امجد نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف بارش، برسات اور سیلاب کی یلغار ہے تو دوسری طرف آلو، ٹماٹر اور پیاز کو ہاتھ لگاؤ تو کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ملک میں جب ٹینڈے، کدو، کریلے اور بینگن بھی عوامی رسائی سے باہر ہونے لگیں تو سمجھ لیں کہ صورت حال تشویشناک ہے۔
اقتصادیات میں نوبل انعام یافتہ پروفیسر امرتیا سین کے نظریے مطابق (غربت اور قحط سالی: محرومی اور قوت خرید۔ 1981 ) : ”قحط سالی اس لیے بپا نہیں ہوتی کہ کسی علاقے میں سیلاب، خشک سالی یا کسی اور بڑی تباہی کی وجہ سے سبزیوں اور اجناس کی پیداوار نہیں ہوئی یا ضرورت سے کم ہوئی ہے بلکہ اس لیے ہوتی ہے کہ قوت خرید یا درکار رقم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اشیائے خورد و نوش خریدنے کے قابل نہیں رہتے“ ۔ بنگال کی خشک سالی ( 1943 ) کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ”30 لاکھ اموات غذائی قلت کے باعث (جو کہ باقی ہندوستان میں وافر مقدار میں موجود تھی) نہیں ہوئی بلکہ لوگوں کا روزگار (قوت خرید) چلے جانے کی وجہ سے ہوئیں۔
مزید اسباب میں کم کام کی دستیابی کے ساتھ ساتھ کم معاوضہ ملنا، اجناس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اور سب سے بڑھ کر برطانوی حکومت کا خوراک کی منصفانہ ترسیل اور تقسیم پر توجہ نہ دینا شامل ہیں“ ۔ گویا حکومت کی نا اہلیوں، غیر ضروری تاخیر، اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کی وجہ سے بھی درج بالا مسائل انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر سکتے ہیں۔
قاموس البرطانیہ کے مطابق ”قحط سالی کسی ایک یا دوسرے علاقے یا آبادی میں پیداوار کی کمی یا کسی اور قدرتی آفت کے نتیجے میں نسبتاً طویل عرصے تک برقرار رہنے والی سخت غذائی قلت، آبنوشی کی عدم فراہمی، اور بھوک کی کیفیت ہے جو اکثر اوقات وسیع پیمانے پر اموات یا بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔“ اقوام متحدہ کی رائے میں ”زیادہ عرصے تک افراد کی نشو و نما میں کمی واقع ہونا، وزن اور قد کا گھٹنا اور کام نہ کر سکنے کی حد تک کمزوری وسیع تر بھوک کی علامت ہے۔
“ ۔ ”بنگال کا قحط ( 1943 ) ، چین کا قحط ( 1959۔ 1961 ) ، حبشہ کا قحط ( 1984۔ 1985 ) اور شمالی کوریا کا قحط ( 1990 ) بیسویں صدی کے بڑے بڑے قحطوں میں شمار ہوتے ہیں“ ۔ جن کے اسباب اور اثرات کا مطالعہ کر کے دانشوروں (بالخصوص امرتیا سین) نے بہت کچھ سمجھنے، اور بچنے کے طریقے وضع کئیے ہیں۔ اگر ماضی قریب یعنی جولائی 2022 میں بیروت (لبنان) کے ساحل پر گندم کا ایک گودام کیمیائی اثرات سے منہدم ہو جانے کے بعد تقریباً 75۔ 70 لاکھ لوگوں کے غذائی قلت کا شکار ہو جانے کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ کیونکہ وہاں بھی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں یکا یک 300 گنا بڑھ کو ضرورت مندوں کی رسائی سے باہر ہونے لگیں۔ غرض سبب اور مقام کوئی بھی ہو نتیجہ اور اثرات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شدید ترین سیلابی صورت حال اور پیداواری اشیاء کے زیاں اور کمی کے باوجود بھی اگر آپ کوئٹہ، ڈیرہ غازیخان، لسبیلہ، دادو یا سیلاب سے متاثرہ کسی بھی شہر کے کسی بھی سپر اسٹور پر چلے جائیں تو آپ کو کھانے پینے کی چمچماتی ہوئی پیکڈ اور کھلی اشیاء ٹوکروں یا شیلفوں میں کھلکھلاتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ لیکن سیلاب سے متاثرہ کوئی شخص جس کا گھربار اور روزگار موجوں کی نذر ہو گیا ہو گیا ہو کیا ایک کلو پیاز یا آڑو بھی خرید سکے گا؟
’شاید نہیں‘ ۔ اسی لئے پروفیسر کی رائے میں ”کال یا قحط پیداواری کمی سے زیادہ اشیا تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں طلب، رسد اور قوت خرید میں عدم توازن کی وجہ سے“ ۔ اشیاء کا فقدان یا پیداوار ناپید ہونے کے سبب کال صرف قدیم دور میں پڑتا تھا جب رسل و رسائل کے ذرائع بہت محدود ہوا کرتے تھے۔ دراصل جب طلب رسد کی مساوات بگڑ جائے یعنی طلب بڑھ جائے، رسد کم ہو جائے تو نرخ آسمان کو چھونے لگتے ہیں اور اشیائے ضرورت عام آدمی کے ہاتھوں سے نکلنے لگتے ہیں۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہم رمضان میں بھی دیکھتے ہیں۔ بظاہر روزہ یعنی کم کھانے کی بجائے لوگ زیادہ کھاتے پکاتے ہیں اور طلب بڑھنے کی وجہ سے قیمتیں عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو جاتی ہیں۔ لیکن اسے سادہ لفظوں میں گراں فروشی، ناجائز منافع خوری یا گناہ کمانا وغیرہ کہا جاتا ہے۔ لیکن قحط سالی کا نام نہیں دیا حالانکہ پس منظر میں طلب رسد کے یہی محرکات کارفرما ہوتے ہیں اور منڈی کا رویہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا آج کل ہے۔
اس وقت بازار میں رسد میں کمی اور طلب میں اضافے سے آلو، پیاز، ٹماٹر اور ٹینڈوں کے سر بادلوں سے ٹکرا رہے ہیں۔ اور جب آلو، ٹینڈے اور ٹماٹر جیسی سستی ترکاری بھی اچھل اچھل کر خریدار کا سر پھوڑ رہی ہو تو سمجھ لیجے کہ حالات غیر معمولی حد تک خراب ہیں۔ اوتھل میں ایک پراٹھا لوگوں کو دونوں جیبیں ٹٹولنے پر مجبور کر رہا ہے۔ مبادا وہ اسے خرید بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ اور یہی حالت ہر متاثرہ جگہ پر ہر خوردنی چیز کی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق ، پاکستان میں مجموعی طور پر کنزیومر پرائس انڈیکس میں 28 تا 30 فیصد تک مزید اضافہ ممکن ہے۔ اور اگر سابقہ مہنگائی کو بھی مد نظر رکھا جائے، جس کے اسباب تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روس یوکرین جنگ وغیرہ بتائے جا رہے ہیں۔ تو ایک خوفناک بحران کا خدشہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ دریں اثناء اگر مشرقی یورپ کے کسی بھی ملک کی سرحد پر پہلی عسکری بندوق بول پڑی تو۔ !
معاشی اثرات اور اشاریے : فوری معاشی تجزیوں کے مطابق مہا سیلاب نے پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 5۔ 4 ارب ڈالر (تقریباً 8۔ 1 فیصد جی ڈی پی) کے خسارے سے دوچار کیا ہے۔ نتیجتاً درآمدات یعنی (گندم، چاول، کپاس، دالیں اور سبزیوں ) کے حجم میں مزید اضافے سے پاکستان میں ادائیگیوں کا عدم توازن ایک بار پھر بڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت حال کا منفی اثر 30 فیصد اشیائے خورد و نوش اور اشیائے صرف پر فی الفور مرتب ہوا ہے۔
چاول ہماری برامدی فصل ہونے کے باوجود اس سال تقریباً 10 سے 15 ملین ٹن چاول اور تقریباً 30 ملین ٹن گندم درآمدگی کی وجہ سے دونوں بنیادی اجزائے خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافے کے ساتھ جی ڈی پر بھی براہ راست متاثر ہو گا اور رواں سال ایک بار پھر پاکستان اپنی گروتھ کا ہدف ( 4 فیصد) حاصل کرنے میں منہ کی کھائے گا۔
جدید دور میں دال سبزی اور اجناس کی تیز ترین عالمی طب رسد کی بنا پر سوکھا پن نسبتاً کم ہو گیا ہے لیکن غذائی قلت پھر بھی مختلف اوقات میں مختلف علاقوں میں واقع ہوتی رہتی ہے جس کا ایک سبب زلزلہ یا ہولناک سیلاب بھی ہو سکتے ہیں۔ اور افسوسناک حد تک یہ صورت حال سندھ، بلوچستان اور سرائیکی وسیب میں واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کیونکہ ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور اتنی ہی زمین تا حال تہہ آب ہے۔ لاکھوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی مر گئے ہیں۔
یا پھر ان کو غضبناک موجوں کا طوفان سمت بے سمت بہا لے گیا ہے۔ گھروں یا دکانوں اور گوداموں میں موجود ٹنوں سبزیاں، پھل اور اجناس بھیگ کر ضائع ہو گئے ہیں۔ ملکی معیشت کو لگ بھگ 10 ارب ڈالر کا خسارہ ہونے جا رہا ہے۔ پانی کے انخلا اور مکمل بحالی سے پہلے نئی پیداوار اور روزگار کی بحالی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس پر مستزاد زلزلے سے کہیں زیادہ سیلاب کھڑے پانی کے تعفن، پینے کے پانی میں کدورتوں، فضلے کی شمولیت اور پھیلاؤ، مکھی مچھر کی پیداوار، خوراک کی آلودگی، کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے اور انسانوں اور مویشیوں دونوں کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ انسانوں کا کیا مذکور کیڑوں مکوڑوں، سانپوں اور رینگنے، دوڑنے والے تمام جانداروں کی مقامیت متاثر ہونے کے ضرر رساں اثرات بھی نواحی آبادیوں پر ہی منتقل ہوتے ہیں۔
آجوکے دور میں ایسی صورت حال صرف اشیائے خورد و نوش کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ ذخیرہ اندوز ناجائز منافع خوری کے لئے مارکیٹ میں اشیاء کی محدود سپلائی سے پہلے سے موجود بحران میں منڈی میں چیخ چیخ کر بولی لگانے والوں کی طرح معاشرے میں حواس باختگی کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں۔ گھبرا کر عام لوگ ایک کی بجائے دو اور دو کی بجائے کلو دال سبزی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر موجودہ کال میں ایک نوع کی نفسیاتی آپا دھاپی اور مارا ماری شروع ہو جاتی ہے۔
خدا نخواستہ اگر یہ کیفیت چند ہفتوں یا کچھ مہینوں تک قائم رہے تو چھینا جھپٹی، لوٹ مار اور غذائی فسادات پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں قانون کی کم فہمانہ عملداری، سہولت کی بجائے مسائل کو کئی گناء بڑھا دیتی ہے۔ اللہ نہ کرے مگر ایسے حالات جنم لینے سے پہلے ہی حکومت کو ایران، ہندوستان اور چین سے درکار سبزیاں اور اجناس وافر مقدار میں منگوا کر منڈی میں انڈیلنی چاہئیں اور ترسیلی زنجیر میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے تا کہ رسد میں اضافہ ہو کر طلب نیچے گرے۔
ذخیرہ اندوز نرخ گرنے کے خوف سے اپنے گوداموں کا منہ بغیر کسی قانونی دباؤ کے کھول دیں اور عام لوگ سراسیمہ خرید اور تقاضا روک دیں۔ مارکیٹ کا رویہ نارمل سطح پر واپس آئے۔ اور آلو ٹماٹر بھی انسانی رویہ اختیار کریں۔ اعلان شدہ امداد جتنی جلدی مستحقین اور متاثرین تک پہنچے گی، اتنی جلدی ان کی قوت خرید اور خوراک تک رسائی (اینٹائٹلمنٹ) بہتر ہو گی، غذا اور جنس کی صورت میں فراہم کردہ امداد (اقرباء پروری، سیاسی نمبرداری اور ووٹ پروری سے بالا تر) اگر منظم اور موثر طریقے سے تقسیم کی جائے تو سوکھے پن کی حالت اپنی راہ لے گی۔ حواس باختگی ختم ہو گی۔ اور طلب رسد کے معمول پر آنے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کے نرخ بھی معمول پر واپس آ جائیں گے۔
عمومی طور پر ہنگامی آفت کے دوران اور گزرنے کے بعد کے اہم ترین مسائل دو ہوتے ہیں : ایک تو کس طرح آفات کے اثرات کو زیادہ سے زیادہ مندمل یا کم کیا جا سکے، جسے معروف جملے میں ”پہلے سے بہتر تعمیر کرنا“ کہا جاتا ہے۔ دوسرا کس طرح ہنگامی امداد لینے والے لوگوں کو نہ صرف فوری مصیبت، بھوک، بیماری، بے گھری اور بے روزگاری سے نکالا جائے بلکہ ان کی معاشی حالت اس طرح بہتر کی جائے کہ وہ مستقل غربت کی لکیر سے اوپر آ سکیں۔
حکمت عملیوں میں پبلک انفراسٹرکچر اور پبلک ورکس کی جلد از جلد تعمیر اور اجراء (تاکہ لوگوں کو قوت خرید بڑھانے والا روزگار فراہم کیا جا سکے ) ، اشیائے خورد و نوش کی تیز اور منصفانہ ترسیل اور قیمتوں میں استحکام وغیرہ شام ہیں۔ پروفیسر سین کی رائے میں ”کارگر جمہوری ملکوں میں کال نہیں پڑتے، کیونکہ وہاں جمہوری نمائندوں کو اپنے حلقوں، عوامی تقاضوں اور جواب طلبی کا سامنا رہتا ہے۔ ان کی رائے میں صحت اور تعلیم معاشی اصلاحات سے کہیں زیادہ ضروری ہیں کیونکہ درج بالا استعداد لوگوں کی قوت خرید مستحکم کر کے خشک سالی جیسے بحرانوں میں بھی ان کی قوت خرید برقرار رکھتی ہے۔“ اس لیے صحت، تعلیم، بنیادی شہری ڈھانچوں کی تعمیر اور سیلاب مزاحم مگر عوام دوست اور فطرت آگاہ آبی گزر گاہیں، بند، بیراج، ہیڈ ورکس، رود کوہی اور کیچمنٹ ایریاز کے راستے اور بارانی زراعتی نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی ساتھ نہایت ضروری ہے کہ غذائی قلت دور کرنے کو قومی پالیسی ترجیح قرار دیا جائے۔ غذائی اور پیداواری تنوع اور صلاحیت کو بڑھا کر چاول اور گندم کے علاوہ دوسری اجناس، پھل اور سبزیاں بھی وافر، کثیر فصلاتی، وسط فصلاتی کاشتکاری یا دوسری ڈرپ اور کنزرویٹو اریگیشن کو فروغ دے کر خود کفالت بلکہ برامدی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو غذائی پیداوار اور آبپاشی کے جدید مگر انسان دوست پروگراموں، زرعی تحقیقی اداروں اور سٹوریج فسیلٹیز بنانے والوں کے ساتھ مالی اور تکنیکی تعاون کرنا چاہیے۔
چھوٹے کسانوں کو زمین کی فراہمی اور ان کے ساتھ فنی تعاون یقینی بنانا چاہیے۔ اور آخر میں گزشتہ تین دہائیوں کے آفاتی تجربے کو دیکھتے ہوئے نصاب میں موسمیاتی تغیر، قدرتی آفات اور خوراک کی پیداوار اور طلب رسد بارے میں ہر سطح پر خصوصی مضامین شامل کرنے چاہیں۔ کیونکہ پاکستان موسمی تغیر یا عالمی حرارت میں اعشاریہ 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود انتہائی متاثر ہونے والے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔
***
اے وی پڑھو:
تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر
چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر
گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر
گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر
سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر