دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء میں ترمیم کیوں ضروری ؟…||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے پچھلے کالم میں بہت تفصیل سے بات کی کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر دونوں الگ ہیں۔ خواجہ سرا کا تاریخی پس منظر ہے، ہمارے خطے میں بہت سے خواجہ سرا خاندان غلاماں اور بعد میں مغلیہ سلطنت میں رہے، لکھنو ، اودھ اور بعض دیگر نوابین کے ہاں بھی خواجہ سرا تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر مردانہ جسم رکھنے کے باوجود مردانہ صلاحیت یا تولیدی اعضا نہیں رکھتے۔ یہ واضح ہوا کہ خواجہ سرا سے مراد وہ فرد ہے جو بیالوجیکل مرد یا عورت ہو مگر اس کے اندر(کسی میڈیکل ڈس آرڈر، ہارمونز کی کمی بیشی سے) ویسے تولیدی اعضا نہ ہوں ۔تکنیکی طور پر انہیں خنثیٰ مشکل یا Intersexکہا جاتا ہے۔ ویسے عوامی سطح پر ہمارے ہاں خواجہ سرا، خسرا، کھسرا، زنانہ، ہیجڑا ، یونک Eunuch وغیرہ کہا جاتا ہے۔ کھسرا، خسرا، چھکا، زنانہ ، ہیجڑا وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جنہیں یہ کمیونٹی پسند نہیں کرتی ، البتہ خواجہ سرا کی اصطلاح کو یہ خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب خواجہ سرا معروف اصطلاح ہے اور اسے یہ کمیونٹی خوشی سے قبول بھی کرتی ہے ، تب چار سال پہلے بننے والے قانون کو خواجہ سرا ایکٹ کیوں نہیں کہا گیا، اسے ٹرانس جینڈر ایکٹ کس لئے لکھا گیا؟ اس کے جواب ہی میں ساری کہانی پوشیدہ ہے۔ دراصل ٹرانس جینڈر ایک ایسی وسیع اور مخصوص اصطلاح(Umbrella Term) ہے جس کے نیچے وہ بھی آ جاتے ہیں جواصلاً خواجہ سرا نہیںاور جنسی رجحانات کے تحت اپنی جنس بدلنا چاہتے ہیں۔ مغرب میں ٹرانس جینڈر سے مراد ایسا فرد ہے جو چاہے جسمانی طور پر مکمل مرد ، مکمل عورت ہے لیکن وہ ذہنی طور پر اس سے مختلف سوچتا ہے ۔ ایک مرد جو شادی کر کے بچے پیدا کر سکتا ہے ، مگر ذہنی اور نفسیاتی طور پر وہ خود کو عورت سمجھتا ہے، وہ نسوانی لباس پہننا، نسوانی میک اپ، جیولری پہننا اورخواتین کی طرح رہنا چاہتا ہے، وہ ٹرانس جینڈر ہے۔ کم وبیش یہی بات ایسی عورت کے بارے میں بھی ہے، جو مردوں کی طرح رہنا اورویسی (جنسی) زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ایل جی بی ٹی مشہور اصطلاح ہے مگر اب اس میں مزید اضافے ہوگئے ہیں، اب یہ LGBTQIA2Sبن گئی ہے۔ اس میں ایل سے لیزبین، جی سے گے، بی سے بائیوسیکشوئیل یعنی دونوں رجحانات رکھنے والا ، ٹی سے ٹرانس جینڈریعنی وہی جس کی تعریف اوپر بیان کی ہے، کیو سے مرادایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارے رجحانات کے بارے میں پوچھا نہ جائے کیونکہ وہ مختلف اوقات میں مختلف جنسی رجحان رکھتے ہیں۔ اسی طرح اے سے مراد اے سیکشوئل ہے یہ ایک اور عجیب وغریب معاملہ ہے یعنی ایسے لوگ جو مرد ہیں یا عورت ہیں مگر انہیں جنس سے کوئی دلچسپی نہیں ، وہ کسی بھی قسم کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتے ،2 ایس سے مراد ٹو سپرٹ ہے یعنی ایک جسم میں دو روحیں، بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کے بعض قبائلی ٹائپ گروہوں میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ ایک فرد خود کو کبھی مرد تصور کرتا ہے اور کبھی عورت ، تو 2 ایس دراصل اس پیچیدہ جنسی تصور کرنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اتنی تفصیل سے اس لئے بیان کیا کہ اس پوری اصطلاح اور اس کے مختلف حصوں میں ایک نکتہ مشترک ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر فرد کو مکمل آزادی اور اختیار حاصل ہے۔ اپنی پیدائشی جنس سے قطع نظر جو بھی چاہے صنف اختیار کرے ، جو بھی جنسی رجحانات اپنائے۔ اپنے طور پر جو بھی کرے ، کسی کو کوئی حق نہیں کہ اس سے سوال پوچھ سکے، اس پر پابندی لگائے یا دبائو ڈالے۔ ان سب کو امریکی اور یورپی قوانین نے مکمل جنسی آزادی دے رکھی ہے بلکہ اب تو بھارت اور کچھ دیگر ممالک میں بھی کم وبیش ایسا ہی ہوچکا ہے ۔یہ لوگ اپنے اندرونی احساس یعنی اِنر موسٹ فیلنگ کے تحت کچھ بھی کریں، کوئی بھی صورت اختیار کریں، اس کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ مغربی تصور اور دلیل ہے کہ کوئی بھی فرد اپنی خود ساختہ اندرونی شخصیت کے مطابق کوئی بھی شناخت لے سکتا ہے، اس کے لئے اصطلاح استعمال کی جاتی ہے:Self Percieved Gender identity. اس سیلف پرسییوڈ جینڈر آئیڈینٹٹی کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرد اگر کسی وجہ سے (کسی نفسیاتی عارضے یا جنسی رجحان یا کسی ایڈونچر ازم کے باعث)خود کو عورت کہلانا چاہے تو اسے عورت ہی مان لیا جائے ۔ بے شک وہ جسمانی طور پر مرد ہی ہو، وہی تولیدی اعضا رکھتا ہو۔ وہ سکرٹ بلائوز پہنے، لہنگا چولی یا ساڑھی یا کچھ بھی ، یہ اس کا حق ہے۔ پھر یہیں تک نہیں بلکہ زندگی کے سفر میں آگے جا کر، چندسال بعد وہ پھر سے تبدیلی چاہے اور مرد بن جائے تو اسے پھر سے مرد مان لیا جائے۔ اس کی شناختی دستاویزات تبدیل ہوجائیں وغیرہ وغیرہ۔ ’’سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی‘‘ کا تصور سمجھنے کے لئے سابق بروس جینر اورموجودہ کیٹیلن جینر کی مثال لے لیں۔کارڈیشن فیملی امریکہ کی مشہور سیلبریٹی فیملی ہے۔ کم کارڈیشن اداکارہ، ماڈل ،سوشلائٹ شخصیت ہے، اس کی والدہ نے اپنے خاوند رابرٹ کارڈیشن سے طلاق لے کر امریکہ کے ایک مشہور ایتھلیٹ بروس جینر سے شادی کی۔ بروس جینر کی پہلی دو بیویوں سے چار بچے تھے، خیر بی بی کرس جینر سے اس کی تیسری شادی ہوئی جو تیئس سال چلی ۔ اس دوران دو بچے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک بیٹی کائلی جینر مشہور سیلبریٹی اور کروڑ پتی بزنس ویمن ہے۔پھر طلاق ہوگئی اور طلاق کے ایک سال بعد بروس جینز نے اعلان کیا کہ دراصل اندر سے تو وہ عورت کے جذبات رکھتا ہے اور اس کی’’ سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی‘‘ عورت کی ہے۔ اس نے اپنا نام بدل کر کیٹیلن جینر رکھ لیا ۔آج وہ نامور ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ ہے ۔رفتہ رفتہ ہارمون تھراپی اور سرجریاں کرا کر باقاعدہ عورت بن گیا۔ اب دنیا سے چھ بچوں کے باپ بروس جینر کا وجود ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ کیٹیلن جینر نامی ایک عورت ہے۔ اس کے چھ بچوں کا باپ جیتے جی تحلیل ہوگیا ۔ تو صاحبو یہی وہ سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈینٹی کا تصور ہی ہے جس وجہ سے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 میں ترمیم ضروری ہے۔ایکٹ میں خواجہ سرائوں کے لئے کئی اچھے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں، ان سب کی حمایت ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ پاکستانی خواجہ سرا وںکی زندگی میں مثبت تبدیلی آئے، اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں ختم ہوں، انہیں تعلیم وصحت کی سہولتیںملیں، سرکار سے وظائف ، قرضے ملیں،ملازمتیں ملیں وغیرہ وغیرہ۔ان سب کی مخالفت کون کرے گا؟ اس ایکٹ کو ختم کرنا مقصود نہیں، ترمیم کے خواہش مند ہیں۔ تین چیزوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو اس میں ٹرانس جینڈر کی جو تعریف کی گئی ہے، اس میں خواجہ سرا کے ساتھ اس ’’سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی ‘‘کے تصور کو ڈال دیا گیا کہ جو بھی شخص مرد ہوتے ہوئے خود کو عورت کہے، اس پر کوئی اعتراض نہ کرے، کوئی میڈیکل اپ چیک اپ نہ ہو اور اسے فوری عورت مان لیا جائے۔ اس کی شناختی دستاویزات اور ہر جگہ اس حوالے سے رجسٹریشن ہوجائے ۔ یہ غلط، غیر اخلاقی، غیر شرعی اور نامناسب ہے۔ یہ ایک طرح سے سپریم کورٹ کے 2012کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق شناخت کی تبدیلی کے لئے میڈیکل چیک اپ ضروری ہے۔ اس ایکٹ میںپہلی بار یہ مان لیا گیا کہ جنس(SEX) الگ ہے ، صنف(Gender)الگ۔ دوسرا یہ کہ جنس بائیولوجیکل یعنی پیدائشی ہے جبکہ صنف کا تعلق معاشرے کی اقدار سے ہے ۔ تیسرا یہ کہ اگر جنس الگ ہے ، صنف الگ تو صنف کا تعین معاشرے کی اقدار یا اخلاقیات یا مذہبی قوانین کے بجائے فرد کے خالصتاً ذاتی اختیار میں ہے۔ کوئی فرد جو بھی صنف چن لے ، وہ اس کاذاتی معاملہ ہے۔ اعتراض تو دور کی بات ہے، اس پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتا۔ یاد رہے کہ یہ پہلی بار یہاں ہوا ہے، ورنہ عام طور سے جنس اور صنف ایک ہی مانی جاتی ہیں۔ ایک بچہ میل پیدا ہوا یا فی میل، یہی اس کی جنس یہی اس کی صنف ہے ۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مطابق ایک مرد جو تمام تر مردانہ صلاحیتیں رکھتا ہے، وہ بھی اگر کسی نفسیاتی عارضے یا جنسی رجحان یا جنسی غلبہ کے تحت خود کو عورت کہے تو ہر جگہ اس کی بطور عورت رجسٹریشن ہوجائے ۔ ہمارا اس پر اعتراض ہے ۔ میڈیکل چیک اپ کے بغیر ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیکل چیک اپ میں سائیکالوجسٹ کی رائے بھی ضرور لی جائے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کسی نفسیاتی عارضہ جیسے جینڈر ڈسفوریا میں تو مبتلا نہیں ، جس کی ٹریٹمنٹ ہوسکتی ہے، ہارمون تھراپی وغیرہ بھی۔ حرف آخر یہ کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ اتنا سادہ نہیں ۔ آج کی دنیا میں بہت کچھ تہہ در تہہ اور پرت در پرت چلتاہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ جو کچھ چینلز پر آ کر اپنی شیریں زبان میں بیان کر رہے ہیں، وہ سب درست نہیں، بہت کچھ خلاف واقعہ ہے ۔اس لئے اس ایشو کو سیریس لیں۔ اپنے بچوں اور اپنے معاشرتی نظام کو بچانے کے لئے کھڑے ہوں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم ہونی چاہیے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ الماس بوبی جیسے معروف خواجہ سر ا رہنما بھی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں؟ اگر ترمیم کا مطالبہ خواجہ سرائوں کے خلاف ہوتا تو یہ خواجہ سرا رہنما اس کی حمایت کیوں کرتے؟

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author