نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹرانسجینڈر ایکٹ اور پروہتی ہٹ دھرمی||ڈاکٹر عبدالواحد

ڈاکٹر عبدالواحد سرائیکی وسیب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بطور ماہر تعلیم خدمات انجام دے رہےہیں، وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، انکی تحریر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ڈاکٹر عبدالواحد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز پنجاب کے مذہبی رہنماؤں کے اتحاد نے منگل کو خواجہ سراؤں کے ایکٹ 2018 میں کی گئی ترامیم کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا اور اس قانون کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیا۔ علما کے مطابق اسلام نے خواجہ سراؤں کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا لیکن 2018 کا خواجہ سرا قانون اسلامی احکام کے مکمل طور پر خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ایک سیمینار کا انعقاد کریں گے اور اپنی احتجاجی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی منظوری کے بعد سے، تقریباً 28,000 خواجہ سراؤں نے متنازعہ قانون کے تحت فراہم کردہ میڈیکل بورڈ کے ذریعے بغیر اپنی مرضی سے جنس کی تبدیلی کے لیے درخواست دی تھی۔ یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کون سی ایسی شقیں شامل ہیں جن کی بنیاد کے اوپر مذہبی طبقات اس ایکٹ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ایکٹ کے پاس ہونے سے پہلے خواجہ سراؤں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں کیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔

سب سے پہلے ہم دوسرے سوال پر غور و خوض کرتے ہیں تو ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ خاندانی زندگی میں انہیں چھیڑا اور مارا پیٹا جاتا ہے۔ والدین کی رفاقت کے حوالے سے، مائیں اور بہنیں عام طور پر خاندان کے ان جنسی طور پر غیر معمولی رکن کے تئیں ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں اور سمجھ بوجھ بھی رکھتی ہیں۔ مگر مرد حضرات انہیں تذلیل و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ خاندانی جہالت اور ظالمانہ رویے کے نتیجے میں، زیادہ تر خواجہ سرا اپنی برادری میں رہ رہے ہیں (گرو اور دیگر خواجہ سراوٰں کے ساتھ) اور چند اپنے خاندانوں کے ساتھ بھی رہتے تھے۔

زیادہ تر خواجہ سراوٰں کی تعلیم بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے نہ تو مخصوص سکول قائم ہیں اور نہ ہی عام سکولوں میں وہ بچوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ خواجہ سراوٰں کی اکثریت کے پاس کوئی نوکری نہیں ہوتی کیونکہ اس ایکٹ سے پہلے ان کے پاس کوئی قانونی دستاویز یعنی کہ شناختی کارڈ ہی نہیں ہوتا تھا۔ عوامی مقامات پر خواجہ سراوٰں کے تئیں لوگوں کا رویہ بہت ہی بہیمانہ ہے۔

اس امتیازی سلوک کی وجوہات میں شامل ہیں : اولاً، وہ کمتر انسان سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہیں اپنا معیار زندگی بلند کرنے یا کمانے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ معاشرہ نہ صرف انہیں ملازمت کے مراحل سے خارج کرتا ہے بلکہ انہیں حقیر نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ سکولوں، دفاتر اور عوامی مقامات پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ انہیں کبھی کوئی حق نہیں دیا گیا اس لیے انہیں اپنے بنیادی انسانی حقوق یعنی ووٹ ڈالنے کا حق یا وراثت حاصل کرنے کے حق کا کوئی علم نہیں ہے کیونکہ ان کے اہل خانہ ان کو اپنا وارث یا اپنی اولاد ظاہر کرنے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور خواجہ سراوٰں کو اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ رہنے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ مولویوں اور دیگر مسلمانوں کی تذلیل کی وجہ سے خواجہ سرا مساجد اور دیگر مذہبی مقامات میں بھی داخل نہیں ہوسکتے تھے۔

یہ مظالم معاشرے کے سامنے واضح طور پر موجود ہیں یہاں تک کہ پشاور اور اس کے دوسرے ملحقہ علاقوں میں خواجہ سراؤں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا جاتا تھا۔ وہ اپنی قانونی دادرسی بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس بنیادی قانونی دستاویز یعنی شناختی کارڈ جو اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ اس ملک کا شہری ہے حاصل کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ان تمام مظالم کے باوجود آج تک کسی مذہبی جماعت نے ان کے حقوق کی حفاظت اور ان مظالم کے خلاف کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی منبر و محراب سے اس کے اوپر آواز اٹھائی گئی ہے۔ مگر ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتیں مسلسل برسرپیکار ہیں کہ یہ ایکٹ قرآن و حدیث اور شریعت کے خلاف ہے۔

چلو اس نقطہ نظر پر بھی ہم ایک نظر دوڑا کر دیکھ لیتے ہیں کہ اس ایکٹ میں کون کون سی چیزیں موجود ہیں جو خلاف شریعت ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی جماعتوں کا یہ نقطہ نظر ہے کہ اس سے ہم جنس پرستوں میں شادی کا رجحان بڑھے گا۔ دوسرا یہ کہ جنس کی تبدیلی کے رجحانات میں اضافہ ہو گا۔ اس ایکٹ میں صرف ایک لفظ لکھا گیا ہے کہ
self perceived gender identity
جس کا مطلب ہے کہ وہ خود اس بات کا اظہار کرے کہ وہ تیسری صنف سے تعلق رکھتا ہے اس شناخت کے لیے کسی میڈیکل بورڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

مگر پورے ایکٹ میں کہیں بھی خواجہ سراوں کی آپس میں شادی کے حق کا تذکرہ تک بھی نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی اس بات کو قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا۔ اس ایکٹ میں وراثت، تعلیم، ملازمت، ووٹ دینے، صحت کے بنیادی حقوق حاصل کرنے پبلک مقامات تک جانے اور پراپرٹی رکھنے کے حقوق شامل ہیں۔ اور ان کی صنف کی بنیاد پر ان کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کے سدباب پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں پر میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا تیسری صنف یعنی خواجہ سرا بنیادی حقوق کے مستحق نہیں ہے؟ کیا وہ انسانی معاشرے میں بطور انسان زندہ نہیں رہ سکتے ہیں؟ کیا وہ بحیثیت شہری اپنی ریاست سے بنیادی حقوق کی تحفظ کی ضمانت نہیں لے سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان پروہتی جماعتوں سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ پھر اس ملک میں زندہ بھی نہیں رہ سکتے؟

ڈاکٹر عبدالواحد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author