|| عادل علی

گورنر صوبے بھر کی تعلیمی جامعات کا چانسلر بھی ہوا کرتا ہے۔ کامران ٹیسوری جیسی بری شہرت کی حامل شخصیت کا ایک ایسے عہدے پہ تعینات ہونا عوام کے لیے باعث تشویش ہے۔ بادی النظر میں لازماً کوئی کھیل جاری ہے جس میں ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک کرنے سے لے کر ایم کیو ایم کی از سر نو تنظیم سازی بھی شامل ہے اور اس میں تحریک انصاف سمیت فنکشنل لیگ کا بھی حصہ ہوسکتا ہے۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی شعور رکھنے والے انسان کے لیے یہ سمجھنا قطعی مشکل نہیں ہے کہ بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے کیا پرخاش ہے۔ صاف سی بات ہے ملک کے تین صوبے ایک ڈگر پہ چلتے ہیں مگر سندھ اپنی "ڈومیننس” برقرار رکھتا آرہا ہے اور حسب روایت سیاست پاکستان یہ ناقابل قبول ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح سندھ کو بھی نکیل ڈالی جائے۔
مشرف کے دور میں اجلے کپڑے پہن کر صاف ستھرے لوگوں کی صف میں شمار ہوکر سیاست کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے ایک ایسی شخصیت طویل مدت کے لیے گورنر کے عہدے پر قابض رہی جس پر متعدد قتل و جرائم کے الزامات تھے۔ گورنر ہونے کے ناطے بھی عشرت العباد کے ذمے پارٹی کارکنان کو پولیس کاروائی سے بچانا اور زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کروانا رہا.
سن 2008 میں جب ذوالفقار مرزا صوبائی وزیر داخلہ تھے تو خبر بریک ہوئی کہ پولیس مقابلے میں ملزم کامران ٹیسوری فرار ہونے میں کامیاب۔ پولیس افسر غالباً راو انوار تھے اور آج ذوالفقار مرزا سمیت راو انوار دونوں منظر سے لاپتا ہیں جبکہ کامران ٹیسوری ایک عرصے کی خاموشی کے بعد گورنر سندھ بن کر ایک تلخ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
کامران ٹیسوری کا سیاسی سفر شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔ پیر صاحبان کی جماعت فنکشنل لیگ میں شامل ہوئے تو بھی تنظیمی اختلافات کا شکار رہے اور اسی سبب فنکشنل لیگ کو خیر باد کہا۔ کراچی کے معروف تاجر کامران ٹیسوری سونے اور کنسٹرکشن کے کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں ساتھ ہی سیاست کا بھی شوق فرماتے ہیں۔ ایک وقت تک ایم کیو ایم میں جگہ بنانے کے لیے کوششیں کرتے رہے اور سن 2017 میں الطاف حسین سے منحرف ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کے لیے سیاست کے دروازے کھول دیے۔ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ڈپٹی کنوینیر بنایا یہاں تک کہ سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی بھی سر توڑ کوشش کی جس کے نتیجے میں فاروق ستار اور ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی راہیں جدا ہوگئیں اور کامران ٹیسوری بھی منظر سے غائب ہوگئے۔
2021 کے آخر میں کامران ٹیسوری کی واپسی اسی ایم کیو ایم میں انہی لوگوں کے بیچ ہوئی جنہوں نے نہ صرف کامران ٹیسوری کی وجہ سے پارٹی سربراہ سے شدید اختلاف کیا تھا بلکہ سینیئر اور پارٹی کے نمایاں چہرے فاروق ستار سے بھی راہیں جدا کر لیں تھیں۔ کامران ٹیسوری کی حالیہ واپسی پر بھی ایم کیو ایم میں نہ صرف شدید اختلاف پایا جاتا ہے بلکہ شدید بے چینی بھی پائی جارہی تھی کہ ایسے میں صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ مقرر کرنا خاصہ معیوب ہے۔
گورنر کا عہدہ آئینی اور معتبر ہوتا ہے۔ کامران ٹیسوری کی سیاسی ساکھ اور شہرت اچھی نہیں ہے۔ جہاں بھی گئے ہیں تنظیم کو اندرونی اختلافات میں مبتلا کر کے سیاسی طور پر کمزور کیا ہے۔ قیاس یہ ہی کیا جاتا ہے کہ موصوف مخصوص حلقوں کے اشاروں پر حرکت فرماتے ہیں۔ یہ ہی حقیقت ایم کیو ایم کی ہے۔ آج کل ایم کیو ایم فون کالز پر آپریٹ ہوتی ہے۔ عمران کو کراچی سے جتوانے کے لیے کال آئی حکم پر عمل کیا گیا۔
اگلی بار عمران کو چھوڑ کر پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کی ہدایت ملی اس پر عمل کیا۔
اس بار شاید حکم کامران ٹیسوری کو گونرر بنوانے کا تھا اس پر بھی من و عن عمل کر دیا گیا!
گورنر صوبے بھر کی تعلیمی جامعات کا چانسلر بھی ہوا کرتا ہے۔ کامران ٹیسوری جیسی بری شہرت کی حامل شخصیت کا ایک ایسے عہدے پہ تعینات ہونا عوام کے لیے باعث تشویش ہے۔ بادی النظر میں لازماً کوئی کھیل جاری ہے جس میں ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک کرنے سے لے کر ایم کیو ایم کی از سر نو تنظیم سازی بھی شامل ہے اور اس میں تحریک انصاف سمیت فنکشنل لیگ کا بھی حصہ ہوسکتا ہے۔
اگر فاروق ستار کے فارمولے کو دیکھا جائے تو ایم کیو ایم جلد شیر و شکر ہو کر عزیز آباد کو آباد کرتی دکھائی دیتی ہے اور شاید "وہ” ایسا چاہتے بھی ہیں۔
فی الحال صورتحال کافی دھندلی ہے مگر یہ فیصلہ نہ صرف عوام بلکہ اس عہدے کا بھی مزاق اڑانے کے مترادف ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ "وہ” ملک پر کسی بھی قسم کے فیصلے مسلط کر کے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ملک ان کی رکھیل ہے ان کا جو جی چاہے گا جب چاہے گا وہ ویسے ہی کرینگے عوام کیا سوچتی ہے کیا رد عمل دیتی ہے اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ ملک اور عوام ایک تختہ مشق ہیں جس پر تجربات کیے جاتے رہینگے۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author