محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل مجموعی طور پر ایک خوبصورت شہر ہے، پہاڑوں میں بسا تاریخی، کلچرل۔، صدیوں کے ورثے اور روایتوں کا امین۔ کابل اگرچہ زیادہ بلند نہیں ، مگر یہاں موسم نسبتاً بہتر ہے،موسم گرما میں تپش رہتی ہے، مگر شام خنک ہوجاتی ، سردیوں میں برف باری عام ہے۔ کابل کے آس پاس کے پہاڑ خشک اور سنگلاخ ہیں، شہر سے باہر نکلیں توخالص دیہاتی علاقہ کا نقشہ نظر آتا ہے، میلوں دور تک کشادگی ۔ کابل سحر خیز شہر ہے، لوگ صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں اور آٹھ نو بجے دفاتروغیرہ میں میٹنگز، سمینار بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم نے غرجستان یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شرکت کی، غرجستان سنٹرل افغانستان کا تاریخی نام ہے۔وہاں نو بجے پہنچے تو ہال طلبہ اور ٹیچرز وغیرہ سے مکمل طور پر بھرا تھا۔ جس ہوٹل میں رہتے تھے، وہاں ہم جس وقت ناشتہ نوش فرمانے تشریف لے جاتے، تب ہوٹل کے مختلف بورڈ رومز میں کسی پروگرام کے شرکا پوری طرح تیار ہوئے لابی میں پہنچے ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ جلد سو جاتے ہیں۔ کابل میں نو، دس بجے شہر آنکھیں موند لیتا ہے۔ ’’شہرنو‘‘وہاں کا جدید علاقہ ہے، جہاں رونق بھی زیادہ ہے، جدید طرز کے ریستوران کھلے ہیں، کافی ہائوس جہاں شیشہ بھی پیا جاتا ہے وغیرہ ۔شہر نو میں بھی دس بجے لگتا ہے کہانی ختم ہوگئی۔ ایک دن ہم تاخیر سے فارغ ہوئے، رات کے کھانے کے لئے نکلتے دیر ہوگئی، ساڑھے نو ، پونے دس بجے مختلف ہوٹلوں کا پتہ کرتے رہے، مشکل سے ایک ترکمان ہوٹل میں کھانا مل پایا۔ بعد میں ہوٹل والے باربار معذرت کرتے رہے کہ آپ لوگ دس بجے آئے ، اس لئے خاطر خواہ خاطر نہیں کر پائے وغیرہ۔ اپنے کسی پچھلے کالم میں اشارہ کیا تھا کہ افغان گوشت خور ہیں، بڑے ذوق شوق سے مٹن، دنبے کا گوشت وغیرہ کھاتے ہیں۔ ہر دعوت میں کابلی یا قابلی پلائو کے ساتھ روش،دم پخت، تکے کباب، دنبہ کڑھائی وغیرہ لازمی ہوتے، ایک اور افغان ڈش جو اکثر ملتی رہی، وہ مونتو ہے۔ یہ چین سٹائل کی ڈمپلنگز یا ہمارے ہاں ملنے والے موموز ٹائپ ڈش ہے، نرم سموسہ نما چیز جس میں قیمہ یا پیاز ٹماٹر بھرا ہوتا، میرا خیال ہے یہ میدے سے بنتی ہے، افغان اس میں لوبیہ کے کچھ دانے بھی ڈال دیتے۔ میں کابلی پلائوسمجھتا رہا ، مگر پچھلے کالم کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ یہ قابلی پلائو ہے اور روایت کے مطابق قابل خان نامی ایک مشہور باورچی ارگ (افغان صدارتی محل)میں ملازم تھا، وہاں اس نے یہ پلائو ایجاد کیا ۔ بعد میں نوکری سے نکال دیا تو اس نے کابل شہر میں پلائو کا کام شروع کر دیا اور یوں یہ قابلی پلائو نہ صرف افغانستان بلکہ آس پاس کے ممالک تک مشہور ہوگیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کابل میں اندازہ ہوا کہ لوگ دال بالکل پسند نہیں کرتے، اس کے بجائے سرخ لوبیہ دعوتوں اور ہوٹلوں میں مل جاتا ہے۔ سبزی میں البتہ بھنڈی وغیرہ عام ہے، دیگر سبزیاں بھی عام نہیں۔مقامی افغان بتاتے تھے کہ جلال آباد وغیرہ میں صورتحال نسبتاً مختلف ہے، وہاں شائد پاکستانی اثرات کے پیش نظر دال ، سبزی ہوٹلوں میں مل جاتی ہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ چلیں گوشت، کباب وغیرہ کچھ سستے مل جاتے ہوں گے، مگر بہرحال غریب افغان کے لئے گوشت مہنگی ڈش ہے، تو وہ کیا کرتا ہے۔ میرا یہ سوال شائد مقامی دوست سمجھ نہیں سکے یا ان کے نزدیک غریب افغان کی تعریف مختلف ہے، بہرحال وہ یہی کہہ دیتے کہ ہر جگہ گوشت مل جاتا ہے۔ ویسے لوگوں میں سادگی ہے، خاص کر طالبان کے حوالے سے تو ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تنور سے نان لے کر آرام سے قہوہ کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ یہ کلچر شائد آج بھی ہو۔ دلچسپ بات ہے کہ ہر جگہ نان یاافغانی روٹی ہمیں ٹھنڈی ہی ملی۔ شائد رواج ہی اسی کا ہے۔ ہر قوم میں مہمان نوازی کا کلچر کچھ نہ کچھ ہوتا ہے،بعض لوگ بہت کشادہ دل اور کھلے ہاتھ کے ہوتے ہیں، کچھ نہیں۔ پاکستان میں پختون مہمان نواز کلچر کے لئے مشہور ہیں، میں نے بلوچستان میں دیکھا کہ مہمان نوازی ان پر ختم ہے۔ افغان روایتی طور پر بہت مہمان نواز ہیں۔ ہم نے جگہ جگہ اس کا مظاہرہ دیکھا۔ لوگ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اپنا سب کچھ مہمان پر لٹانے کو تیار ہوجاتے۔ کئی بار ہمیں کسی پارک وغیرہ میں گھومتے کوئی نوجوان ملا جو اپنے حلیہ اور باتوں سے لوئر مڈل کلاس کا نظر آ رہا تھا، اس نے مگر نہایت تپاک اور پرجوش انداز میں اپنا مہمان بننے کی دعوت کی اور اس پر اصرار کیا۔ ہمارے دورہ افغانستان میں مقامی افغانوں میں زیادہ تر تاجک ملتے رہے ، جو پشتو نہایت روانی سے بولتے تھے، انہوںنے بڑی محبت اور تپاک سے ہمارا خیال رکھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پشتون نہیں بلکہ تاجک ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہر تاجک پاکستان مخالف ہے۔ کابل جانا ہو تو پشتو یا فارسی آنا لازمی ہے، ورنہ یہ زبانیں جاننے والا کوئی دوست ساتھ لیں، یا پھر کسی مقامی کی خدمات حاصل کی جائیں۔ دکانوں کے بورڈز وغیرہ سب دری(افغان فارسی )میں ہیں، وہ کچھ نہ کچھ سمجھ آ جاتے ، مگرلوگوں کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی۔ اردو بھی پرانی نسل کے لوگ جانتے سمجھتے ہیں، مگر نئی نسل نہیں۔اس لئے ابلاغ فارسی، پشتو میں ہوگا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے کابل کے نواح میں واقعہ اپنے فارم ہائوس میں دعوت دی۔ کابل سے باہر نکلے تو ایک وقت آیا کہ لگا جیسے کسی صحرا میں ہیں ، مٹی کی دیواروں سے بنے قلعہ نما مکان اور کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔ دعوت شاندار تھی، کئی قسم کے پکوان ۔ خاص بات یہ لگی کہ ملازموں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے بھی میزبانوں نے اپنے ہاتھ سے سب کچھ سرو کیا۔ ڈاکٹر صاحب خود قہوہ کا تھرماس لے کر آئے اور ہر ایک کی پیالی میں قہوہ ڈالا، پھر نظر رکھی اور دوسری تیسری بار بھی آ کر بھردی۔یاد رہے کہ افغانستان میں چائے سے مراد قہوہ لیا جاتا ہے۔ آپ سے چائے کا پوچھا جاتا ہے ، اقرار میں جواب دینے کے بعد آپ دودھ پتی ٹائپ کسی چائے کے منتظر ہوتے ہیں، ذہن میں لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کوئٹہ ہوٹلوں کی گلابی تیکھی چائے کی بھاپ اڑاتی پیالی ہوتی ہے۔اس چائے کے بجائے مگر قہوہ ہی آتا ہے، گو مزے دار اور ہاضم۔کہتے ہیں کہ کابل کا پانی اس سبز چائے کے لئے نہایت موزوں ہے۔بات درست لگتی ہے۔ ایک دو بار صبح جلد اٹھ کر باہر جانے کا موقعہ ملا تو اکثر بلکہ بیشتر دکانوں پر دکانداروں کو ہاتھ میں تسبیح پکڑے ذکر کرتے پایا۔ اس میں عمر کی قید نہیں تھی، بزرگ لوگ تو تسبیح ہاتھ میں پکڑے عام نظر آجاتے، مگر نوجوان دکاندار بھی مخصوص مقامی کشیدہ کاری والی قمیص پہنے آرام سے تسبیح پھرول رہے ہوتے۔ میں نے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا کہ دیکھو یہ کلچر کا حصہ ہے، بظاہر سیکولر نظر آنے والے نوجوان بھی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ ان کا سیکولراز م انہیں مذہب سے بیزار نہیں کرتا، پاکستان میں البتہ الٹ حساب ہے۔لوگوں کا عام پہناوا شلوار قمیص ہی ہے، مجھے تو بہت ہی کم لوگ جینز شرٹ میں نظر آئے، البتہ بعض جگہوں پر ان کی جاب کے حساب سے سوٹ وغیرہ میں ملبوس لوگ تھے۔ بازاروں میں اکثر ریڑھیوں پر فلافل ملتی، یہ ایک مزے کی چیز ہے، اب تو ہمارے ہاں بھی بننے لگی ہے۔ مجھے کابل میں ان کی مشہور روایتی آئس کریم’’ شیریخ‘‘ بہت پسند آئی، اسے ملائی کے ساتھ دیتے ہیں، اس کا لطف اخیر قسم کا ہے۔ سنا ہے کوئٹہ میں یہ ملتی ہے۔ کابل کی سب سے بڑی خامی اس کی خوفناک بلکہ دہشتناک ٹریفک اور کسی بھی قسم کے اصول وضوابط سے عاری ڈرائیونگ ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی بری اورہوش اڑا دینے والی ڈرائیونگ کہیں نہیں دیکھی۔سٹرک پر کوئی شخص کسی بھی قسم کا اصول نبھانے کو تیار نہیں تھا۔ جس کا جہاں جی چاہتا، وہاں سے گاڑی موڑ لیتا اور ایک دوسرے کے آگے زگ زیگ انداز میں یوں گاڑی دوڑا کر نکلتے کہ ہم جیسوں کا خون خشک ہوجائے۔اوپر سے ڈرائیونگ امریکی انداز میں لیفٹ ہینڈ ، جو ہمیں ویسے ہی سمجھ نہیں آتی۔ پاکستان میں ایسی بری ڈرائیونگ ملتان میں دیکھی ہے۔ ملتانی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جس نے ملتان میں گاڑی چلا لی، وہ دنیا میں کہیں مار نہیں کھا سکتا۔ ملتانیوں کوخبر ہو کہ کابلی ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ میں نے تو کابل میں اکا دکا ہی سگنل دیکھے، ان میں سے کوئی کوئی ہی فنکشنل تھا۔ شہر میں ٹریفک جام عام ہے اور گھنٹوں راستے میں لگ جاتے ہیں۔ امریکیوں نے اپنے بیس سالہ دور میں کابل کو کچھ نہیں دیا۔ انفراسٹرکچر کے نام پر تو کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ شہر میں بے پناہ ٹریفک اور ہجوم کے باوجود کہیں پر اوورہیڈ برج یا انڈر پاس نہیں۔ شہر میں کوئی ہسپتال امریکیوں نے نہیں بنایا، نہ ہی ان کی بنائی کوئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جنہیں افغان یاد رکھیں۔ افغانستان میں وہ انڈسٹری چھوڑ گئے نہ ہی زراعت میں مقامی کسانوں کو ٹرینڈ کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہایت خود غرض مالکوں کی طرح انہوں نے صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور سینکڑوں ارب ڈالر سکیورٹی پر اڑا ڈالے۔ افغان عوام اور ملک کی ترقی ان کا ہدف تھا ہی نہیں۔ (جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر