دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’چھوٹے‘ لوگوں کی ’بڑی بڑی‘ باتیں!||نعیم مسعود

کیا قصور پولیس کا ہے؟ (ہو گا تھوڑا سا! ) ہماری داستاں حسرت دیکھئے، ہم نے ایک گزارش ایک سو فیصد ایمان دار بڑے پولیس والے سے کی انہوں نے ڈی آئی جی آپریشن کی ڈیوٹی لگائی، چونکہ سفارش کی سعادت سے قبل اس نے بے گناہ کرنے کا 35 ہزار مانگا تھا، جب سفارش ہو گئی، تو اے ایس آئی نے فٹا فٹ عدالت میں جا بجا دیا کہ ”ملزم شامل تفتیش نہیں ہوا۔“

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کو افسانے چاہئیں، کوئی چاپلوسی کا متلاشی، کوئی خوشامد کو ترس رہا ہے، اور ہمارا کمال بھی دیکھئے کہ ہم ان سب کے پیچھے پیچھے۔ قصور ہمارا کتنا ہے یا قصور ہمارا ہی ہے، اس پر بات ضروری ہے مگر پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ، متوازن معاشرے کے قیام کے لئے انصاف چاہیے اور یہ فراہم کرے گا کون؟

عمران خان کو حکومت، شہرت اور ”سیاسی فلاح“ کے لئے دولت چاہیے سو ہم عوام حاضر ہیں، یہ ہم دے دیں گے، ہم سے نہ بن پڑا تو دیار غیر میں بسنے والے اپنے عزیزوں سے کہیں گے انشاءاللہ وہ دے دیں گے۔ اس سے تو بے فکر ہو جائیے کیونکہ کچھ سے سمجھتے ہیں سسٹم کا حصہ بننا فضول ہے کچھ پرزے خرید دو!

شریف خاندان کو حکومت درکار ہے، کیوں فکر کرتے ہیں جی ہم عوام زندہ ہیں ابھی، آپ کو مایوس نہیں ہونے دیں گے، قدموں وہ سب تخت و تاج نچھاور کر کے دم لیں گے، تین دفعہ براہ راست بڑے میاں صاحب کو وزیر اعظم بنایا، چوتھی دفعہ شہباز شریف کی شکل میں بنایا، ’فکر ناٹ‘ ۔ آپ کہیں گے، تو پانچویں دفعہ مریم نواز کی شکل میں میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنا دیں گے۔ موسمی تبدیلی کے ماہرین اس پاکستان کے لئے کچھ کریں نہ کریں مگر انہیں یہ معلوم ہے موسمی تغیر سے جنوبی پنجاب، سوات، سندھ اور بلوچستان ہی دریا نہیں ہمارا دل بھی دریا ہے، وہ دل، جس کے لئے کہا جاتا ہے :

دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو

پہلے بڑے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے لوگوں کا روڑا مٹی گھارا چن چن کر پاکستان بنایا، پاکستان بن گیا تو ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کو دیوار میں چن دیا یہ کہہ کر کہ ہیرے جواہرات یوں چنے جائیں تو جگمگائیں گے سو وہ خوشی خوشی پتھروں کے سنگ سنگ پتھر ہو گئے، ان کی آنکھیں پتھر تو کبھی دروازہ ہو گئیں، کہ وہ آئیں امیدیں، وہ آئیں روشنیاں اور وہ آئیں تبدیلیاں۔ دیوار میں چنے لوگ دیکھتے ہی رہ گئے زندگی کے اس میلے میں کسی نے اقتدار کا جھولا جھلایا، کسی نے اپنے صحرا گلشن کیے ، کسی کے شبستان سے متصل تھی بہشت، اور معاونین اسلام کے ہاں اپنے بہشتی دروازے کھل گئے!

وہ چھوٹے چھوٹے آفتاب جو زمین کو روشن کرتے نہیں تھکتے جو پولیس، پروفیسرز، ڈاکٹرز، مولوی، جج اور جرنیل کے باغیچے کے لئے ضیائی تالیف اور سرخ گلابوں کا لہو ہیں، جن کی ماہانہ آمدنی 30 ہزار سے کم ہے انہیں 35 ہزار کا اس ماہ کا بجلی کا بل آیا ہے، جو تیری راہوں کا چانن ہیں، اے اشرافیہ! تجھے سلام تو ان پر بجلی بن کر ٹوٹا! وہ جو تبدیلی سرکار کے وقار بنے بیٹھے ہیں کل دیکھا انہیں وہ شاہ محمود قریشی کی موروثی سیاست کا سہارا بنے بیٹھے تھے اور چند دن تک بلاول وی بھی آئیں گے جو گیلانی سرکار کے موسٰی کی موروثیت کی موسیقیت میں اپنے راگ رنگ کا مظاہرہ کریں گے اور چھوٹے لوگوں کے لئے یہ بڑی بڑی باتیں نغمگی رکھتی ہیں، مزید بونا کرتی ہیں، اور یہ سماجی و سیاسی بونے اس قدر خود سوز ہیں کہ کوئی ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتا کچھ تو اپنا ڈی این اے اور کچھ تاریخی فریب کے ڈی این اے ہائبرڈ ہے جو عام آدمی میں سرایت کرچکا، یہاں کا ’شاہ‘ ڈی سی لگ جائے یا فور جی وہ نذرانہ مانگنے سے باز نہیں آتا صدقہ و زکوٰۃ اس پر جتنا بھی حرام ہو اس کے اندر کا کی انسانیت مر سکتی ہے پلسیا نہیں۔ اب ساری دنیا خورشید شاہ تو نہیں ہو سکتی۔

پلسیوں پر بھی شاید ہم ایسے ہی غصہ نکالتے ہیں، حقیقتاً انصاف ان کے در سے نہیں قانون ساز کے گھر سے شروع ہوتا ہے، بلکہ یہ عدل عدالت کے بالا خانوں سے قانون دانوں ہی سے نہیں عروج پاتا یہ قانون کے دماغوں سے پھوٹنے والی کرنوں یا شیش محلوں سے نمود اور نشوونما پاتا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دستور کی 10۔ اے فیئر ٹرائل اور ڈئیو پراسس کا وقار نہیں دے پاتیں یا ساتویں سے اٹھائیسویں تک کی تمام دفعات انسانی حقوق ترجمانی تو ہیں مگر عمل کی پاسداری نہیں، تو قانون سازوں نے کیا سوچا؟

پلسیوں کی مثال دینی تھی، حالانکہ میں ہمیشہ ان کا طرف دار ہوتا ہوں۔ جانتے ہیں ان کا طرف دار کیوں ہوتا ہوں، کہ میں قانون ”ہاتھ“ میں رکھنے اور لینے والوں کا رسک لینے اور بھرم پاش پاش ہونے کی تکلیف سے میں بچنا چاہتا ہوں کیونکہ اس سے زندگی ذرا احسان اور نقصان سے پاک رہتی ہے۔ ایسے ہی جیسے میں ان دوستوں سے دور رہتا ہوں جن کے ہاتھ میں بندوق اور نیچے کرسی آ جائے۔ قربتوں نے اقتدار اور کرسی کے نشہ میں دوستوں کو دیکھا ہوتا ہے۔

ملکہ الزبتھ تو اس جہاں سے کوچ کر گئی مگر جو ہماری نسلوں میں غلامی رکھ گئی اس کا معیار اور انتشار یہ ہو چکا کہ غلام کے ہاتھ کرسی لگ جائے تو اس کی بچت کے لئے وہ دوستوں اور دشمنوں کے لئے برابر مہلک ہو گیا ہوتا ہے ’بڑے لوگوں‘ کی تو بات ہی چھوڑیں ان کے لئے والدین بھی چھوٹے ہو گئے ہوتے ہیں، والدین اور سچائی صرف ’چھوٹے‘ لوگوں کے بڑے چونچلے رہ گئے ہیں۔ اوہ، بات پھر نہ رہ جائیں، ہم نے پچھلے دور میں ایک مولوی کی وزارت عظمیٰ تک پہنچ کا استعمال دیکھا کہ، ایک ڈی ایس پی کہتا تھا، جنت کی حوروں تک رسائی والے مولوی کی مان لیں ورنہ ڈکیتی میں اندر مردوں گا، اور اس نے ایک بے گناہ کو مولوی کے ایمان کی سلامتی کے دبدبے کے سبب ڈکیتی ہی میں اندر کیا۔

کیا قصور پولیس کا ہے؟ (ہو گا تھوڑا سا! ) ہماری داستاں حسرت دیکھئے، ہم نے ایک گزارش ایک سو فیصد ایمان دار بڑے پولیس والے سے کی انہوں نے ڈی آئی جی آپریشن کی ڈیوٹی لگائی، چونکہ سفارش کی سعادت سے قبل اس نے بے گناہ کرنے کا 35 ہزار مانگا تھا، جب سفارش ہو گئی، تو اے ایس آئی نے فٹا فٹ عدالت میں جا بجا دیا کہ ”ملزم شامل تفتیش نہیں ہوا۔“

عالمی استعماریت، استبدادیت، نو آبادیت اور سامراجیت کی روحانی پیشوا ملکہ الزبتھ کا عہد تو کل پرسوں تمام ہو گیا مگر 2 سو سال تک مسلط کردہ غلامی کے متشکل ڈی این اے جاگیر داروں اور غلام افسر شاہوں، عادلوں، سانڈوں اور سپہ سالاروں میں ایسے سرایت کر گئے، کہ گلوبل ولیج کے بڑی بڑی باتوں والے ”چھوٹے لوگ“ ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں والے ”بڑے لوگوں“ کے غلام ٹھہرے، تبدیلیاں، اصلاحات اور انقلاب گئے تیل لینے!

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

About The Author